شیخ چلی نے ایک بنیے سے کچھ روپے ادھار لئے تھے، مگر لوٹانے میں دیر پر دیر کر رہے تھے۔
ایک دن شیخ صاحب اپنے دوستوں میں بیٹھے تھے تو بنیا غصہ میں بھرا وہاں پہنچ گیا اور بولا :"میرے پیسے لوٹاتے ہو یا نہیں؟"شیخ صاحب نے اسے آرام سے بیٹھنے کو کہا اور پھر بولے:"میرے ذمہ تمہارے کتنے روپے بنتے ہیں؟"بنیا بولا : پینتالیس روپے۔
شیخ صاحب نے کہا : پینتالیس یعنی پانچ اور چالیس۔ اچھا ، ان میں سے پندرہ تو میں ہفتہ بھر میں ادا کر ہی دوں گا۔ دس روپے کا اناج تم میرے پاس سے لے جانا۔ پندرہ اور دس ، یہ ہوئے پچیس۔ باقی کتنے رہے؟ بنیے نے کہا : ’’بیس۔‘‘
شیخ صاحب بولے ’’،پندرہ تو میں اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو ادا کر دوں گا۔ بیس میں سے پندرہ گئے ، باقی کتنے رہے؟‘‘
بنیے نے جواب دیا کہ "پانچ"۔ شیخ صاحب نے جیب سے پانچ روپئے نکالے اور بنیے کو دے کر کہا : " یہ لو اپنے پانچ روپے۔ لیکن تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم نے اتنے سے پانچ روپیوں کےلئے مجھے اتنے لوگوں میں ذلیل کیا۔ اب میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو۔ تمہارا حساب بےباق ہو گیا ہے۔ روپے جیب میں ڈالو اور یہاں سے چلے جاؤ۔ میں تم جیسے بےادب لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتا"۔