• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاریہ صادق

اسد کمپیوٹر پر گیم کھیلنے میں مصروف تھا کہ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی، کیا مصیبت ہے جب دل چاہا، آجاتے ہیں، پتا نہیں کون ہے؟ اس نے برا سامنہ بناتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے احمد کھڑا تھا، جو اس کا دوست اور ہم جماعت تھا۔ دونوں نویں جماعت میں پڑھتے اور ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ کیا بات ہے احمد اس وقت کس لئےآئے ہو؟ کوئی خاص وجہ۔‘‘ اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

ارے تم تو ناراض ہورہے ہو وہ دراصل مجھے تمہارے ریاضی کی کتاب چاہیے‘‘۔ احمد نے کہا۔ کیوں؟ تمہاری کہا ں ہے؟‘‘ اسد نے حیران ہو کر پوچھا۔ وہ دراصل اپنی جماعت میں جو بچہ علی پڑھتا ہے نا اس نے مجھ سے مانگ لی تھی۔ میں نے سوچا کہ تم سے لے لوں گا‘‘۔ احمد نے جواب دیتے ہوئے کہا ہاں ہے تو سہی، مگر پتا نہیں کہاں رکھی ہے کام کرنے والی ماسی نے۔‘‘ اسد نے کہا اچھا چلو کوئی بات نہیں میں کسی اور سے لے لوں گا!“ اس نے بغیر کسی غصے کے کہا اور خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ 

اسد نے غصے سےدروازہ بند کیا، اگرچہ اس کے پاس کتاب بیگ میں ہی موجود تھی، مگر پھر بھی اس نے احمد سے جھوٹ بولا۔اسد بظاہر تو احمد کا دوست تھا، مگر حقیقت میں وہ اُس کو اپنا دشمن سمجھنے لگا تھا۔ اسد سارا دن گیم کھیلنے اور کھیل کود میں گزار دیتا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ جب وہ نہیں پڑھتا تو احمد کیوں پڑھے وہ بھی اس کے ساتھ کھیلے، جبکہ احمد کلاس کا سب سے ذہین ترین اور دوسروں کی مدد کرنے والا ایک اچھا طالب علم تھا۔ وہ اسد کو بھی پڑھائی پر توجہ دینے کی تلقین کرتا تھا ،مگر وہ ہاں ہوں کرکے ٹال دیتا تھا اور اسے کھیل کی دعوت دیتا تھا۔

اس دن بھی اس نے یہ سوچ کر کہ میں نے تو تیاری نہیں کی احمد تیاری کرکے کیوں نمبر لے، اسی وجہ سے اس نےاسے کتاب نہیں دی۔ اگلے دن اس نے دیکھا کہ احمد نے ریاضی کے تمام سوال حل کرلئے ہیں ، اسے بہت غصہ آیا، اس نے اپنے غصے کو قابو کرتے ہوئے بظاہر خوش ہوکر احمد سے پوچھا ، تم نے یہ سوال کس طرح کئے۔‘‘ ایک دوست سے نوٹس لے کر سوال حل کئے ہیں جب ٹیچر نے سب کا کام چیک کیا تو اسد کا کام نہ دیکھ کراسے خوب ڈانٹا اور اسے احمد کی مثال دیتے ہوئے پڑھنے کی تلقین کی۔ وہ جل بھن کر رہ گیا، اس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ احمد کی کاپی اٹھا کر گھر لے جائے، تاکہ وہ کام کرہی نہ سکے، چنانچہ جب احمد کینٹین سے گیا تو اس نے اس کے بیگ سےکاپی نکال لی۔

