کراچی (نیوز ڈیسک) چیف جسٹس عمر عطاء بندیال:میں بہت شکرگزار ہوں کہ آج اس کمیشن کے ارکان دور دراز کے مقامات اور کراچی جیسے بارش سے بھیگے ہوئے مقامات سے جمع ہوئے ہیں لیکن سب سے پہلے میں جسٹس سجاد علی شاہ کو کمیشن میں خوش آمدید کہوں گا جنہوں نے درحقیقت پشاور سے سفر کیا ہے اور شاید اس اجلاس کی وجہ سے اسلام آباد میں کام شروع کیا ہے۔ میں شکر گزار ہوں کہ قاضی صاحب نے اجلاس کے لیے اپنی چھٹی سے وقت نکالا اور محترم اشتر نے استقبال کے لیے قوت اکٹھا کی اور لندن سے ہمارے ساتھ شامل ہونے کا شکریہ اور ہم سب آپ کے بارے میں سوچ رہے تھے اور آپ کی اچھی صحت کی دعا کر رہے تھے ۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ لہٰذا اب جلدی سے ایجنڈے پر آجاتے ہیںجس میں سپریم کورٹ کے بینچ کے تحت پانچ ججوں کی تقرری پر غور کیا جانا ہے۔ اس کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے میری کچھ سفارشات ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ کمیشن برائے مہربانی غور کرے۔ میں پہلے ہی نوٹ میں کچھ کی سفارش کرنے اور دوسروں کو نظرانداز کرنے کی وجوہات لکھ چکا ہوں۔ آپ کو جو کاغذی کتاب موصول ہوئی ہے اس میں کچھ ڈیٹا ہے اور تفصیلی ڈیٹا بڑی کاغذی کتابوں میں دستیاب ہے جو بدقسمتی سے نہ تو قاضی صاحب اور نہ ہی محترم اشتر کو ملی ہے کیونکہ ہم نے وہ مواد ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعے بھیجا ہے لیکن بہرحال۔ یہ اچھا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ آپ کے پاس جو بھی سوالات ہیں ہم ان کے جواب دے سکتے ہیں جیسا کہ وہ بس ان رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ میں نے سپریم کورٹ کے جسٹس کی تقرری کے لیے جسٹس قیصر رشید خان چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس شفیع صدیقی، سندھ ہائی کورٹ سے دوبارہ جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو اور لاہور ہائی کورٹ سے جسٹس شاہد وحید کے نام تجویز کئے تھے۔ سب سے پہلے مختلف صوبوں سے انتخاب کے بارے میں نکتہ یہ ہے کہ ہمارے پاس تین سیٹیں ہیں جو ججوں سے خالی ہیں ان میں سے ایک ابھی بھی سپریم کورٹ کی زینت بنی ہوئی ہےلیکن ہمارے پاس دو نشستیں ہیں جو جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مقبول باقر نے خالی کی ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ جو ہمارے ساتھ ہیں اگلے ماہ کے وسط میں اپنا عہدہ چھوڑ دیں گےتو تین سیٹیں ہوں گی اور اس وجہ سے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس مظہر عالم خان کی جانب سے تین تجاویز ہیں۔ میاں خیل حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قیصر رشید خان کو تعینات کیا گیا ہے۔ جسٹس شاہد وحید جسٹس قاضی امین احمد صاحب، محمد امین احمد صاحب کی خالی کردہ نشست پر تجویز کئے گئے ہیں۔ تو یہ تناسب ہے لیکن اب اگر آپ چاہیں تو میں مواد کو پڑھ سکتا ہوں جو میں پہلے ہی بھیج چکا ہوں یا اگر آپ چاہیں تو ہم ان تجاویز پر بحث شروع کر سکتے ہیں جو میں نے بھیجی ہیں اور ہم جسٹس سرمد جلال عثمانی صاحب سے شروع کر سکتے ہیں اور اور پھر میز کی دوسری جانب جائیں گے۔تو آپ کی باری میں حضرات، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب سینئر ترین جج ہیں جو جسٹس طارق مسعود صاحب کے بعد خطاب کریں گے اور جناب اشتر اوصاف علی وزیر قانون کے بعد خطاب کریں گے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔ جسٹس سرمد عثمانی صاحب سے گزارش ہے کہ اس تجویز پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی :جناب چیف جسٹس میں آپ کا اور یہاں موجود تمام حضرات کابہت شکر گزار ہوں خاص طور پر اشتر اوصاف کیلئے دعا گو ہوں کہ وہ آپریشن کے بعد مکمل صحت یاب ہو کر اس اجلاس میں شامل ہوں اور اب چونکہ سندھ ہائیکورٹ کا تذکرہ ہے تو میں کچھ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سندھ ہائیکورٹ کے جن جج صاحبان کی سپریم کورٹ کیلئے نامزدگی کی گئی ہے اور جن جج صاحبان کو بائی پاس کیا گیا ہے ان کو میں اچھی طرح جانتا ہوں کیونکہ میں سندھ ہا ئیکورٹ میں بطور جج اور بطور چیف جسٹس کام کرچکا ہوں اور ان میں سے کچھ جج صاحبان کے میں بنچ بھی تشکیل دیتا رہا ہوں،جیسے کہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی تو میں ان کی نامزدگی کی بھرپور توثیق کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ نہایت شریف النفس انسان ہیں اور بطور جج ان کا کام بہت عمدہ ہے،اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ جسٹس محمد شفیع صدیقی بھی اچھے جج ہیں اور انھیں بھی ایک اثاثہ مانتے ہوئے سپریم کورٹ کا جج بنا دینا چاہیے،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دیگر جج صاحبان بھی اتنے ہی اچھے ہیں لیکن سینئر ہونے کے باوجود انھیں جسٹس پھلپوٹو کیسامنے نظر انداز کیا جارہا ہے ، جسٹس پھلپوٹو فوجداری کیسوں کے ماہر ہیں ،میں نے ان کی ججمنٹس کا مطالعہ کیا ہے وہ وہ بس جیسی کریمینل ججمنٹس ہوتی ہیں بس ویسی ہی ہیں ،فوجداری قانون میں چونکہ سب ضابطے طے کردیئے گئے ہیں یہاں تک کہ ضمانت کیسے منظور کی جانی ہے وہ بھی سی آر پی میں درج ہے تو ایسی صورتحال میں فوجداری (کریمینل) میدان میں کیا جدت ،تخلیق یا اختراع کی جاسکتی ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جو ان سے سینئر ہیں ان کی نامزدگی ہونی چاہئے جیسا کہ مسٹر جسٹس عباسی اور مسٹر جسٹس ندیم اظہر اور جسٹس ندیم رضوی، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی نامزدگی ہونی چاہیے،اب جسٹس عباسی صاحب کو دیکھیں تو وہ ایک اعلیٰ پائے کے جج اور انسان ہیں لیکن وہ صرف ٹیکس امور کے ماہر ہیں چونکہ بطور وکیل بھی ان کی زیادہ تر پریکٹس ٹیکس ایشوز میں ہی ہوئی ہے تو ان کی زیادہ مصروفیت اور رجحان ٹیکس بنچ کی طرف ہی رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ان فوجداری اپیلز میں بھی کام ہے میری ان سے کافی ملاقاتیں ہوئی ہیں جس میں نے انھیں ایک اعلیٰ انسان ہی پایا ہے۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ ہمیشہ بہت اچھے ثابت ہوئے ہیں آپ جانتے ہیں وہ ہمیشہ حاضر رہتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس نے اپنی تحقیقات ضرور کی ہوں گی اور مجھے یقین ہے کہ وہ درست ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے بارے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ اس وجہ سے تھا کہ اس میں حقائق کو نظرانداز کیا گیا تھا اس لیے وہ قدرے تلخ تھا اس لیے دیکھیں کہ کیا کسی شخص کو بغیر کسی نظم اور وجہ کے نظرانداز کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ قدرے تلخ ہو سکتا ہے اگر مثال کے طور پر کسی شخص کے خلاف بغیر کسی نظم اور وجہ کے مقدمہ چلایا جائے اور بالآخر یہ پتہ چلا کہ اس کے ساتھ کیا گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ شخص کڑوا ہو گا اس لیے شاید یہ مجھے نہیں لگتا کہ شاید یہ اس کے کردار میں کوئی خامی ہے یہ شاید کوئی ایسی چیز ہو جس سے شاید کبھی کبھی وہ اس بات کا اظہار بھی کر دیتا ہے کہ اس کے اندر کیا ہو رہا ہے لیکن دوسری صورت میں میں نے انہیں بالکل ٹھیک پایا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ معقول فیصلے لکھتے ہیں وہ اچھا فیصلہ بھی لکھتے ہیں اور جہاں تک ندیم صاحب کا تعلق ہے ان کے تصرف کا قانون ہے میں اس سے متفق ہوں اور شاید مجھے نہیں معلوم کہ وہ جو بھی وجوہات ہیں وہ زیادہ فیصلے نہیں لکھ رہے۔ کوئی بھی فیصلہ لیکن جو فیصلہ وہ لکھتے ہیں وہ اس حد تک ہے کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ میری سوچ شاید یہ ہوگی کہ ہم ان حضرات میں سے کسی ایک کا نکتہ نظر سمجھنے کی بجائے اس کے کہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے اور مسٹر پھلپوٹو کی طرف اشارہ کیا جائے۔ پشاورہائیکورٹ سےجوصاحب زیرغورہیں وہ یقیناً سینئرترین ہیں اور مجھے یقین ہےکہ جس قسم کاکام اور فیصلے وہ کرچکےہیں میں نےان کےمقابل نہیں پایا،مجھے یہ بھی یقین ہےکہ وہ شریف النفس ہیں اور میں ان کی نامزدگی مکمل حمایت کرتاہوںاور اسی طرح میں امیدوارمسٹروحیدکی بھی حمایت کرتاہوںکیونکہ باقی تین امیدوارجن کےفیصلےمیں دیکھےہیں میراخیال ہےکہ جہاں تک فیصلوں کےمعیار اور تحریر کاتعلق ہےجسٹس وحیدان سےبہت اوپرہیں تو اس لیےمیں انکی حمایت کرتاہوں،بہت شکریہ میں نےاتناہی کہناتھا۔ جسٹس سجادعلی شاہ:جسٹس سرمدجلال عثمانی نےجواظہارخیال کیامیں اس سےکسی حدتک متفق ہوں،لیکن جو وجہ معزز چیف جسٹس نے سندھ کے تین ججوں کو پاس کر نے کی دی ہے جہاں تک ان تینوں ججوں کا تعلق ہے ہم نے ابھی چیف جسٹس کو سننا ہےجوزیرغورہیں میں انہیں ذاتی طورپرجانتاہوں میں نےان کےساتھ کام کیاہےاورمیں نےانہیں بہترین پایاہے،وہ قانون کوجانتےہیں اورمیرے خیال میں سندھ میں جوبھی پریکٹس کرتاہے وہ انکی کسی بھی خاصیت پرانگلی نہیں اٹھاسکتا،اس لیے میں ان تینوں نامزدگیوں کی مکمل حمایت کرتاہوں جہاں تک قیصررشیدکاتعلق ہے وہ چیف جسٹس ہیں اورجوڈیٹادیاگیاوہ ہم نےدیکھاہےمیں اس نامزدگی کی بھی مکمل حمایت کرتاہوں،اگرچہ میں جسٹس شاہدوحیدکےبارےمیں زیادہ نہیں جانتالیکن میں دوبارہ جوڈیٹامجھے دیاگیااس پرانحصارکروں گا اورمیں سمجھتاہوں کہ یہ نامزدگی بھی درست ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن۔ بہت شکریہ ، میں جسٹس عثمانی اور جسٹس سجاد علی شاہ کو خوش آمدید کہتا ہوں جنہوں نے پہلی بار ہمارے ساتھ اجلاس میں شرکت کی ہے۔ مسٹر تارڑ اور پاکستان بار کونسل کے نمائندہ کچھ وقت کیلئے ہمارے ساتھ ہیں جو کہ بہت سینئر وکیل ہیں۔ قاضی صاحب اور اٹارنی جنرل صاحب اب ہم آپ کی جانب آتے ہیں۔ سر ! میں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ آپ کی جانب سے کی گئی سفارشات اور وجوہات کا جائزہ لیا ہے جس میں سفارشات کرنے اور نہ کرنے سے متعلق لکھا گیا ہے۔ میں نے ان تمام جینٹلمین کے فیصلوں اور کام کا بھی احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا ہے اور ان کے اس کام کا بھی جائزہ لیا ہے جو انہوں نے ہائی کورٹ میں ترقی کے بعد کئی سالوں سے کیا ہے۔ اس کام میں سے انہوں نے اپنے دس بہترین فیصلے ہمیں بھجوائے ہیں۔ جہاں تک جسٹس قیصر رشید کا تعلق ہے انہوں نے تمام باکسز پر نشان لگایا ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہ بے عیب ساکھ کے حامل ہیں۔ ان کی قابلیت پر کوئی سوال نہیں ہے۔ جبکہ ان کی قوت برداشت کے حوالے سے میں نے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے ساتھی ججوں سے بھی رائے لی ہے۔ سب نے بتایا ہے کہ یہ نہایت شریف آدمی ہیں اور سب نے ان کی قوت برداشت کی تعریف کی ہے۔ جیسا کہ ایک جج کی قوت برداشت ہونی چاہئے۔ جس کا مظاہرہ انہوں نے متعدد فیصلوں میں بھی کیا ہے، انہوں نے انتہائی شفافیت سے فیصلے قلمبند کئے ہیں اور ہر پہلو کا جائزہ لے کر لکھے ہیں۔ ان کے متعدد فوجداری ، سول اور آئینی مقدمات کے فیصلے رپورٹیڈ کیسز میں شامل ہیں۔ میں انہیں آل رائونڈر جج کہوں گا جس کی اس سطح پر سپریم کورٹ میں سخت ضرورت ہے۔ اس لئے میں ان کی سفارش کرتا ہوں اور جناب چیف جسٹس کی سفارشات کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ انہوں نے وزیرستان اور فاٹا میں عدالتیں قائم کی ہیں جو ان کی بہترین انتظامی صلاحیت کا عکاس ہے۔ جہاں تک جسٹس حسن رضا رضوی ، جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کا تعلق ہے ، میں نے ان کے فیصلوں کا مطالعہ کیا ہے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں ان کی شخصیت اور قوت برداشت کے حوالے سے براہ راست علم نہیں رکھتا لیکن میں نے ان کے ساتھ کام کرنیوالے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے ساتھ تبادلہ خیال کر کے معلومات اکھٹی کی ہیں۔ ان کی ساکھ ، وقار ، اہلیت ،قوت برداشت اور قابلیت کے تمام باکسز پر ٹِک کئے گئے ہیں۔ جہاں تک جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کا تعلق ہے میں سمجھ سکتا ہوں کہ چیف جسٹس جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں کس کی ضرورت ہے؟ ہمارے پاس ہزاروں سنگین نوعیت کے فوجداری مقدمات اور قتل کی اپیلیں ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس اس شعبے کا ایک ہی ماہر جج ہے جس نے نہ صرف اس حوالے سے پریکٹس کی ہے بلکہ ہائی کورٹ میں قابل ذکر فیصلے بھی دئیے ہیں اور ان کے ساتھ میں سپریم کورٹ کے بنچ میں بھی بیٹھا ہوں ، میں نے ان کی قانون میں مہارت دیکھی ہے۔ اس وقت ہمیں سپریم کورٹ میں فوجداری مقدمات کیلئے ایک اور ایسے جج کی ضرورت ہے جو کہ نہ صرف انتہائی محنتی ہو بلکہ اس شعبے کا ماہر بھی ہو۔ میری معلومات اور جو معلومات میں نے ہائی کورٹ کے ججوںسے حاصل کی ہیں جن کی تصدیق جسٹس سجاد علی شاہ نے کی ہے،کہ یہ نہ صرف شاندار قسم کے فیصلے قلمبند کرتے ہیں بلکہ فوجداری قوانین سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں اور یہ سپریم کورٹ کے ججز میں ایک بہترین اضافہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک چیف جسٹس آف پاکستان کی فوجداری مقدمات کے ماہر جج کی کمی کے حوالے سے تشویش کا تعلق ہے ، میں ان کے نقطہ نظر کی مکمل توثیق کرتا ہوں کہ ہمیں ایک ایسے جج کی ضرورت ہے جو فوجداری قوانین کا ماہر ہو اور اور وہ زیر التوا مقدمات کو تیزی کے ساتھ نمٹا سکے۔ آخر میں جسٹس شاہد وحید ہیں ، میں اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال ان کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ میری لاہور ہائی کورٹ کے کئی اور چیف جسٹس صاحبان سے بات ہوئی ہے ، وہ ان کی بطور جج اہلیت ، ساکھ اور ان کی جانب سے انتہائی اعلیٰ قسم کے تجزیاتی فیصلے لکھنے اور ان فیصلوں کی کوالٹی کے بارے میں آگاہ ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے بالکل صحیح کہا ہے کہ جو پہلے تین جینٹل مین ہیں جن میں سے پہلے نمبر پرمعزز چیف جسٹس ہیں ، انہوں نے سول سائیڈ پر کام کیا ہے لیکن جیسا کہ نوٹ کیا گیا ہے کہ کئی سالوں سے ان کا کوئی رپورٹیڈ کیس نہیں ہے اور ان کے جو کیس رپورٹیڈ ہیں وہ معمول کے مقدما ت ہیں۔ دوسری جانب سنیارٹی پر آنے والے دوسرے اور تیسرے نمبر کے ججوںنے بھی فوجداری حوالے سے صرف معمول کے مقدمات کے فیصلے کئے ہیں اور میری رائے میں جسٹس شاہد وحید کے مقابلے میں میں ان کے تجزئیے ، جدت اور سول لا ء میں مہارت کم ہے۔ ہمیں اس وقت سپریم کورٹ میں جسٹس شاہد وحید جیسے سول لا ء کے ماہر جج کی اشد ضرورت ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے بطور وکیل اور ہائی کورٹ جج سول مقدمات میں بے تہاشہ کام کیا ہے اور بطور جج ڈویژن بنچوں میں بھی کام کیا ہے۔ اس لئے ان کی سپریم کورٹ میں ضرورت ہے۔ میری عاجزانہ رائے میں جسٹس شاہد وحیداپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کے حوالے سے اس قسم کی قوت برداشت اور اہلیت رکھتے ہیں جس کی سپریم کورٹ میں ضرورت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان ٹیم کے سربراہ ہیں۔ انہیں عدالت میں آنیوالے تمام دیوانی ، فوجداری اور آئینی معاملات سے نمٹنا پڑتا ہے اور انہیں غیر جانبداری کے ساتھ تمام ججوں کی خوبیوں ، خامیوں اور کمزوریوں کو دیکھنا ہوتا ہے جبکہ کہ صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں۔ اس مخصوص نامزدگی کیلئے نہ صرف ان کے بہترین فیصلے طلب کئے ہیں بلکہ انہوں نے دیگر جونیئر اور سینئر ججز کے فیصلے بھی منگوائے ہیں اور ان کا جائزہ لیا ہے جس کے ساتھ میں ذاتی طور پر مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اس لئے میں معزز چیف جسٹس کی جانب سے کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تمام پانچوں نامزدگیوں کی کھلے دل کے ساتھ توثیق کرتا ہوں ، شکریہ۔ جسٹس سردارطارق مسعود:جناب اشترصاحب آپ اس حالت میں ہمار ے ساتھ ہیں اللہ تعالیٰ آپ کوصحت عطافرمائے،میں سجادعلی شاہ کاخیرمقدم کرتاہوں کہ وہ ہمارے جوڈیشل کمیشن ممبرہیں اورخوش قسمت ہیںکہ انہیں اپنےجگہ آنیوالےجج کےانتخاب کاموقع دیاگیاہےجو انہوں نےکیا،سب سےپہلے جو نامزدگیاں ہمیں دی گئی ہیں وہ سب متضادہیں،ایک جانب کہاگیاکہ سنیارٹی کےساتھ قابلیت ہونی چاہیے،اور اس مقصدکیلئےہرہائیکورٹ سے3، 4،5یا6ججز پرغورکیا جائیگالیکن ہم نےدیکھاکہ سنیارٹی کےاصول کی بنیادپرپشاورہائیکورٹ کےچیف جسٹس کوتوسپریم کورٹ کےجج کےطورپرنامزدکیاگیا،تاہم دوسرے نامزدججوں کےتقابلی جائزے کیلئے ہمیں کوئی ڈیٹافراہم نہیں کیاگیااس وقت سپریم کورٹ کے4ججوں کےتقررکی آسامیاں ہیں اوراسلامی جمہوریہ پاکستان کےآئین کےآرٹیکل175/8کےمطابق کمیشن کےکل تعدادکی اکثریت ہرآسامی کوپارلیمانی کمیٹی میں بطورسپریم کورٹ کےجج کیلئےنامزدکرسکتی ہے،آئین میںسپریم کورٹ میں ججزکی متوقع آسامیوں سےمتعلق تقررکیلئےایساکوئی مینڈیٹ نہیں دیاگیا،جیساکہ اب کیاگیاہےاگرچہ کمیشن کےایک رول 3جس میں متوقع کاتذکرہ ہےجو کہ متعارف کرایاگیاہےلیکن رولزآئین کےآرٹیکل کو اوور رول نہیں کرسکتے، جو کہ دوسری صورت میں بالکل واضح ہے کوئی ابہام نہیں ہے، 20جولائی2022کاخط خاموش ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ججوں میں سے کس کو متوقع آسامیوں کے لیے نامزد کیا گیا ہےاگراس اصول پرچلاگیاتو یقیناً ہم سب اور سپریم کورٹ کےدوسرے ججز کواجازت مل جائیگی کہ وہ اپنےبعدآنیوالےجج کونامزدکرسکیںاورانہیں بھی نامزد کیا جائے گا اور سپریم کورٹ کے متوقع ججوں کے طور پر تقرری کے لیے منظوری دی جائے گی۔کم ازکم میری یہ خواہش ہےدوسروں کےبارےمیں کچھ نہیں کہہ سکتا،دوسری صورت میں ہم ججوں کی تمام نامزدگیاں منظورکرلیںتویقیناً سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد18ہوجائیگی جوکہ آئین کےخلاف ہے،اگرچہ آئین کےانڈرسیکشن177 کےتحت سپریم کورٹ میں جج تعیناتی کیلئےقابلیت ہائیکورٹ میںبطورجج5سال کام کرناہےلیکن بہترین مشق ہمیشہ ڈیمانڈہوتی ہےسینارٹی کےاصول کومدنظررکھناچاہیےاورسنیئر کونظراندازکرکے اور کسی ٹھوس وجہ کےبغیرجونیئرجج کی نامزدگی کی صورت میںمتعلقہ ہائیکورٹ میں ان کےکام کےباوجودان پرانگلیاں اٹھائی جاسکتی ہیں،جوڈیشل کمیشن کےگزشتہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیاگیاتھاکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کیلئےمعیارہوناچاہیےاور اس مقصد کیلئےمناسب ترامیم تجویزکرنےکیلئےکمیٹی کی تشکیل دی گئی تھی اور سپریم کورٹ میںججوں کے تقرر کیلئے متضادقوانین اورتقررکے معیار کو دیکھناتھاتاہم بدقسمتی سےکمیٹی نےآج تک نہ تقررکےمعیاراور نہ ہی ترمیمی رولزبنائے،اگرچہ معززچیف جسٹس نےگزشتہ میٹنگ میں شرکت کی تھی جس میںایماندارنہ صلاحیت،قوت برداشت اور ایک چیز اورقابلیت کوطے کیاگیاتھااس کےباجودانہیں قواعدمیں تبدیل نہیں کیاگیااورمعاملےکو مزید غور و خوض کے لیے موخر کر دیا گیا تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ جج کےمعیار کا تعین کیسے کیا جائے گا۔چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ کےعلاوہ نامزد ججوں کی جو فہرست فراہم کی گئی ہےیہ جونیئرججز کون ہیں؟ جہاں تک میں نےسپریم کورٹ ججوں کےتقررکیلئےفراہم کردہ ڈیٹادیکھاہےجونیئرججز کونامزدکیاگیاہےسنیئرججز اوردیگر جج ان سے زیادہ قابل ہیں،،مسٹرجسٹس احمدعلی شیخ کی جانب سےلکھاگیاخط واضح کرتاہےکہ پہلے12مارچ2022کولکھاگیاانکاخط جوہم سےاس اجلاس میں شیئرنہیں کیاگیا،جس میں انہوں نے بعض حالات کی وجہ سے لکھا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ترقی کے خواہاں نہیں ہیں۔وہ انکارکرنےوالےکوئی نہیں ہیںاس لیے شایدان کاخط ان کےبطورسپریم کورٹ جج کےتقررکیلئےغورنہ کرنےکی وجہ سےہو،اگرانہیں سپریم کورٹ کاججز نامزدکیاجاتا اوروہ انکارکردیتےتوآئین کاآرٹیکل206(2)ان کےخلاف کام کرتا اور سمجھاجاتاکہ وہ ریٹائرہوناچاہتےہیں،صرف تب ہی ان سےجونیئرجج کوسپریم کورٹ میں بطورجج تقررکیلئےنامزدکیاجاسکتاہے، بصورت دیگر اور آئین میںبطور سپریم کورٹ کےجج کےتقررکیلئےہماری جانب سےچیف جسٹس سےانکارکی رضامندی حاصل کرنےکاکوئی بندوبست نہیں ہے،دوسری جانب چیف جسٹس اطہرمن اللہ جوسنیارٹی میں احمدعلی شیخ کےبعدہائیکورٹ کےججوں میں سنیئرترین ہیں کومکمل نظراندازکیاگیا اور ان کےکام اور قابلیت کاکوئی ڈیٹا کمیشن کوفراہم نہیں کیاگیااوران کی ایماندارنہ صلاحیت،قوت برداشت وغیرہ کوسپرسیڈکرنےکی کوئی وجہ بھی ریکارڈپرنہیں ہرکوئی جانتاہےکہ اطہرمن اللہ کےفیصلوں کومعتبرسمجھاجاتاہےا وردوسرے ممالک کی عدالتیں ان پرانحصارکرتی ہیںاور کوئی بھی ان کی قابلیت،صلاحیت پرانگلی نہیں اٹھاسکتا،لیکن حیران کن طورپرانہیں حقائق کےباجود نظراندازکیاگیاکہ وہ ہائی کورٹ کےججوں میں سنیئرترین ہیں،اس سے پہلے ہماری ایک غیررسمی میٹنگ میں چیف جسٹس نےکہاکہ اسلام آبادہائیکورٹ کےجج کوسپریم کورٹ میں لانےکاکوئی تصورنہیں،آرٹیکل175میںاسلام آباد کےبارے میں بحث موجود ہے اوروہاں ججز بنانے کے لیے بھی آرٹیکل175 میں لکھا گیا ہےکہ سپریم کورٹ میں جن ججوں کولایاجائےگاانہیں ہائیکورٹ سےلایاجائےگااس لیے5ہائیکورٹس ہیں اورہمارے پاس اقبال حمیدالرحمٰن کی مثال موجودہے جنہیں اسلام آبادہائیکورٹ سےسپریم کورٹ میں لایاگیاجبکہ اطہرمن اللہ کونظراندازکیاگیا،میں کہوں گاکہ وہ تمام ہائیکورٹس میں سینئرترین جج ہیںلیکن انہیں مکمل نظراندازکیاگیاہےاور ایساکرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے،یہ بالکل واضح ہےکہ سندھ ہائیکورٹ،لاہور ہائی کورٹ اور تمام ہائیکورٹس کےچیف جسٹسزمیں کئی سنیئرجج موجودہیں ،سپریم کورٹ کےججوں کےتقررکیلئےنامزدگیوں میں امتیازی سلوک موجودہے،جو کہ آئین کےمینڈیٹ کےخلاف ہے،ہم روزانہ عدالتوں میںامتیازی سلوک کےخلاف فیصلے کرتےہیں لیکن ہمارے ادارےمیںامتیازی سلوک کیوں کیاجارہاہے،دوسری طرف پروپیرٹی مطالبہ کرتی ہےکہ سنیارٹی کوسب سے پہلےمدنظررکھاجائیگا،اگرسنیئرہونےکےباجودان میں سے کوئی قابل جج نہیںملتاتویہ ایک ٹھوس وجہ ہوگی،میں بار بارکہوں گااگرسنیئرجج کونامزدکرنےکی ٹھوس وجہ نہیں دی جاتی تو اس کاطلب ہوگا کہ سنیئرجج کوسپریم کورٹ میں تقررکیلئےزیرغورنہیں لایاجارہالیکن معزز چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے20جولائی2022میں لکھے گئے خط کاپیراگراف 9ظاہرکرتاہےاورجس میںخاص طورپرذکرکیاگیاہےکہ جن ججز کواب نظراندازکیاگیاہے کومستقبل میں سپریم کورٹ کاجج نامزدکیاجاسکتاہےتو اب کیوں انہیں سپریم کورٹ کےججوں کیلئےنامزدنہیں کیاگیا،فراہم کردہ ڈیٹا اور بار ایسوسی ایشن کے مختلف حلقوں سے کیے گئے سوالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نظراندازکیےجانیوالےسنیئرجج سپریم کورٹ کا جج بننےکیلئےنامزدہ ججز سےزیادہ قابل ہیں،سنیارٹی اورقابلیت کی کی خلاف ورزی ان کےاحساسات کوٹھیس پہنچائےگی اوراگردلائل کی خاطرمان لیاجائےجیساکہ پیراگراف9میں کہاگیاکہ مستقبل میں وہ سپریم کورٹ کےجج ہوں گےتو ہائیکورٹ میں سینئرجج سپریم کورٹ میں نامزدججوں کےجونیئرہوجائیں گے،ہمیں جو ان سےجونیئرزہیں سپریم کورٹ میں ان سے سنیئربناکرسسٹم کومتاثرنہیں کرناچاہیے ۔ سپریم کورٹ میں نئے ججوں کی سنیارٹی کے اصول کے خلاف تقرریوں پر بار کونسل اور بار ایسوسی ایشن جو ہمیشہ ملک میں فورسز کی طرف سے کئے جانیوالے ہر غیر آئینی اقدام پر عدلیہ کے ساتھ کھڑی رہیں ، انہوں نے بھی اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ تحفظات پوری وکلا برادری کی اجتماعی دانش کا نتیجہ ہیں اور ایک عشرے سے چلے آ رہے سنیارٹی اصول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔جہاں تک سندھ ہائی کورٹ کیلئے نامزدگی کا تعلق ہے ، جسٹس احمد علی شیخ کا کوئی ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا اور نامزد افراد اور ان کے ساتھ دو سینئرز کا جو ڈیٹا دیا گیا ہے سے معلوم ہوا کہ مسٹر جسٹس عرفان سادات خان نے 197 رپورٹیڈ فیصلوں میں سے 169 تفصیلی اور 28 مختصر فیصلے قلمبند کئے گئے ہیں۔ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تفصیلی فیصلے 86 فیصد تھے جبکہ مسٹر جسٹس عقیل احمد عباسی نے 262 مقدمات کے رپورٹیڈ فیصلوں میں سے 166 تفصیلی اور 96 مختصر فیصلے لکھے ہیں اور ان کے تفصیلی فیصلے 64 فیصد تھے جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے 135 رپورٹیڈ فیصلوں میں سے 70 تفصیلی اور 65 مختصر فیصلے قلمبند کئے ہیں۔ انہوں نے 135 رپورٹیڈ فیصلوں میں سے مختصر فیصلوں پر انحصار کیا جو 52 فیصد بنتے ہیں۔ مسٹر جسٹس ندیم اختر نے 214 رپورٹیڈ فیصلوں میں سے 152 تفصیلی اور 63 مختصر فیصلے قلمبند کئے اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تفصیلی فیصلے 71 فیصد تھے۔ مسٹر جسٹس شفیع صدیقی نے 148 رپورٹیڈ فیصلوں میں سے 106 تفصیلی اور 42 مختصر فیصلے قلمبند کئے۔ ان کے تفصیلی فیصلے 72 فیصد بنتے ہیں۔ اسی طرح مسٹر جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے 245 رپورٹیڈ فیصلوں میں سے 134 تفصیلی اور 111 مختصر فیصلے قلمبند کئے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ فوجداری مقدمات میں مختصر فیصلے کیسے لکھے جاتے ہیں۔ ان کے تفصیلی فیصلے 55 فیصد بنتے ہیں۔ اس تناسب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جن ججز کو نظرانداز کیا گیا انہوں نے نامزد ججز سے نسبتاً زیادہ تفصیلی فیصلے لکھے ہیں۔ جبکہ اس کے بجائے جسٹس عرفان سادات خان نے 86 فیصد تفصیلی فیصلے قلمبند کئے ہیں جس کا تناسب دیگر نامزد ججز میں سب سے زیادہ ہے مگر انہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ وہ اہل نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کی کمپیوٹر برانچ سے حاصل کئے گئے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس سادات خان کے لکھئے گئے 4.8 فیصد فیصلوں کو کالعدم قرار دیا گیا جبکہ 57 فیصد فیصلوں کو برقرار رکھا گیا اور جسٹس عقیل عباسی کی جانب سے لکھے گئے 3.5 فیصد فیصلوں کو کالعدم قرار دیا گیا جبکہ 44 فیصد فیصلوں کو برقرار رکھا گیا۔ مسٹر جسٹس حسن رضا رضوی کی جانب سے لکھے گئے 5 فیصد فیصلوں کو مسترد کیا گیا جبکہ 76 فیصد فیصلوں کو اس عدالت نے برقرار رکھا۔ مسٹر جسٹس محمد شفیع صدیقی کے تحریر کردہ 4.9 فیصد فیصلے کالعدم قرار پائے جبکہ 60 فیصد فیصلے سپریم کورٹ نے برقرار رکھے۔ اسی طرح مسٹر جسٹس نعمت اللہ کے لکھے گئے 11.7 فیصد فیصلے مسترد ہوئے جبکہ 48 فیصد فیصلے سپریم کورٹ نے برقرار رکھے۔ جسٹس عرفان سادات خان اور جسٹس عقیل احمد عباسی کے لکھے گئے فیصلوں کی سپریم کورٹ سے خارج ہونے کی شرح سندھ ہائی کورٹ کے دیگر نامزد ججوں سے کم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینئر ججز نامزد ججوں کی نسبت اہلیت کے معیار اور قانون پر دسترس کے حوالے سے بہتر ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید کے رپورٹیڈ فیصلوں کی تعداد جسٹس شجاعت علی خان کے رپورٹیڈ تفصیلی فیصلوں سے کم ہے۔ جسٹس شہزاد احمد خان اور جسٹس شجاعت علی خان کے رپورٹیڈ تفصیلی فیصلے جسٹس شاہد وحید کے فیصلوں سے زیادہ ہیں اور تقریباً جسٹس امیر بھٹی کے لکھے گئے فیصلوں کے برابر ہے۔ اس لئے اس تقابلی چارٹ اور ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینئر ججز نامزد کردہ ججوں کی نسبت زیادہ اہلیت کے حامل ہیں۔ جسٹس امیر بھٹی کی جانب سے لکھے گئے 2.6 فیصد تفصیلی فیصلے کالعدم قرار پائے جبکہ سپریم کورٹ نے ان کے 76 فیصد فیصلے برقرار رکھے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کے 18.2 فیصد فیصلے کالعدم جبکہ 60.4 فیصد فیصلوں کو برقرار رکھا گیا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس شجاعت علی خان کے 2.3 فیصد فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جبکہ 71 فیصد فیصلے برقرار رکھے گئے۔ دوسری جانب جسٹس شاہد وحید کی جانب سے لکھے گئے 4 فیصد فیصلوں کو اس عدالت نے مسترد کیا اور 77.8 فیصد فیصلوں کو برقرار رکھا۔ اس لئے جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس شجاعت علی خان کے مسترد کئے گئے فیصلوں کی شرح لاہور ہائی کورٹ کے نامزد جج جسٹس شاہد وحید کی نسبت کم ہے۔ اس ڈیٹا سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ سینئر ترین اور دیگر سینئر ججز نامزد کردہ ججوں کی نسبت زیادہ بہتر اہلیت کے حامل ہیں۔ جہاں تک جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کا تعلق ہے ، میں اپنے سینئر ترین جج جسٹس عثمانی کے موقف کی تائید کرتا ہوں۔ میں نے جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کے لکھے گئے فیصلوں کا جائزہ لیا ہے جو عام طور پر فوجداری مقدمات کے فیصلے لکھتے ہیں۔ ان کے لکھے گئے 111 فوجداری مقدمات کے فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئے جن میں سے 9 مقدمات زیر التوا ، 27 مقدمات کو سماعت کیلئے منظور کیا گیا اور 13 کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ 53 فیصلوں کو مسترد کیا گیا جن میں سے زیادہ تر غیر موثر ہونے کی بنا پر خارج ہوئے۔ ریکارڈ اور ڈیٹا کے مطابق جو مقدمات غیر موثر ہوئے ان میں یا تو رہائی ہو چکی تھی یا پھر ملزم مر چکے تھے۔ مقدمات کے فیصلوں سے علم ہوتاہے کہ اگرچہ وہ فوجداری مقدمات کے ماہر کے طور پر پہنچانے جاتے ہیں لیکن درست طور پر میں یہ کہتا ہوں جیسا کہ عثمانی صاحب نے کہا کہ ان کے فیصلے اوسط سطح کے ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا فوجداری قوانین سے متعلق تصور واضح نہیں ہے۔ تمام مقدمات میں ایک مثال ہے کہ انہوں نے پہلے طبی شہادت پر بحث کی اور صرف مشاہدہ کیا کہ موت غیر فطری تھی جبکہ اس کے برعکس سپریم کورٹ نے 1990-91 میں طے کر دیا ہے ، جیسا کہ عثمانی صاحب کے علم میں ہے ، کہ طبی شہادت کو مصدقہ شہادت کے طور پر زیر غور نہیں لایا جا سکتا کیونکہ یہ ملزم کی نشاندہی نہیں کرتی اور یہ صرف زخم ، موت کی وجہ ، نعش کی صورتحال ، زخمی ہونے سے مرنے اور پوسٹ مارٹم ہونے تک کی تفصیلات بیان کرتی ہے۔ اس صرف معاون شہادت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے مصدقہ شہادت کے طور پر نہیں۔ نامزد جج کے تقریباً ہر فیصلے میں سزا دینے کیلئے طبی شواہد کو مصدقہ شواہد تسلیم کیا ہے۔ اس حوالے سے بہت سی چیزیں ہیں ، اگر میں نے انہیں پڑھنا شروع کر دیا تو آپ پریشان ہو جائیں گے۔ مجھے ان کے فیصلوں میں کوئی اصول نظر نہیں آیا۔ دوسری جانب یہ کہا گیا کہ جب جسٹس ملک شہزاد گھیبا کو بتایا گیا کہ ان کے فیصلے اوسط سطح کے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں میں ایک اچھی چیز ہے کہ انہوں نے شہادت کے حصے پر بحث کی ہے ، سپریم کورٹ میں ہم اسے دوبارہ تشخیص کرنا کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہے کہ اس کی جانب سے شہادتوں کی تشخیص اور دوبارہ تشخیص طے شدہ اصولوں کے خلاف ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ انہوں نے سختی سے سپریم کورٹ کے 30 سالوں کے نظائر کو پڑھنے اور ان کی روشنی میں چلنے سے انکار کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے آئین کے آرٹیکل 189 کی خلاف ورزی کی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں جج کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔ سندھ کے مختلف حلقوں سے جو میں نے معلومات اکٹھی کی ہیں ان کے مطابق ان کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہے جبکہ ان کی تقرری کے حوالے سے 20 جولائی 2022 کا خط ان کی ساکھ کے حوالے سے خاموش ہے۔ ساتویں نمبر پر آنیوالے جج جسٹس شفیع صدیقی کے حوالے سے میں نے سندھ کے وکلا سے جو معلومات اکٹھی کی ہیں ان کے مطابق ان کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہے اور ان تک رسائی آسان ہے۔ بار اور جن لوگوں سے میں نے معلومات لی ہیں وہ اچھے لوگ ہیں اور سندھ میں ہمارے پاس معلومات لینے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ اور میں ان سے معمولی سا ہی پوچھ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کیلئے ساکھ کے ساتھ ساتھ سنیارٹی کا اصول بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم نامزد ججوں کی تقرری کے حوالے سے جو وجوہات بیان کی گئی ہیں وہ ان کی ساکھ کے حوالے سے خاموش ہیں۔ یہاں یہ صورتحال ہے کہ کسی نے بھی جسٹس عرفان سادات اور جسٹس عقیل احمد عباسی کی ساکھ پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔ جہاں تک جسٹس عقیل احمد عباسی کے تحمل یا قوت برداشت کا تعلق ہے ، قانون دان برادری کی جانب سے کسی نے ان کی حمایت نہیں کی ہے لیکن یہ وجہ کسی جج کو سپریم کورٹ میں لانے کیلئے کافی نہیں۔ متعدد مواقع پر جج وکلا کے مواد کی وجہ سے اپنا صبر و تحمل کھو بیٹھتے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں نامزد نہیں کیا گیا حالانکہ وہ قابل اور سینئر بھی تھے اور تمام چیزیں برابر تھیں۔ دیکھیں سر ! آپ نے ہمیں قیصر رشید کے بارے میں تقابلی ڈیٹا فراہم نہیں کیا کہ ہم اس کو دیکھتے۔ امیر بھٹی کے بارے میں وہ کہتے کہ وہ اچھے جج ہیں اور میرے بھائی نے کہا ہے کہ ہمیں ایک محنتی سول جج کی ضرورت ہے۔ امیر بھٹی نے ملتان کی ضلعی عدلیہ میں کئی دہائیوں تک کام کیا ہے۔ انہیں دیوانی اور ریونیو مقدمات کا خاصا تجربہ ہے۔ ہمارے ادارے کیلئے وہ ایک اچھا اضافہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ مسٹر پھلپوٹو کو فوجداری مقدمات کیلئے زیر غور لانے کی بجائے اس پر غور کیا جائے کیونکہ ہمارے پاس سپریم کورٹ میں چند سو فوجداری مقدمات کے مقابلے میں ہزار ہا دیوانی مقدمات پڑے ہیں۔ اصل مقدمات وہی ہوتے ہیں جو منطقی انجام تک پہنچائے جائیں۔ اعجاز الاحسن کے مطابق فوجداری مقدمات کی تعداد تھوڑی سی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں وہ انتہائی قابل اور موزوں شخص ہے۔ میں تمام تحفظات کے ساتھ، میرے تحفظات ہمیشہ سنیارٹی میں رہے ہیں کہ جب بھی ہم سنیارٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ اس ملک کے لیے اچھا کام نہیں کرتے۔ میں مندرجہ بالا تمام تحفظات کے ساتھ جناب جسٹس سید حسن اظہر رضوی، محمد شفیع صدیقی، نعمت اللہ پھلپوٹو کی تقرری کی تجویز کو منظور کرنے کے لیے مائل نہیں ہوں جو سندھ ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں بالترتیب سیریل نمبر 4، 6 اور 7 پر آتے ہیں اور جناب جسٹس شاہد وحید لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ کے سیریل نمبر 4 پر ہیں جیسا کہ ہمیں تقابلی ریکارڈ فراہم کیا گیا ہے۔ اور میں نے اوپر کی تقابلی بحث پر کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ سنیارٹی اصول، دیانتداری اور اہلیت کے پیش نظر مسٹر جسٹس محمد امیر بھٹی خالی نشست پر سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری کے لیے موزوں ہیں اور اس سے قبل سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج کے طور پر تقرری پر غور کیا گیا۔ وہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر اپنی ترقی کے لیے بھی موزوں ہیں۔ اگر انہیں آرٹیکل 206 کے تحت آگے بڑھایا جائے تو پھر یقیناً جناب جسٹس عرفان سعادت خان اور عقیل احمد عباسی پاکستان کی سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات ہونے کے لیے موزوں ترین جج ہیں اور میں ان کے ناموں کی منظوری دیتا ہوں۔ جہاں تک جناب جسٹس قیصر رشید خان کا تعلق ہے تو وہ اگرچہ پشاور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر دیگر دو ججوں نے کوئی تقابلی ڈیٹا فراہم نہیں کیا تاکہ سنیارٹی کے علاوہ ان کی اہلیت کی تکمیل کے حوالے سے موازنہ کیا جا سکےتو میری عاجزانہ نظر میں ان کا معاملہ ٹالا جا سکتا ہے۔ آپ کا بہت شکریہ سر۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال: جسٹس طارق مسعود صاحب آپ کا تجزیہ بہت روشن ہے اور آپ نے جو کچھ کہا ہے اس کو ہماری بحث کے دوران نمٹانے کی ضرورت ہے اور اس کا جواب دیا جائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: آپ کا بہت بہت شکریہ میں نے آپ کو اپنے خیالات سے بذریعہ نوٹ 25 جولائی 2022 کو بتا دیا تھا اور میں درخواست کروں گا کہ اس نوٹ کو منٹس کا حصہ بنایا جائے۔ ایک اور چیز جسے میں شامل کرنا چاہتا ہوں کہ چیزوں کا کچھ انوکھا طریقہ تیار ہوا ہے اور مجھے ان منٹس پر اعتماد نہیں ہے جو پہلے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ میں نے کئی بار تحریروں میں کہا ہے کہ منٹس کو غلط طریقے سے ریکارڈ کیا گیا۔ یہ بات مجھ سے چھپائی گئی۔