اسلام آباد (فاروق اقدس) حکومتی اتحاد اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے تناظر میں فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ ایک نئے آئینی اور سیاسی بحران کی صورت میں سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے جس کے باعث وفاقی دارالحکومت میں ایک سیاسی تنائو کی کیفیت نظر آرہی ہے اور آج سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں.
آج صبح حکومتی اتحاد اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری کی سربراہی میں اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے بعد سپریم کورٹ روانہ ہونگے.
مولانا فضل الرحمٰن اتوار کو ڈیرہ اسماعیل خان اور آصف علی زرداری کراچی سے اسلام آباد پہنچے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی اسلام آباد پہنچنے کی بھی اطلاعات ہیں.
ان رہنمائوں نے اتوار کی شب اپنی جماعتوں کے قانونی و آئینی ماہرین کے ہمراہ باہمی رابطے، ملاقاتیں اور مشاورت کی جبکہ اتوار کو تمام دن حکومتی اتحاد کے رہنما ءپریس کانفرنسوں، انٹرویوز اور ٹی وی ٹاک شوز میں اسی حوالے سے اپنے موقف پر مبنی اظہار خیال کرتے رہے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا.
پنجاب کے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز جنہوں نے اپنے رفقاء کی جانب سے طے شدہ حکمت عملی کے تحت اتوار کی شب اپنے منصب کا حلف دوبارہ اٹھایا تھا، کیا وہ بھی پیر کی صبح اسلام آباد میں موجود ہونگے؟ ،
اسی طرح پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے بارے میں بھی خیال ظاہر کیا جاتا رہا کہ شاید وہ سپریم کورٹ میں موجود ہوں لیکن اس بارے میں متضاد اطلاعات توملتی رہیں لیکن حتمی طور پر انکی تصدیق نہیں ہوسکی اور اب صورتحال یہ ہے کہ صرف پنجاب کا ہی نہیں بلکہ قومی سیاست کا ایک اہم منظر پیر کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے اندر اور باہر نظر آئیگا جہاں کسی غیر متوقع، ناخوشگوار صورتحال سے پیشگی طور پر نمٹنے اور صورتحال کو معمول پر رکھنے کیلئے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں.
اطلاعات کے مطابق کہ چوہدری شجاعت حسین اپنے صاحبزادے سالک حسین کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں اور آج وہ خط کے معاملے میں سپریم کورٹ میں بھی پیش ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں.
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے ارکان، رہنمائوں اور سپیکر پرویز الٰہی کی جانب سے الزام لگایا جاتا ہے کہ چوہدری شجاعت پر دبائو تھا اور ان سے منسوب خط جس پر ڈپٹی سپیکر نے فیصلہ دیا، جعلی ہے.
اس سارے تناظر میں ایک طرف شجاعت حسین کی سپریم کورٹ میں موجودگی انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی تو دوسری طرف وہ سپریم کورٹ جاکر یقیناً اپنے بارے میں اس تاثر کی بھی عملی طور پر تردید کرنا چاہیں گے کہ وہ ذہنی طور پر صحیح فیصلے کرنے کی مکمل استطاعت رکھتے ہیں اور اس بارے میں انکے حوالے سے جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے وہ قطعی طور پر بے بنیاد ہے.
پی ڈی ایم کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر جنہیں اس حیثیت میں مذہبی اور دینی حلقوں میں انتہائی احترام کا درجہ حاصل ہے ،نےاتوار کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران عمران خان کی طرز سیاست پر شدید تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ پاکستان میں شرافت، صداقت اور باوقار نظریے کی سیاست کہاں چلی گئی، فضل الرحمٰن کا سیاست کی موجودہ بدحالی کے حوالے سے یہ استفسار بالکل درست تھا امر واقعہ ہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی بحران کے باعث پیدا ہونیوالی صورتحال میں اب سیاسی قائدین اور رہنمائوں کے ایک دوسرے پر لگائے جانیوالے الزامات اپنے موقف کے اظہار اور مخالفین کو مخاطب کرنے کیلئے جو طرز تکلم اختیار کیا جارہا ہے اس سے ایک اخلاقی بحران بھی پیدا ہو رہا ہے، مخالفین کی بزرگی، سیاسی خدمات اور حسب نسب ملحوظ خاطر رکھے بغیر جس طرح انکا تذکرہ، انکی سیاسی کردار کشی کیلئے جو لب ولہجہ اور الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں انہیں سن کر واقعی ندامت ہوتی ہے اور مولانا صاحب اس بات کو بھی تسلیم کرینگے کہ خود بسا اوقات انکی سیاست کا لب و لہجہ بھی انکے والد محترم اعلیٰ حضرت مولانا مفتی محمود کے کلام سے مطابقت نہیں رکھتا، پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ گواہ ہے کہ خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، غلام مصطفیٰ جتوئی، مولانا شاہ احمد نورانی، نوابزادہ نصر اللہ خان، ایئر مارشل (ر) اصغر خان، ملک معراج خالد، پروفیسر غفور احمد اور ان جیسےماضی کے بے شمار قابل احترام سیاستدانوں نے شدید مخالفت کے دوران بھی حفظ مراتب کا باہمی احترام قائم رکھا.
شکوہ بھی کیا تو اس انداز اور ایسے الفاظ میں کے مقابل خود شرمندہ ہوجائے اور یہی وجہ تھی کہ اس دور میں قومی اسمبلی کے سپیکر کو کارروائی سے قابل اعتراض الفاظ حذف کئے جانے کی رولنگ شازو نازر ہی دینی پڑی ہو، یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں اس صورتحال میں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