کراچی (نیوز ڈیسک) امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان دورے کی وجہ سے امریکا اور چین کے درمیان تعلقات میں جو معمولی قربت رہ گئی تھی وہ بھی اب تقریباً ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ واشنگٹن میں مختلف عہدیداروں کی جانب سے متنبہ کیے جانے کے باوجود نینسی پیلوسی اب وہ اعلیٰ ترین امریکی شخصیت بن چکی ہیں جس نے 25؍ سال بعد تائیوان کا سرکاری دورہ کیا ہے۔ لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو حالات اب وہ نہیں جیسے پہلے ہوا کرتے تھے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس دورے کے مضمرات کیا ہوں گے۔ غیر ملکی میڈیا نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا کیلئے پیلوسی کا دورہ بظاہر کوئی بڑی بات نہیں۔ کانگریس کے کئی وفود صرف امریکا سے نہیں بلکہ کئی مغربی ممالک سے تائیوان کا دورہ کر چکے ہیں اور یہ دورے اکثر و بیشتر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ دورے امریکا کی سرکاری پالیسی سے علیحدہ ہی تصور کیے جاتے رہے ہیں کیونکہ امریکا میں قانون ساز برانچ ملک کی ایگزیکٹو برانچ سے الگ ہے اور ایگزیکٹو کو ہی خارجہ پالیسی کے انتظام و انصرام دیکھنے کی ذمہ داری حاصل ہے۔ در حقیقت، پیلوسی نے تائیوان میں قدم رکھتے ہی ٹوئیٹ کی کہ ’’میرے دورے کو کانگریس کے دیگر دوروں کی طرح دیکھا جائے اور اسے کسی بھی طرح سے امریکا کی طویل عرصہ سے قائم اس پالیسی سے متصادم نہ سمجھا جائے جو تائیوان ریلیشنز ایکٹ 1979ء، یو ایس چائنا جوائنٹ کمیونیک اور 6؍ یقین دہانیوں کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی۔‘‘ لیکن چین اس صورتحال کو اس نظر سے نہیں دیکھتا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حالات 25؍ سال قبل جیسے نہیں رہے جب امریکا میں ایوان نمائندگان کے اسپیکر نوئیت گنگرچ تھے اور انہوں نے بھی تائیوان کا دورہ کیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُس وقت تائیوان میں کوئی من تانگ (کے ایم ٹی) پارٹی کی حکومت تھی اور وہ ’’ون چائنا پالیسی‘‘ کی حامی تھی۔ یہ وہ مفاہمت تھی جو تائیوان کی نیشنل یونیفکیشن کونسل آف دی ریپبلک آف چائنا (یہ اُس جزیرے کا سرکاری نام ہے جسے مغربی ممالک تائیوان کے نام سے جانتے ہیں) نے طے کر رکھی تھی۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ تائیوان کیسے قائم ہوا تھا۔ چین میں جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو کمیونسٹ پارٹی کے ظلم سے فرار ہو کر کے ایم ٹی کے ارکان اس جزیرے پر پہنچے۔ ریپبلک آف چائنا دراصل پسماندہ اور کمیونسٹ دور سے قبل کی حکومت کی باقیات ہے۔ لیکن 2019ء میں حالات اُس وقت تبدیل ہوئے جب ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی (ڈی پی پی) کی موجودہ تائیوانی لیڈر سائی انگ وین نے 1992ء کی طے شدہ مفاہمت کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب چین نے ڈی پی پی کو ’’تائیوانی علیحدگی پسند فورس‘‘ (تائیوان انڈیپنڈنس فورس) کہنا شروع کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب تائیوان کی اپنی شناخت ابھر کر سامنے آنا شروع ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ گنگرچ کے دورے کو علیحدگی پسند فورسز کو تسلیم کرنے کے طور پر نہیں دیکھا گیا کیونکہ اُس وقت حکمران جماعت کے ایم ٹی خود کو چین کا اصل حکمران سمجھتی تھی، جبکہ پیلوسی کے دورے کو چین کی قومی سلامتی پر حملہ سمجھا جا رہا ہے۔ چین کو بھی یہی لگتا ہے کہ امریکی حکومت نے اس کی سالمیت پر حملہ کیا ہے۔ سب سے پہلے تو نینسی پیلوسی نے امریکی حکومت کے سرکاری طیارے میں تائیوان کا دورہ کیا جو تائیوان اور امریکا کے درمیان باہمی تعلقات کا تاثر دیتا ہے۔ دورے پر امریکی ٹیکس دہندگان کے 90؍ ملین ڈالرز خرچ ہوئے۔ امریکا کی سرکاری ون چائنا پالیسی کہتی ہے کہ وہ تائیوان کے ساتھ صرف غیر سرکاری تعلقات رکھے گا۔ دوسری بات، امریکی فوج نے بھی اعلانات کیے اور منصوبے بھی بنائے کہ پیلوسی کے طیارے کو ایمرجنسی کی صورت میں تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ تیسری بات، صدر جو بائیڈن اور نینسی پیلوسی کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے ہے۔ ان تمام باتوں سے چین کے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ امریکی حکومت نینسی پیلوسی کے اقدامات کی حامی ہے۔ اس دورے کی وجہ سے آبنائے تائیوان میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ چین نے جارحانہ انداز سے جنگی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ ایسا نہیں لگتا کہ امریکا نے جنگی مشقوں اور سفارتی بیانات کو دیکھ کر کوئی رد عمل دینے کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور اسی طرح چین بھی اچانک کوئی بڑا اقدام کرتا نظر نہیں آ رہا۔ اگرچہ چین میں ہوُ شی جن جیسے قوم پرست مبصرین نے فوری عسکری رد عمل کا اشارہ دیا ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کہتے ہیں انتقام فوراً لینے کی بجائے تاخیر سے لینا بہتر ہے اور فی الحال چین کے پاس بھی اتنا وقت نہیں کہ وہ فی الحال اپنی تمام تر توانائی اور وقت انتقام لینے کی حکمت عملی مرتب کرنے پر خرچ کرے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ چین اور تائیوان کے الحاق میں پیلوسی کے دورے کے بعد تیزی آنے کا امکان ہے۔ چین میں عوامی رائے عامہ بھی اسی حق میں ہے جبکہ صدر شی جن پنگ بھی اپنا سیاسی ترکہ مضبوط بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ 2022ء کی دوسری ششماہی میں نیشنل کانگریس آف کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا 20واں اجلاس ہونے جا رہا ہے جس میں وہ تیسری مدت کیلئے پارٹی کا سیکریٹری جنرل منتخب ہونے کی کوشش کریں گے یا پھر شاید وہ پارٹی کا چیئرمین بننا چاہیں گے۔ یہ وہ عہدہ ہے جو 1982ء میں ختم کر دیا گیا تھا اور یہ عہدہ صرف مائو زے تنگ کو ملا تھا۔ چین تائیوان الحاق کے نتیجے میں چائنیز خانہ جنگی مستقل طور پر ختم ہو جائے گی اور شی جن پنگ چین کے قد آور رہنما بن جائیں گے۔ اس تمام تر صورتحال سے امریکا کو اُن معاملات میں شدید تکلیف ہوگی جن میں اس نے تکلیف ابھی سے محسوس کرنا شروع کر دی ہے جن میں معاشی حالات، بڑھتی مہنگائی اور تجارتی مسائل شامل ہیں۔ امریکا میں تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ چین ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ کی وجہ سے امریکا کو پہلے ہی مہنگائی کا سامنا ہے۔ صرف ایک قلم کی جنبش سے، چائنیز حکام امریکا کی معیشت میں اتھل پتھل مچا سکتے ہیں، مہنگائی بڑھا سکتے ہیں حتیٰ کہ جو بائیڈن کی حکومت کو رواں سال ہونے والے مڈ ٹرم الیکشن میں گھر کی راہ دکھا سکتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ نینسی پیلوسی کے سر سے اسپیکر کا تاج چھن جائے گا۔ آنے والے حالات کا اندازہ انہی باتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