• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر جوبائیڈن نےکانگریس کی اسپیکر خاتون نینسی پلوسی کے مجوزہ دورئہ تائیوان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہےکہ چند روز بعد وہ خود تائیوان کے دورے پر جانے والے ہیں جہاں وہ چین کے صدر شی چن پنگ سے ملاقات کریں گے۔امریکی دفاعی مشیر نے بھی نینسی پلوسی کے مجوزہ دورے کی مخالفت کرتے ہوئے بیان دیا کہ یہ وقت نینسی پلوسی کے دورے کے لئے قطعی مناسب نہیں ہے ۔وائٹ ہائوس انتظامیہ کو تشویش ہے کہ کانگریس کی اسپیکر کو کیا جلدی ہے۔ نینسی پلوسی کے مجوزہ دورے کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ تائیوان کو امریکا کے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلانا چاہتی ہیں، حالانکہ صدر نے حال ہی میں 1.4ملین ڈالر کا امدادی پیکیج کا بھی اعلان کیا ہے۔

دوسری طرف چین کے صدر شی جن پنگ نے نینسی پلوسی کے مجوزہ دورے پر ناراضی کا اظہار کیاہے۔

چینی سفیر کا کہنا ہے کہ تائیوان پر چین ضرور قبضہ کرے گا۔ ایسے میں دونوں سپر طاقتوں کے مابین جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ مگر بعض مبصرین کہتے ہیں تائیوان اور امریکا کے مابین ایسا کوئی معاہدہ نہیں کہ اگر تائیوان پر حملہ ہوا تو امریکا اس کا دفاع کرے گا۔

حال ہی میں امریکہ، جاپان، آسٹریلیا، برطانیہ نے چار ملکوں کا دفاعی معاہدہ کیا ہے اور برطانیہ نے ایک ایٹمی آبدوز بھی آسٹریلیا کو دی ہے۔ جس پر چین نے زبردست احتجاج کیا ہے۔ چین نے خطہ میں اپنی دفاعی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لڑاکا بحری جہاز آسٹریلیا جاپان تک روانہ کرتا ہے۔ اس مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے جاپان بھی دفاعی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔ جنوبی بحیرہ چین کا علاقہ اس وقت بڑی فوجی چھائونی میں تبدیل ہو چکا ہے۔

جنوبی بحیرہ چین میں تائیوان آتا ہے اور چینی لڑاکا طیارے تائیوان کی فضائی حدود کی دس بار خلاف ورزیاں کرتے ہیں اور اس پر پرواز کرتے ہیں۔ چین فوجی بحری جہازوں نے ایک طرح سے تائیوان کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے فلپائن، ویت نام، لائوس، کمبوڈیا، تھائی لینڈ سب ہی ہراساں ہیں۔

بحیرہ جنوبی چین میں چائنا نے مصنوعی جزیروں کی تعمیر کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے۔

تائیوان کی آبادی دو کروڑ تیس لاکھ اور رقبہ 36 ہزار کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ تائیوان ترقی یافتہ ملک ہے ، جدید ہائی ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ تعلیم، صحت عامہ اور دفاعی امور خاصی رقم خرچ کرتا ہے۔

1960ء کے عشرے میں تائیوان نےاتنی تیزی سے ترقی کی کہ ایسا لگاایک معجزہ ہوگیا۔ درحقیقت ہوا یہ کہ ساٹھ کی دہائی میں جاپان نے ہائی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنی پوری توجہ ہیوی مشینری کی تیاری کاروں اور دیگر آٹوموبیل کی طرف کردی ایسے میں لائٹ انڈسٹری کی ترقی کیلئے تائیوان، ہانگ کانگ، سنگاپور اور ملائشیا کو ترقی کیلئے کھلا میدان میسر آگیا تھا۔ اس طرح یہ چار ممالک ایشین ٹائیگر ز کہلائے۔

کاروں اور ہیوی مشینری میں جاپان نے ترقی کی بلندی کو چھو کر سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا نے جاپان کی دفاعی ذمہ داراب اپنے ذمہ لے لی تھی ایسے میں جاپان کو دفاعی اخراجات میں بچت ہوگی اور اس نے دیگر شعبوں پر توجہ دینا شروع کردی،مگر بعض ترقی پذیرممالک دفاع پر پیسہ خرچ کرکے ہلکان ہو رہے ہیں، ان ممالک مشرقی بعید کے ممالک کی مثال سامنے رکھنا چاہئے،جہاںتعلیم، صحت عامہ، انفرااسٹرکچر پھر دفاع ہے ۔

