کراچی ( ٹی وی رپورٹ) سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ مداخلتوں کو کم کرنا ہوگا ، سینئر صحافی وتجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ جمہوری دور میں گوادر لیا اور غیر جمہوری ادوار میں ملکی علاقہ کھویا، کسی بھی کرپٹ اورکمزور سیاستدان کے دور میں بھی پاکستان نے اپنا علاقہ نہیں کھویا، سینئر تجزیہ کار وسینئر صحافی شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ ملک کا زیادہ تر نقصان غیر جمہوری قوتوں کے دور میں ہوا ہے ، ملک کا جو حال ہوا ہے وہ سیاستدانوں نے نہیں کیا وہ مارشل لاؤں نے کیا ہے، سینئر صحافی وتجزیہ کار ،ارشاد بھٹی نے کہا کہ آمربرے ہوتے ہیں لیکن آمروں کی نشانیاں بری کیوں نہیں ہیں آ مروں کی پیداوار بری کیوں نہیں ہیں،تجزیہ کاروں نے ان خیالات کا اظہار جیو نیوز سے گفتگو کے دوران کیا ۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار ،حامد میرنے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں فوجی آمروں کی مداخلت رہی ہے اگر عدلیہ اس کی تائید نہ کرتی اور نظریہ ضرورت کے تحت اس کو جائز قرار نہ دیتی تو پاکستان کی سیاست آج مختلف ہوتی۔عمران خان کے رویئے میں لچک نظر آنا شروع ہوگئی ہے مگر ہر چیز ٹی وی اسکرین پر نظر نہیں آئے گی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ جو بھی آئے بظاہر آپ کو یہی لگے گا کہ ایک نیا بحران پیدا ہوگیا ہے لیکن فیصلے سے قبل بہت سی مخالف سیاسی شخصیات ایک دوسرے کی جان کی دشمن جو نظر آتی ہیں ۔ انہوں نے درمیان میں بندے ڈال کر ایک دوسرے کے ساتھ کچھ نہ کچھ بات چیت کا آغاز کردیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ ہم سیاستدانوں کو بات چیت کے لئے کسی تیسری قوت کی مدد لینا پڑے۔آج تک کسی بھی کرپٹ اور کمزور سیاستدان کے دور میں پاکستان نے اپنا علاقہ نہیں کھویااگر آپ نے اپنا علاقہ کھویا تو اس وقت کھویا جب غیر سیاسی قوتوں کا قبضہ تھا اور آئین پامال تھا۔ان ڈکٹیٹروں نے کرپٹ اور ابن الوقت ججوں کے ساتھ مل کرپاکستان کا سیاسی سسٹم تباہ کیا،قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو اس تباہی کے دہانے پر لے کر آئے ہیں ۔میں ابھی بھی پر امید ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہم پاکستان کو اس بحران سے نکالیں گے۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار ،شاہ زیب خانزادہ نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولورائزیشن تو ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اختلاف رائے کرنا بھی چھوڑ دیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ مداخلتوں کو کم ہونا پڑے گا،عمران خان کاابھار بطور سیاسی لیڈر ہورہا تھاان کی بہت بڑی جدوجہد ہے اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، ایک مقبول لیڈر ہیں مگر انہوں نے شارٹ کٹ لیا۔ جب شارٹ کٹ لیا تو مداخلت کا راستہ دوبارہ شروع ہوامداخلت کا راستہ ایسا شروع ہوا کہ آج عمران خان صحافیوں سے مل کر کہتے ہیں کہ مجھے تو کوئی فیصلے نہیں کرنے دیتے تھے ۔جب حکومت میں تھے تو کہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ جو کرتی ہے میرے کہنے پر کرتی ہے کیوں کہ وہ لوگ لائق ہیں ان کے پاس اختیارات اور تجربہ بھی ہے اگر وہ لوگ کررہے ہیں تو ٹھیک ہے۔