جب احمد گھر پہنچا اور اس نےا سکول کا کام کرنے کے لیے بیگ کھولا تو اپنی کاپی نہ پاکر بہت پریشان ہوا اور رونے لگا کہ آخر کس نے اس کے ساتھ یہ شرارت کی ہے۔ دوسری طرف اسد نے احمد کی کاپی گھر جاتے ہوئے راستے میں گرادی کہ کوئی بھی اٹھا لے گا۔ اتفاق سے احمد کے ابو کا وہاں سے گزر ہوا وہ نماز پڑھ کر آرہے تھے تو انہوں نے زمین پر پڑی کاپی یہ سمجھ کر کہ شاید اس میں اللہ کا نام لکھا ہوا اٹھالی، جب انہوں نے نام پڑھا تو ان ہی کے بیٹے کا نام تھا انہوں نے گھر پہنچ کر احمد کو پریشان پایا تو وجہ پوچھی اس نے پریشانی کی وجہ اپنے والد صاحب کو بتادی۔ والد صاحب مسکرائے اور کہا ،بیٹا، یہ رہی تمہاری کاپی‘‘۔

بابا یہ آپ کو کہاں سے ملی‘‘؟ احمد کے ابو نے اسے ساری بات بتائی اور اسے یقین دلایا کہ شایداس کے بیگ سے راستے میں آتے وقت گرگئی ہو۔‘‘ خیر احمد نے بھی یہی سمجھا اور اپنا سارا کام مکمل کرلیا۔ اگلے دن اسد بہت خوش تھا کہ آج تو احمد نے بھی کام نہیں کیا ہوگا ، وہ بھی میرے ساتھ کھڑا ہوگا، مگر جب ٹیچر نے کام چیک کیا تو سب نے کام کیا ہوا تھا، سوائے اسد کے اس کو بہت حیرانی ہوئی کہ احمد نے کام کس طرح کیا۔ اس نے پوچھا تم نے یہ کام کب کیا،احمد نے باتوں باتوں میں سارا واقعہ سچ سچ اسدکو بتادیا۔ اسد کو اپنے اوپر بہت غصہ آیا اس نے وہ کاپی کیوں پھینکی تھی۔ 

کچھ ہی دنوں بعد امتحانات ہونے والے تھے احمد کی مکمل تیاری تھی ،جبکہ اسد کو کچھ بھی نہ آتا تھا امتحانات سے کچھ دن قبل رول نمبر سلپ آگئی تو اسد نے سوچا کہ کیوں نہ احمد کی رول نمبر سلپ ہی چرالی جائے، جس کی وجہ سے وہ پیپر نہ دے سکےگا، چنانچہ اس نے احمد کی رول نمبر سلپ چھپالی اور گھر جاکر چپکے سے جلادی۔

امتحان میں ابھی دو دن باقی تھے۔ احمد کو اچانک اپنی رول نمبر سلپ کا خیال آیا اس نے ہر جگہ دیکھی مگرنہ ملی۔ اس نے اپنے والد صاحب کو بتایا کہ اس کی سلپ گم ہوگئی۔ وہ اس پر خفا ہوئے کہ احتیاط سے سنبھال کرکیوں نہ رکھی اب نتیجہ بھگتو۔ اس کے والدنے امتحان سے ایک دن پہلے، نئی رول نمبر سلپ نکلوادی اور احمد نے امتحان دے دیا۔

اسد نے احمد کی رول نمبر سلپ تو جلادی تھی، مگر وہ اپنی سلپ بھول گیا تھا جو اس نے اپنی یونیفارم کی جیب میں رکھی تھی جب کام کرنے والی ماسی نے اس کا یونیفارم دھویا تو اس سلپ کو بے کارسا کاغذ سمجھ کر اسے کوڑے میں پھینک دیا جو اگلے دن صفائی والا لے گیا جب اس نے احمد کا مستقبل تباہ کرنے کا سوچا تو اس نے اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا اس کو اپنے کئے کی سزا مل چکی تھی۔

دیکھا بچو! جو دوسروں کا برا چاہتا ہے اس کے ساتھ خود برا ہوجاتا ہے، اس لیے اپنے ساتھ اپنے ساتھیوں کا بھی خیا ل رکھا کریں، کبھی کسی کے ساتھ برا کرنے کا نہ سوچیں۔