جہاں تک نینسی پلوسی کی شخصیت، سیاست اور بصیرت کا تعلق ہے،کانگریس کی یہ پہلی خاتون نمائندہ اسپیکر ہیں۔ پہلی بار2007ء اور دوسری بار 2019ء میں انہوں نے ایشوز پر پارٹیوں اور صدور کی حمایت کی ہے۔ ہانگ کانگ میں جمہوریت چلی جمہوری تحریک کوسپورٹ کیا ملک میں جو عوامی مسئلہ ہوا اس کی حمایت کی ہرشعبہ کے لئے کچھ نہ کچھ کام کیا۔

نینسی پلوسی کو امریکا کی آئرن لیڈی بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے صدر بش کے دور میں خاصا کام کیا۔ صحت، دفاع پرتوجہ دی۔ انہیں چین کا بڑا مخالف سمجھا جاتا ہے اور نینسی پلوسی کو چین ناپسندیدہ قرار دے چکا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صدر جوبائیڈن نینسی پلوسی کے تائیوان کے مجوزہ دورے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے دفاعی مشیر بھی اس دورے کے مخالف ہیں۔ درحقیقت آئندہ ماہ صدر جوبائیڈن کا چین کا دورہ متوقع ہے اور صدر چاہتے ہیں ایسے موقع پر چینیوںکو بلاوجہ ناراض نہ کیا جائے تاکہ پرامن خوشگوار ماحول میں ملاقات کی جائے۔

جزیرہ تائیوان ہڈی بن کر چین اور امریکا کے حلق میں پھنسا ہوا ہے۔ مغرب 1949کے بعد تائیوان کو سلامتی کونسل کا رکن بناکر چین کو عالمی ادارہ سے باہر رکھا۔ آخرکار ڈاکٹر کسنجر کے نظریہ کے حوالے سے چینی سفیر کا یہ بیان کہ امریکا اور چین کے مابین جنگ کا خطرہ موجود ہے۔ تائیوان کے مسئلے پر دونوں سپر پاور خاموش نہیں رہیں گے۔ 

چینی سفیر کا بیان اسڑیوٹائپ بیان ہے، لگتا ہے انہوں نے آج کے دور کے قوموں کے مسائل، آج کے دور کےطریقہ حرب اور ہتھیاروں کے حوالے سے تجزیہ نہیں کیا۔ آج کی دنیا کی جدلیات ماضی سےکچھ مختلف ہے۔ امریکا سپر پاور ہے ساتوں سمندروں پر دسترس رکھتا ہے۔ اس کی طاقت سمندروں میں پھیلی ہوئی ہے اور خلاء تک دسترس رکھتی ہے ہر ہتھیار جو جنگ میں استعمال ہو گا وہ انتہائی مہلک ہوگا۔

چین بھی امریکا کے لگ بھگ ہم پلہ ہے اس کی طاقت زمین پر رفتہ سمندروں اور خلاء پر بھی اپنی گرفت بڑھا رہا ہے۔ چین کی صرف بری فوج کی تعداد بائیس لاکھ سے زائد ہے چین کو اس کے علاو ہ بھی کچھ فوائد حاصل ہیں، پھر یہ بھی کہ آج کی دنیا ایک دوسرے پرانحصار کرنے والی دنیا ہے، کیسے چاہے گی کہ دو بڑی طاقتیں ٹکرا جائیں اورسب دنیا کو دھواں دھواں بنتا دیکھتے رہیں۔

آٹھ ارب سے زیادہ نفوس پر مشتمل دنیا جو بہت سے مصائب و آلام خون خرابے اور تباہیاں بربادیاں جھیلتی ہوئی یہاں پہنچی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ امریکا یا چین کے پاس تازہ دماغ اور انسانیت کا درد رکھنے والے دل نہیں ہوں گے۔ دونوں قوموں نے انتھک محنت کے بعد ترقی کی منزلیں طے کی ہیں، محض زمین کے ایک ٹکڑے کی خاطر پوری زمین گنوا دیں۔ لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ آج کی جنگ، جنگ نہیں قیامت ہے۔

