• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبائی حلقہ 217کے بعد ملتان میں ایک اور انتخابی میچ 11ستمبرکو ہونے جارہا ہے ،قومی اسمبلی کی نشست حلقہ 157زین قریشی کے استعفیٰ کے بعد خالی ہوئی ہے ، اس نشست پر ضمنی انتخاب ابھی سے ایک دلچسپ شکل اختیار کرگیا ہے ،کیونکہ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کو اس حلقہ سے اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس کے لئے علی موسیٰ گیلانی نے اپنی الیکشن مہم بھی شروع کردی ہے ، پیپلزپارٹی کا اس حوالے سے دعویٰ یہ ہے کہ چونکہ 2018ءکے انتخابات میں علی موسیٰ گیلانی اس حلقہ میں دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ 

اس لئے پی ڈی ایم کے فارمولے کے مطابق اس نشست پر انتخاب پیپلزپارٹی کا امیدوار لڑے گا ،جبکہ اس حلقہ میں مسلم لیگ ن کا اچھا خاصا ووٹ بنک موجود ہے اور مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک عبدالغفار ڈوگر اس حلقہ سے ایم این اے بھی منتخب ہوچکے ہیں ، 2018ء کے انتخابات میں وہ شکست کھا گئے تھے ،تاہم ان کی اچھی خاصی حمایت اس حلقہ میں موجود ہے ، اب اصل سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت انہیں کیسے راضی کرے گی ،جبکہ انہوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے ،کیونکہ لوگ یہاں شیر کے نشان کو دل و جان سے چاہتے ہیں ،انہوں نے ’’جنگ‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے لئے میری تمام تر وفاداری اور ہمدردیاں موجود ہیں۔

مگر یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ اس حلقہ میں میراووٹ بنک موجود ہے اور لوگ یہ چاہتے ہیں کہ میں انتخابات میں حصہ لوں ،جبکہ دوسری طرف گیلانی خاندان اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ علی موسیٰ گیلانی کو پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا جائے ،ملک عبدالغفار ڈوگر نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ صرف ایک صورت میں علی موسیٰ گیلانی کی حمایت کرسکتے ہیں، اگر وہ شیر کے نشان پر الیکشن لڑیں، ظاہر ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ،کیونکہ پیپلزپارٹی اپنے امیدوار کو مسلم لیگ ن کی جھولی میں نہیں ڈال سکتی، پھر یہ بھی ہے کہ اگرشیر کے نشان پر علی موسی گیلانی کامیاب ہوبھی گئے ،تو یہ نشست مسلم لیگ ن کی تصور کی جائے گی اور آنے والے عام انتخابات میں گیلانی خاندان کا اس نشست سے حصہ لینا مشکل ہوجائے گا۔

پیپلزپارٹی ویسے بھی روز بروز اپنی حمایت کھو رہی ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی نے صوبائی حلقہ 217کے ضمنی الیکشن میں سلمان نعیم کی بھرپور انتخابی مہم چلائی ،وہ کئی دن تک کارنر میٹنگز اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتے رہے، ان کی بھرپور مہم اور توجہ کے باوجود پیپلزپارٹی کا ووٹر باہر نہیں نکلا اور اس نے سلمان نعیم کو ووٹ نہیں دیا۔ 

حقیقت یہ بھی ہے کہ اس حلقہ میں پیپلزپارٹی کا زیادہ ووٹ تھا بھی نہیں، تاہم اس قومی حلقہ157 میں اگرچہ پیپلزپارٹی کو ووٹ بنک موجود ہے، تاہم یہاں بھی کامیابی کی ایک شرط ہے کہ مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت بھرپور اور دل وجان سے علی موسیٰ گیلانی کی انتخابی مہم میں حصہ لے اور مسلم لیگ ن کے ووٹرز کو آمادہ کرے کہ وہ علی موسیٰ گیلانی کو ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے باہر آئیں ،یہ کام اتنا آسان اس لئے نہیں ہے کہ اس حلقہ کی مقبول سیاسی شخصیت ملک عبدالغفار ڈوگر ابھی سے کھل کر کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا حلقہ نہیں چھوڑیں گے ،چاہے انہیں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ ہی کیوں نہ لینا پڑے، ان کے بارے میں یہ چہ مگوئیاں بھی ہورہی ہیں کہ اگر انہیں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ دیا گیا ،تو وہ تحریک انصاف سے رجوع کرسکتے ہیں۔ 

