اسلام آباد (عبدالقیوم صدیقی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس اور حال ہی میں ریٹائرہونے والے تین سابق ججوں نے بھی آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے پیدا ہونے والی آئینی قانونی اور سیاسی صورتحال اور مقدمات کے پیش نظر فل کورٹ بنانے پر زور دیا ہے ۔
جیو نیوز کے نمائندہ نے اس حوالے سے ریٹائرڈ ججز سے بات کی سابق چیف جسٹس اور دو حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ججز نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اس معاملے پر فل کورٹ ہی حل ہے اسی سے عدلیہ کے وقار غیر جانبداری اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو تقویت ملے گی ۔
صحافتی تقاضوں کے پیش نظرہم ان کے نام ظاہر نہیں کر رہے ۔ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 63اے کے حوالے سے آئین کو ری رائٹ کرنیکی تباہ کاری شروع ہو گئی ہے.
سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس کا نام نہیں ہے بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے دیدہ دلیرانہ عدالتی روایات کی خلاف ورزی میرے لیے انتہائی تعجب کی بات ہے۔جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت حساس آئینی معاملہ ہےان کا کہنا تھا کہ چند مخصوص ججز کا ہر اہم آئینی معاملے پر عدلیہ کے وقار، غیر جانبداری اور انصاف کی فراہمی کے عمل کیلئے تباہ کن ہو گا۔
جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کا کہنا تھا کہ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ63اے کے مقدمات پر فل کورٹ بنانے سے کسی کو کیا نقصان ہوجائیگا۔
ان کا کہنا تھا کہ فل کورٹ یہ معاملہ سنے گا تو ایک متوازن عدالتی حکم ہوگا ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں 63اے پر نظرثانی سمیت تمام متعلقہ مقدمات کو یکجا کر کے فل کورٹ کو سننا چاہیے۔