جزیرہ تائیوان کے تنازعہ کا حل نکل سکتا ہے۔ بہت سے حل ہیں،بس ضرورت ہے اس پر پرسکون ہو کر سوچا جائے۔ یوں بھی چین کے عوام نے ہندوستان کی عوام کی طرح بہت خون آگ اور لاشیں دیکھی ہیں ایک دور میں تباہیاں ان کا مقدر تھیں شمال مغرب سے وحشی تاتاریوں کے چین پر اَن گنت حملے ہوئے۔ چین کی معیشت تجارت معاشرت تباہ ہوتی رہی آخرکار چین نے دیوار بنانے کی ٹھانی اور ساتویں صدی سے یہ کام شروع ہوا سترہویں صدی کے اوّائل میں جاکر اکیس لاکھ کلو میٹر طویل پر پیچ دیوار مکمل ہوئی پہلے یہ عظیم دیوار کہلائی پھر انگریزوں نے اس کی دی گریٹ وال آفس چائنا کا نام دیا۔

چین اور تائیوان تنازعہ 1949ء ہی سے شروع ہوا جب چین پر کمیونسٹ پارٹی کا غلبہ ہوا تو قوم پرست عوام قوم پرست رہنما چیانگ کائی شک کی رہنمائی میں مین لینڈ سے جزیرہ تائیوان آکر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ چین اس وقت چین مین لینڈ کو سنبھالنے میں الجھا ہوا تھا۔ چینی کمیونسٹ گورنمنٹ کے خلاف امریکا نے قوم پرست تائیوان کی بھرپور حمایت کی اور آج تک کر رہا ہے۔ امریکا کے علاوہ مزید 23اقوام سے تائیوان کے سفارتی تجارتی اورسیاسی تعلقات ہیں۔

دنیا 198اقوام میں 23اقوام کم تعداد ضرورہے مگرایک کی مؤثر آواز ہے جس میں امریکا کی آواز سب سے توانا ہے۔ ہر چندچین تائیوان تنازعہ اہم اور خطرناک ہے مگر بیش تر چینی مبصرین کی رائے میں چین اس تنازعہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر اچھالتا رہے گا۔ کیونکہ چین کے نزدیک اس کے لئے جنگ کے کوئی دوسرا حل نہیں ہے اور تمام حقائق کے باوجود چین اس مسئلے کو زیادہ اچھالتے بھی ہچکچاتا ہے۔

امریکا کے بارے میں مبصرین کی رائے ہے کہ وہ تائیوان کو نظرانداز نہیں کر سکتا اس کی وجہ سیاسی معاشی اور دفاعی ہے۔ سب سے اہم ملاکا اسٹرئٹ ہے جو بحرالکاہل اور بحرہند کے درمیان تنگ مگر بہت اہم بحری راستہ ہے چین اس پر مورچہ بندی کے بارے میں سوچ رہا ہے ملاکا اسٹرئٹ سے دنیا 34فیصد تجارت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے نہر سوئز کے بعد ملاکا اسٹرئٹ دنیا کے بہت اہم ہے ۔ اس حوالے سے بحیرہ جنوبی چین کی اہمیت دو چند ہے۔

چین میں ون پارٹی حکومت ہے اور اس کے پوسٹ بیورو کے پاس اختیارات کل ہیں۔ مگر تائیوان میں جمہوریت ہے مختلف سیاسی پارٹیاں وہاں سرگرم ہیں سوچنے بولنے کا م کرنے کی ہر ممکن آزادی ہے۔ اختیار رائے کی آزادی قومی زندگی میں سب سے اہم ہوتی ہے ایسے میں جمہوری آزادیوں پر یقین رکھنے والی دنیا تائیوان کی حمایت کرتی ہے۔ تائیوان کی خاتون صدر نے واضح کیا تائیوان کا ہر شہری مادر وطن کی آزادی اور انسانی حقوق کے لئے ہر انتہائی قدم اٹھانے کے لئے تیار ہے اور اگر چین نے کوئی انتہائی قدم اٹھایا تو اس کو اس عمل کی بہت بھاری قیمت چکانی ہو گی۔