چین کی خفیہ ایجنسی کے خلاف امریکی ایف بی آئی اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم پندرہ کے سربراہوں نے ایک مشترکہ بیان میں چین کی جاری سرگرمیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین دُنیا کے لئے بڑا خطرہ بن کر اُبھر رہا ہے۔ دُنیا کو چین کی جاری سرگرمیوں کا سخت نوٹس لینا چاہیے جبکہ چین کے وزیر خارجہ فرولیمان نے دونوں جانب کے پروپیگنڈہ کو سراسر لغو اور من گھڑت قرار دیا ہے۔
امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کے مطابق ایک عرصہ سے چین امریکی سائنسی، صنعتی، تجارتی اور تحقیقی راز چُرانے کی کوششیں کرتا آیا ہے اور اس مہم میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔
ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے ان خبروں کی تصدیق کی اور چین کی جاری اور ماضی کی سرگرمیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ چین خلائی اسٹیشن تعمیر کر رہا ہے اس حوالے سے اس کے چار خلا باز خلاء میں ہیں۔ پچھلی ٹیم چھ ماہ بعد واپس آئی ہے۔
چینی ایجنسی کے سربراہ نے ناسا کے چیف بل نیلسن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس کو یکسر مسترد کر دیا۔ چین نے کہا کہ یہ پروپیگنڈہ ہے چین خلاء یا چاند پر خلائی اڈّے تعمیر کر رہا ہے۔ یہ خلائی مشن صرف معلومات اور معمول کے ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ چین کے چار خلاء باز جو چاند پر گئے ہیں وہ 6 ماہ بعد زمین پر واپس آئیں گے۔ اس ضمن میں پہلے ہی کہا جاتا ہے کہ چین خلائی مشن کی کامیابی سے چینی صدر آئندہ دس سال مدت پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔ مبصرین کہتے ہیں وہ اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی اور پولیسٹ بیورو کی حتی الامکان کوشش ہے کہ 2023ء تک چاند پر اڈّہ تعمیر کر لے جو لگتا ہے تعمیر ہو جائے گا تاہم چین کا دُوسرا قدم مریخ کی طرف ہے اور چاہتا ہے کہ 2033ء تک مریخ بھی فتح کر لے۔ چین کی سرگرمیاں اور اس کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی ممکن ہے بلکہ ہو سکتا ہے 2030ء تک ہی مشن مکمل کر لے۔
جرمنی کے مبصر اور اسکالر شوبے نے ایک بیان میں کہا کہ چین نے پچھلے 40 سال میں بڑی کمپنیوں کی ٹیکنالوجی چُرا کر اپنی صنعتی ایمپائر بنائی، ایسے خلائی دُنیا میں بھی اپنا سکہ جما سکتا ہے۔ چینی عقل سے زیادہ نقل پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم زمانۂ قدیم میں چینیوں نے جڑی بوٹیوں سے دوائیں تیار کرنے میں اپنی جگہ بنائی تھی چنگیزی اور منگولوں کے حملوں نے چین کو بہت نقصان پہنچایا تب انہوں نے دیوار چین تعمیر کی مگر پھر بھی منگولوں کو دیوار نہ روک سکی۔ البتہ ہندوستان کی طرح چین نے بھی سرحد سے کسی ملک پر حملے نہیں کئے۔
بیسویں صدی کے آخر میں چین نے بتدریج ترقّی شروع کی 2022ء میں اس کا رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ صدر جن پن نے خاصی جارحانہ پالیسی سے صنعتوں کا جال بچھایا، دُنیا میں تجارت کو زبردست فروغ دیا، برّی فوج میں چار گنا اضافہ کیا اور گزشتہ سال سب کو کھلا کھلا پیغام دیا کہ اگر کسی نے چین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کی تو آنکھیں نکال لی جائیں گی۔ خلاء میں خلاء باز روانہ کرنا، سیارچے چھوڑنا عام بات ہے اس وقت دُنیا میں بارہ ممالک میں جو خلائی تحقیق پر کام کر رہے ہیں ان کے سیّارے خلاء میں ہیں۔
