ایک اور حوا کی بیٹی بوڑھے باپ کو بچاتے ہوئے شوہر کی گولیوں کا ایندھن بن کر موت کے منہ میں چلی گئی، یہ واقعہ قومی شاہ کریم آباد بس اسٹاپ پر اس وقت پیش آیا جب غلام قادر کلہوڑو کی اپنے سسر لال بخش سے اس وقت تلخ کلامی ہوئی، جب وہ اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آیا ہوا تھا، اس موقع پر پولیس کے مطابق لال بخش کی اپنے داماد غلام قادر کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی جس پر غلام قادر غصے سے پاگل ہو گیا اور اس نے بندوق نکال کر اپنے بوڑھے سُسر پرفائرنگ کر دی، لال بخش گولی لگتے کے بعد تڑپ رہا تھا کہ اس کی بیٹی عائشہ اپنے باپ کو بچانے کے لیے آگے بڑھی، تو اس کے شوہر نے اس پر بھی فائر کھول دیا، اس موقع پر لالل بخش تو موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، جب کہ عائشہ شدید زخمی ہو گئی۔
اس موقع پر گھر میں موجود غلام قادر کلہوڑو کا بڑا بیٹا جس کی عمر دس سال ہے، اپنی دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ اس خوف ناک منظر کو دیکھ کر دھاڑیں مار کر رونے لگا، بچوں کی چیخ و پکار اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سُن کر پڑوسی دوڑے اور گھر میں داخل ہوئے، تو اس وقت لال بخش کی لاش پڑی تھی اور اس کی بیٹی عائشہ خون میں لت پت تڑپ رہی تھی، جب کہ بچے اپنی زخمی ماں سے لپٹ کر بلک بلک کر رو رہے تھے ۔ تاہم سنگ دل باپ غلام قادر کلہوڑو اپنے بچوں کو تڑپتا دیکھ کر بھی اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور وہ موقع سے فرار ہوگیا۔ اس موقع پر وہاں موجود آفرد نے پولیس کو اطلاع دی اور پولیس نے زخمی خاتون کو تعلقہ اسپتال قاضی احمد پہنچایا۔
تاہم شومئی قسمت کہ اسپتال میں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا اور زخمی خاتون بُری طرح تڑپتی رہی اور اس کی چیخیں عرش کو ہلا رہی تھیں، لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ اسپتال میں موجود طبی عملے کے کانوں پر جوں بھی نہیں رہینگی اور نہ ہی کسی ڈاکٹر نے اسپتال آکراس بے بس خاتون کی جو کہ اپنے بچوں کے سامنے زخموں سے چُور اسٹریچر پر تڑپ رہی تھی اور بعد ازاں اسپتال کے صحن میں تڑپ تڑپ کر اپنی جان کی بازی ہار گئی، اس روح فرسا منظر کو دیکھ کر اسپتال میں موجود دیگر مریض جن میں خواتین اور بچے شامل تھے، اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے اور پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگے۔
تاہم مقتولہ کے بچوں کی چیخیں بھی مسیحاؤں کے ضمیر کو نہ جگا سکیں،اس موقع پر مقتولہ عائشہ کے بیٹے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد غلام قادر کلہوڑو نے گھر پر آئے نا نا لال بخش سے تلخ کلامی کی اور اس کے بعد غصے میں آ کر بندوق کا فائر کیا اور جوں ہی میری ماں عائشہ میرے نانا کو بچانے کے لیے دوڑیں، تو میرے والد نے ان پر بھی فائز کیا، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسپتال آنے کے بعد ڈاکٹر موجود نہیں تھا اور میری ماں تڑپتی رہی اوراس کے بعد وہ ہمیں چھوڑ کر اللہ کے پاس چلی گئی۔
ادھر اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر دولت علی جمالی نے بتایا کہ اس واقعہ میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی مبینہ غفلت کی تحقیق کے لیے تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور چیئرمین کمیٹی ڈاکٹر محمد عمر جمالی تعلقہ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اسلم پرویز ڈاھری اور پیپلز میڈیکل یونی ورسٹی کی گائناکولوجسٹ ڈاکٹر نجمہ کوثر شامل ہیں اور ان کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کی انکوائری کریں کہ مقتولہ خاتون عائشہ کس وقت اسپتال پہنچیں اور کیا انہیں میڈیکل ٹریٹمنٹ دیا گیا یا نہیں اور ڈاکٹر کیا وہاں موجود تھے یا نہیں تھے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر دولت جمالی کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی شفاف انکوائری کی جائے گی اور جو بھی اس میں ملوث عناصر ہیں، ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔ تاہم ضلع شہید بینظیر آباد میں سرکاری اسپتالوں کی جو حالت زار ہے، اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر دولت جمالی نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ ضلع میں ڈاکٹروں کی شدید قلت ہے اور اسپتالوں میں ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ جب سے انہوں نے چارج لیا ہے، محکمہ صحت حکومت سندھ کو بار بار اس سلسلے میں توجہ مبذول کرانے کے لیے لیٹر لکھے گئے ہیں۔