سیدہ عروج فاطمہ
احسن کے امتحانات ختم ہوئے تواس کے ابو اسے اپنے دوست کے گھر لے گئے۔وہاں احسن سجی ہوئی چیزوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا، جب اُس کی حیارانی بڑھتی گئی تو اُس نے ابو کے دوست سے پوچھا،”محمود انکل! یہ گھر تو بہت خوبصورت ہے، یہ آپ نے کہاں سے لیا ہے؟“ احسن نے شیشے کا بنا ہوا چھوٹا سا گھر ہاتھ میں لینے کے بعد پوچھا۔
”بیٹا میں اٹلی گیا تھا، تو وہاں سے لے کر آیا تھا۔“ محمود صاحب نے احسن کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر بعد احسن نے شیشے کا گھر میز پر رکھنے کے بعد گلدان اٹھا لیا ۔
”احسن بیٹا! چیزوں کو یوں اُٹھاتے نہیں ہیں۔ یہ کھیلنے کی چیز نہیں ہے، ٹوٹ جائے گا۔ احسن کے ابونے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔
”بابا جان یہ مجھے بہت اچھا لگا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اسے، اس کی جگہ پر رکھ دوں گا۔“
اس کے ابو کو بہت افسوس ہوا کہ ان کے بیٹے نے ان کی بات نہیں مانی، جب وہ گھر واپس آئے، تو احسن نے محسوس کیا کہ ابو اس سے زیادہ بات نہیں کر رہے ہیں۔
”بابا جان کیا آپ ناراض ہیں؟“ اس نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”بیٹا! جب کسی کے گھر جاتے ہیں تو چیزوں کو اٹھا کر دیکھنا اچھی بات نہیں ہوتی ہے، آپ کو میں نے ایسا کرنے سے منع بھی کیا لیکن آپ نے میرا کہنا نہیں مانا۔ مجھے اس بات کا بے حد افسوس ہوا ہے۔“
”بابا جان آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔آئندہ کبھی آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔“
احسن نے جو کہا تھا وہ کرکے بھی دکھایا۔ اس کے بعد وہ جب بھی اپنے بابا جان کے ساتھ کسی کے گھر جاتا تو دوسروں کی چیزوں کو بس دور سے ہی دیکھتا تھا۔
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ کسی کی چیزوں کو اٹھانا اواُن سے کھیلنا بری بات ہے۔ چیزیں گر کر ٹوٹ بھی سکتی ہیں۔ اچھے بچے ایسا کام نہیں کرتے ہیں۔