کیا چین کا خلائی مشن بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے؟
درحقیقت ماہرین واقف ہیں کہ چین کو خلائی تحقیق اور مشن میں روس کی بھرپور حمایت اور فنی مدد حاصل ہے یہ دونوں ممالک گزشتہ 6 برسوں سے اس پر کام کرتے آئے ہیں۔ مگر مغربی مبصرین کی رائے میں چین اور روس اس سے پہلے سے کام کر رہے تھے۔ جہاں تک روس کا تعلق ہے روس خلائی تحقیق کے معاملے میں امریکہ سے آگے ہے۔ اب امریکہ اس کے قریب تر ہے مگر اب چین کا مسئلہ مغرب کے لئے تشویش آمیز ہے کیونکہ ظاہر ہے اگر چین چاند اور خلاء کو عسکری مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوششیں کرتا ہے جیسے ظاہر ہو رہا ہے تو مغرب کی تشویش بجا ہے۔
روس سرمایہ کی کمی کی وجہ سے خلائی تحقیق پر زیادہ کام نہیں کررہا ہے۔ مگر چین کوا یسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے اس کے پاس وافر سرمایہ موجود ہے۔ پھر روس کا اشتراک ہے ایسے میں چین کو کوئی خلائی تحقیق اور مشن سے روک نہیں سکتا۔ روسی صدر ولادی میر پیوتن ایک سخت گیر رہنما ہیں ان کے ذہن میں جو سماتا ہے وہ اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ البتہ یوکرین کا مسئلہ اتنا طول پکڑے گا یہ انہوں نے نہیں سوچا ہوگا۔ مگر لیکن انہیں اس کی پروا نہیں ہے وہ وہاں مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں۔
اب مغرب کے لئے چین کا خلائی مشن بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ ویسے روس امریکہ چین کے لیزر سیارچہ چاند کےا طراف محو گردش ہیں جو دُنیا کے لئے یوں بھی بڑا خطرہ ہیں۔ اگر مغرب اور چین کی خلائی دوڑ میں اضافہ ہوگیا تو خطرہ دوچند ہو جائے گا۔ چین کے وزیر خارجہ زوہو لیمان اس معاملہ میں خاصے پُرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی ادارے ناسا نے اس پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔
ایک طرف یوکرین کا تنازع طول پکڑتا جا رہا ہے دونوں کا مسئلہ اپنی اپنی طاقت اور عالمی سیاست میں پوزیشن کا ہے۔ روس نے اپنے مفاد میں ایک جواز بنا کر جنگ شروع کی مغربی قوتوں نے روس پر پابندیوں کا سلسلہ دراز کرنا شروع کیا۔ مگر آج کی دُنیا بھی ہر دور کی طرح مفادات کی دُنیا ہے۔ روس نے پابندیوں کا توڑ شروع کر دیا۔ دُوسری طرف مغرب نے یوکرین کو اسلحہ دے کر لڑنے پر آمادہ رکھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی صدر فی الفور جنگ بند نہیں کرنا چاہتے کیونکہ شروع انہوں نے کی تھی اگر وہ جنگ بند کرنے، صلح کرنے کی تجویز دیتے ہیں یہ ان کی کمزوری سمجھی جائے گی۔ مغربی قوتیں جنگ بند نہیں کرنا چاہیں گے کیونکہ اس طرح روس کو مصروف رکھا جائے اور اس بہانہ اس پر اقتصادی سیاسی ثقافتی پابندیاں جاری رکھی جا سکیں۔ اس دوطرفہ شیطانی حکمت عملیوں کی وجہ سے اُمید کم سے کم ہے کہ کوئی فریق یوکرین کی جنگ بند کرنے میں مخلص ہو۔
روسی عوام کی ایک نمایاں تعداد اس جنگ کے خلاف ہے، ان کا کہنا ہے یا تو صدر پیوٹن اقتدار سے الگ ہو جائیں یا دونوں ممالک کے بیچ کسی طرح صلح ہو جائے تب ممکن ہے جنگ بند کی جائے، بصورت دیگر جنگ بندی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
سوال یہ بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ آخر صدر پیوٹن کو یوکرین جیسے غریب ملک پر حملہ کی کیا ضرورت پیش آئی جو راتوں رات اتنا بڑا حملہ کر دیا۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ روسی صدر پیوٹن کی اقتدار میں آنے کے بعد یہ اوّلین خواہش تھی کہ روس کو سابق سوویت یونین کی طرح عالمی سطح پر فعال رکھا جائے اور اس کو اہم مقام دلایا جائے اس لئے انہوں نے یوکرین کی سرحد اور اس کا نیٹو میں ممکنہ شرکت کا بیانہ تراشا۔
روسی صدر نے کچھ اندازے غلط بھی لگائے مثلاً انہوں نے بیک وقت دُنیا کو روس کے خلاف کر لیا۔ اقتصادی تجارتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور روس میں ایک رائے عامہ کو اپنے اس اقدام کے خلاف کر لیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ روس کو اس تمام مہم جوئی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ مشترقی یورپی ممالک الگ روس سے مزید مشکوک ہوگئے۔ مگر روس میں صورت حال دُوسری ہے صدر پیوٹن نے اپنے تمام سائنس دانوں اور ماہرین کو صرف اسلحہ سازی اور جدید سے جدید ہتھیار تیار کرنے پر مامور کر دیا ہے۔
صنعتوں اور زرعی ترقّی پر کم کم توجہ دی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ معاشی اور زرعی ترقّی رُک جانے کی وجہ سے سوویت یونین کو منتشر ہونا پڑا تھا۔اگر پھر ویسی ہی حکمت عملی اپنائی گئی تو نتیجہ بھی ویسا ہی برآمد ہونے کا خدشہ ہے۔ مگر کہا جاتا ہے کہ روسی صدر پیوٹن قدرے ضدّی واقع ہوئے ہیں۔ مغرب کے لئے یہ ایک سخت معرکہ ہے وہ یوکرین کی سلامتی آزادی کا تحفظ چاہتا ہے مگر کیسے؟
یہ بڑا سوال اس لئے اہم ہے کہ روس جنگ طول دینے میں خوش ہے۔ جواباً مغرب یوکرین کو کب تک اور کتنا اسلحہ فراہم کرتا رہے گا، پھر یوکرین کے عوام کا مسئلہ ہے اب تک کہا جاتا ہے پینتیس فیصد آبادی نقل مکانی کر چکی ہے باقی آبادی شدید مسائل کا شکار ہے۔ بجلی کی فراہمی شدید تعطل کا شکار ہے۔ اسپتال تباہ ہو چکے ہیں، غذائی قلت شدید ہو چکی ہے دوائیں ناپید ہیں۔ لوگوں کا روزگار تباہ ہو چکا ہے۔
مشرقی یورپی ممالک جو پہلے پسماندہ ہیں یوکرین کے عوام کی نقل مکانی اور دیگر معاشرتی مسائل کی وجہ سے زیادہ پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مشرقی یورپ اپنی انرجی کے لئے روس سے چالیس فیصد تیل اور قدرتی گیس کا خریدار ہے۔ اس کے بغیر مشرقی یورپ انرجی کا تصوّر نہیں کر سکتا اس کے لئے ہالینڈ، جرمنی، بلجیم بھی بڑے خریدار ہیں اور ان کی انرجی کی ضروریات روس کے بغیر ممکن نہیں ہے، حالانکہ بار بار امریکہ یورپی ممالک کو روس پر انحصار کم سے کم کرنے کی تاکید کر رہا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر رکھنے کی بدولت روس کی یورپ میں اہمیت ہے جبکہ یورپ کو روس کے تیل اور قدرتی گیس کی ضرورت زیادہ ہے۔
اس تمام تناظر میں مغرب کے لئے یہ بڑا مسئلہ ہے کہ یوکرین کا تحفظ اور سلامتی کیسے برقرار رکھے۔ بیشتر مبصرین کی رائے میں وہ یوکرین پر زور دینے کو ترجیح دیتے ہیں کہ وہ روس سے صلح کر لے۔ مگر اب روس نے سوئیڈن اور فن لینڈ کو بھی نشانہ پر رکھ لیا ہے۔
باور کیا جاتا ہے کہ یوکرین کا مسئلہ اگر حل ہو بھی جائے تو روس اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گا اس مسئلے کا حل مغرب کے پاس نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یوکرین کی لڑائی کو طول دیا جائے۔ مگر کب تک؟ یہ سوال سب سے اہم ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ روسی آزاد ذرائع کہتے ہیں کہ جب تک روسی صدر پیوٹن اقتدار میں ہیں یورپ میں کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