سیدہ ناجیہ شعیب احمد
”پہلے کا دور آج سے کئی گنا بہتر تھا۔“ یہ فقرہ آج کے دور میں ہر دوسرے تیسرے فرد کے منہ سے سننے کو ملتا ہے۔ 60 سالہ رفیق صاحب کو اکثر و بیشتر یہ بات کہتے سنا ہے کہ ہمارے دور میں اتنی منہگائی نہیں تھی۔ ہر شے خالص دستیاب تھی۔ لوگ کھلے دل سے روزانہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ ہر ایک کے دکھ سکھ میں سگوں سے بڑھ کر ساتھ دیا کرتے تھے۔
مروت تھی، لحاظ تھا۔ بچے ادب واحترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے گفتگو میں احتیاط کا دامن تھامےرہتے تھے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اور زمانہ جتنی ترقی کر رہا ہے اتنا ہی جدیدیت کے طفیل مشکلات اور مایوسی کے گراف نے انتہائی برق رفتاری سے ساری مذہبی، روحانی اور اخلاقی حدیں پار کر لی ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو واقعی پچھلا دور بہت اچھا تھا۔ اس وقت نسلوں کے درمیان فاصلہ نہیں تھا۔ بڑے بچوں کو وقت دیتے تھے۔ بچے بھی بڑوں کے ساتھ وقت گزارنا کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں گردانتے تھے۔ انیسویں صدی تک نوجوان بڑے بوڑھوں کی محافل میں نہ صرف بیٹھتے بلکہ ان کی پند و نصائح کو بلا چوں چراں سماعت کرتے اور فوری عمل درآمد بھی کرتے،جبکہ آج جدید زمانے کے جدید تقاضے پچھلے زمانے کے بالکل برعکس ہیں، گو کہ زمانے کا اچھا یا برا ہونا ہمارے تلخ و شیریں تجربات و مشاہدات پر مبنی ہے اور یہ مشاہدات ہمارے اپنے گھروں اپنے بچوں سے شروع ہوتے ہیں۔ اسے ’’generation gap کہا جاتا ہے۔
نوجوانوں سے بڑے جو توقعات وابستہ رکھتے ہیں، نوجوان اس کے برخلاف کچھ اور کر گزرتے ہیں نتیجہ دونوں کے حق میں دوری کا سبب بنتا ہے۔ بڑوں کا چین سکون اور اطمینان غارت ہو جاتا ہے اور ان کی نوجوان نسل اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتی پھرتی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت کا رونا کہ ہمیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
نئے زمانے کے جدید تقاضوں کے مطابق ہماری ضروریات و خواہشات کا خیال نہیں رکھا جاتا، ہم پر زبردستی اپنے فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں۔ یوں نئی پود اور پرانے لوگوں کے درمیان سرد جنگ چھڑ جاتی ہے، جو دونوں طرف سے شدید قسم کے تناؤ کا باعث بن رہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خلیج کو ختم کرنے کے لیے فوری طور پر اہم اقدامات کیے جائیں۔
لیکن اس سے پہلے یہ کھوج لگانا ہوگا کہ اصل مجرم کون ہے؟
بڑوں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ ہم ان نوجوانوں میں وہ دلچسپیاں ، سرگرمیاں اور وہی شوق دیکھیں جو ہم میں تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ نوجوان نسل ٹی وی ، کمپیوٹر ، لیب ٹاپ اور سوشل میڈیا کے رنگیلے ماحول میں پرورش پارہی ہے، ان کی فہم و فراست ، ذہانت نو دس سال کی عمر میں اتنی ہے جو پچھلی نسل کی بیس سال کی عمر میں نہ ہوگی ۔ لہٰذا اس سلسلے میں بڑوں کو بڑے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی نسل کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ مل بیٹھ کر کچھ اپنی کچھ ان کی سننا ہوگی۔
قوی مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بات چیت سے خلاء پیدا ہونے کےامکانات ختم ہو جاتے ہیں لیکن یہ کام ہے بہت کٹھن۔ یہ خیال دیمک کی طرح دماغ کو چاٹنے لگتا ہے کہ ہم نے انہیں اسے پال پوس کر بڑا کیا ، زندگی کا قرینہ سکھایا، لکھنا پڑھنا،بولنا سکھایا ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن بچےجدید دور کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
ان کا دماغ بھی ایک مکمل خود مختار یونٹ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی سوچ، خیالات کا محور بھی آپ سے بہت زیادہ نہیں کچھ تو مختلف ضرور ہوگا۔ بس ایک بار آپ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں پھر خود دیکھیئے گا کہ وہ کس طرح آپ کی طرف لپکتے ہوئے آئیں گے اور پھر یہ دوری کس طرح کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