• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا فیصلہ آنا چاہئے جس سے پاکستان کی خیر ہو، خورشید شاہ

کراچی (ٹی وی رپورٹ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا کہ ن لیگ کا بیانیہ اچانک جارحانہ نہیں ہوا ہے ۔ ہم نے جس بڑے مقصد کیلئے قربانی دی تھی ہماری قربانی کواس تناظر میں لیا نہیں گیا، ہم نے اداروں میں بیٹھے لوگوں کی غلطیاں اپنے سر لی، جبکہ رہنما پیپلز پارٹی ووفاقی وزیر آبی وسائل، خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ ہم آج تک جسٹس منیر کو نہیں بھولے آج ہم جسٹس انوار الحق کو نہیں بھولے، ایسا فیصلہ آنا چاہئے جس سے پاکستان کی خیر ہوا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام کی میزبانی مبشر ہاشمی نے کی۔ میاں جاوید لطیف نے یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح مسلم لیگ کو ماضی میں دیوار سے لگایا جاتا رہا اور اداروں کی طرف سے قبول نہ کیا جاتا رہاوہ ہی آج وجہ ہے۔ہماری قربانی تو اس لئے تھی ہم پاکستان کو جو معاشی طور پر دیوالیہ دیکھ رہے تھے اس کیلئے ہم نے قربانی دی تھی۔ کبھی یہ تو نہیں سوچا تھا کہ ہم نے چار سالہ ملبہ اپنے کاندھوں پر یا اداروں میں بیٹھے لوگوں کی غلطیاں جو ریاست کیلئے کی ہوئی غلطیاں ہیں اس کو اٹھائیں گے۔ چار ماہ پہلے تک تو عمران خان یہ کہتے تھے ستمبر ،نومبر 2022ء میں کسی طور پر الیکشن نہیں ہوسکتے الیکشن ہوئے تو قیامت آجائے گی۔ آج یہ کہہ رہے ہیں کہ ستمبر اکتوبرسے پہلے 2022ء میں اگر انتخابات نہ ہوئے تو تب بھی قیامت آجائے گی یہ منطق ہے کیا وجہ کیا ہے لوگوں کو یہ بے وقوف سمجھتے ہیں۔ جو آوازیں دائیں بائیں سے آرہی ہیں کہ ہم نرم مداخلت کررہے ہیں مداخلت مداخلت ہی ہوتی ہے وہ نرم ہو یا سخت ہو۔ کسی طور پر بھی غیر آئینی طریقے سے آئین میں مداخلت نہیں کی جاسکتی اور پچھلے چار ماہ سے جو روش اپنائی گئی ہے۔ اداروں میں بیٹھے چند لوگوں کی خواہش کی تکمیل کیلئے جو اسائمنٹ عمران خان گلی کوچوں میںلے کر پھر رہے ہیں اس سے ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔اگر یہ اسائمنٹ سلیکشن کمیٹی کی جانب سے آئی ہے کہ پہلے بھی اس کو سلیکٹ کردیا گیا تھا۔ قومی رہنمائوں کے خلاف چور ، ڈاکو کے الزامات لگاتا تھااور قومی جماعتوں کو کمزورکیا گیا آج بھی یہ وہی باتیں کررہا ہے۔سازش ہے کیا سازش تو یہ ہے کہ جو پاکستان کے خلاف ہورہی ہے سازش تو یہ ہے جو پاکستان کے اداروں کو کمزور کررہا ہے ۔ جو کہہ رہا ہے کہ بند کمروں میں جنرل اور ججز فیصلے کرتے ہیں اس کے خلاف چار ماہ میں بند کمرے کاکوئی فیصلہ آیا ہے تو اسے کوڈ کرے ۔اس سے پہلے نواز شریف کے خلاف،ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ، مریم نواز شریف کے خلاف بند کمروں میں فیصلہ کریں اس کی تلافی پھر ہونی چاہئے۔جو کانٹے بوئے گئے ہیں جنہوں نے بوئے ہیں ان کوچننے پڑیں گے۔جب بار بار کہا گیا کہ ہم نیوٹرل ہیں ہم نے وسیع ترقومی مفاد میں حکومت کا ایک مشکل ٹاسک بھی لیا اور ہم نے یقین کرلیا ۔ہم نے مصیبتیں ، جیلیں کاٹیں ہم انہیں بھلا کر آگے بڑھنا چاہتے تھے ہم آگے بڑھ رہے تھے مگرمالیاتی طور پر جونقصان چار سالوں میں پاکستان کے اندر ہوچکاتھا۔مالیاتی اداروں سے جو ڈیل ہم کررہے تھے قومی مفاد میں ضرورت کے تحت کرنے جارہے تھے اس میں بھی سیاسی عدم استحکام لاکروہ ڈیل بھی متاثر کی جارہی ہے۔مسلم لیگ ن پر یہ الزام تھا کہ اس نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا جب کہ حقائق یہ تھے کہ سپریم کورٹ کی عمارت میں بلا اجازت جو لوگ داخل ہوگئے تھے اس کی وجہ سے مسلم لیگ پر یہ الزام آیاایف آئی آر ہوئی لوگ گرفتار ہوئے۔دو دن پہلے سپریم کورٹ کی عمارت میں کس طرح داخل ہوا گیادیواریں پھلانگیں گئیں دروازے توڑے گئے کیا اس کو سپریم کورٹ کے ساتھ آپ اظہار یکجہتی کہیں گے ۔ پھر ادارہ کیوں نہیں حرکت میں آیاپھر ہم کیوں نہ یہ سمجھیں کہ ادارے پر حملہ ہوا ہے اور اگر ادارے پر یہ حملہ نہیں ہے تو اس وقت بھی پھر حملہ نہیں تھا۔ تو اس وقت جو مسلم لیگ کی قیاد ت پر الزامات گئے تھے پھر یا وہ واپس لینی چاہئیں ۔یا سپریم کورٹ پر حملے کی ایف آئی آر عمران خان سمیت ان کی قیادت پر ہونی چاہئے ۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ ایک کے لئے رویہ کچھ اور ہے اور دوسرے کے لئے فیصلے کچھ اور ہیں۔یہ لاڈلہ تھا اور لاڈلہ ہے لاڈلہ تھاتو ان کے کہنے پر بار بار کہتا تھا کہ امپائر کی انگلی کھڑی ہونے والی ہے ان کے کہنے پر جو کچھ اس نے کہا وہ فیصلے آئے۔آٹھ سال سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں ہورہااور جو چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے یہ زبان استعمال کررہا ہے۔جو گالیاں دے رہا ہے اور جس طرح اس کو دبائو میں لارہا ہے تو ڈیڑھ ماہ سے محفوظ فیصلہ کیوں نہیں سنایا جارہا ہے۔ہم اداروں کا احترام کرتے تھے اور کرتے ہیں لیکن اداروں میں بیٹھے لوگوں سے کوئی غیر آئینی فعل ہوجاتا ہے تو اس پر بات کرنا جرم نہیں ہے اس پر تنقید کرناجرم نہیں ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ یہ مسائل پیدا کیوں ہوتے ہیں ہم ان مسائل کو پہلے کیوں نہیں دفن کردیتے ۔
اہم خبریں سے مزید