اس بات کی اگرچہ انہوں نے سختی سے تردید کی ہے ، مگر سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ، تاہم شاہ محمود قریشی یہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ اپنے روایتی حریف ملک عبدالغفارڈوگر کو تحریک انصاف میں لا کر اپنی اس نشست سے ہمیشہ کے لئے دستبردار ہوجائیں، اگرچہ ان کے بیٹے نے یہ نشست خالی کرکے صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کر لی ہے ، مگر اس کے باوجود قریبی ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ شاہ محمود قریشی اپنے کسی عزیز یا پھر خود اس حلقہ سے امیدوار بن سکتے ہیں ، ایسا ہو ا ،تو یہ ایک بڑا عجوبہ ہوگا، کیونکہ شاہ محمود قریشی اپنی نشست سے مستعفی ہوچکے ہیں، مگر ان کا استعفیٰ ابھی تک منظور نہیں ہوا ،جن 11ارکان کے الیکشن کمیشن نے استعفے منظور کئے ہیں، ان میں ملتان کا کوئی بھی رکن اسمبلی شامل نہیں ہے ، مگر جس طرح زین قریشی نے استعفیٰ کی منظوری ہوئے بغیر صوبائی اسمبلی کی نشست سے الیکشن میں حصہ لیا۔ 

اس طرح شاہ محمود قریشی بھی اس حلقہ 157سے ضمنی انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں ، پی ٹی آئی کی غالباً حکمت عملی یہ ہے کہ خالی ہونے والی نشستوں پر حکومتی اتحاد کے امیدواروں کو واک اوور نہ دیا جائے اور ان پر الیکشن لڑ کر یہ ثابت کیا جائے کہ عوام میں تحریک انصاف کی مقبولیت اب بھی موجود ہے ،دوسری صورت یہ ہے کہ اگر شاہ محمود قریشی اپنے کسی خاندان کے فرد کو جن میں خواتین کا ذکر بھی آرہا ہے ،اس ضمنی الیکشن میں امیدوار بناتے ہیں ،تو یہ خود تحریک انصاف کی اس پالیسی کے خلاف ہوگا، جو موروثی سیاست کے حوالے سے عمران خان اکثر بیان کرتے ہیں۔ 

اس حلقہ میں تحریک انصاف کے پاس اچھے امیدوار موجود ہیں ، لیکن ان سب کو شاہ محمود قریشی نے اپنی چھتری تلے لے رکھا ہے اور ان میں سے کسی کی یہ جرات نہیں ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس ضمنی الیکشن میں اپنے لئے ٹکٹ مانگے ، شاہ محمود قریشی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ تازہ تازہ انہیں ملتان میں ایک بڑی کامیابی ملی ہے ،تو اس نشست کو بھی اس مقبولیت کے ریلے میں اپنے پاس رکھا جائے، بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شاہ محمود قریشی ،سید علی موسیٰ گیلانی کو امیدوار بنانے کی وجہ سے اس حلقہ میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، کیونکہ آئندہ عام انتخابات میں ایک بار پھر اس نشست سے وہ اپنے بیٹے زین قریشی کو امیدوار بنائیں گے ،جو فی الوقت صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔

بہر حال اس ضمنی الیکشن کی وجہ سے ملتان میں ایک بار پھر سیاسی جوڑ توڑ کا آغاز ہوچکا ہے، اس حلقہ میں مختلف برادریاں موجود ہیں ، جن کا ایک موثر ووٹ بنک ہے، سیاسی سے زیادہ اس حلقہ میں برادری ازم اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے، البتہ 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کا ملتان میں خاصا زور تھا، اس لئے برادری ازم کو شکست ہوئی اور زین قریشی یہاں سے منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے، اب بھی اگر پی ٹی آئی مخالف ووٹ تقسیم ہوجاتا ہے، تو تحریک انصاف کا امیدوار آسانی کے ساتھ ا س حلقہ سے جیت جائے گا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید