• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد فیصل شہزاد

ظہر کی نماز ہوچکی تھی کچھ نمازی سنتیں پڑھ رہے تھے، اسی دوران ایک نوجوان مسجد میں داخل ہوا۔ جدید تراش خراش کی قمیص شلوار زیب تن کیا ہوا تھا۔ سر کے بال مروّجہ فیشن کے مطابق کٹے اور سنورے ہوئے، چہرے پر کچھ ہی گہری تراشیدہ داڑھی تھی۔ وہ وضو کرکے مسجد کے دالان کے ایک کونے میں آ کھڑا ہوا اور نماز کی نیت باندھ لی سر پرٹوپی پہنا بھول گیا یا خود ہی نہیں پہنی۔ 

قریب ہی ایک بزرگوار نماز سے فارغ ہوئے تو نوجوان کو دیکھتے ہی ٹھٹک سے گئے۔ ان کے چہرے پرشدید ناگواری کے تاثرات نقش ہو گئے۔ وہ اٹھنے کا ارادہ ملتوی کر کے اپنی جگہ بیٹھ گئے، ان کی نگاہ مسلسل اس نوجوان پر جمی ہوئی تھی۔

نوجوان نے نماز ختم کی اور مختصر سی دعا کے بعد اٹھ کھڑا ہوا، اسے اٹھتا دیکھ کر بزرگوار بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ نوجوان ان کے قریب سے گزرا تو اسے مخاطب کرتے ہوئے بولے،

’’سنو میاں! مسلمان کو تو ہر وقت ہی سر ڈھانپ کر رکھنا چاہیے تم نے تو نماز ننگے سر پڑھی ہے، تمہاری نماز نہیں ہوئی۔‘‘

مسجد کے دروازے کی طرف بڑھتے نوجوان نے بزرگوار کے تخاطب پر چونک کر انہیں دیکھا۔ رک کر پورے اطمینان سے ان کی بات سنی، ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے کا رنگ بدلا، مگر پھر مسکرا کر کہا،’’آپ کی نماز تو ہو گئی ناں!؟‘‘

’’اللہ کو معلوم ہے…‘‘ بزرگوار نے درویشانہ بے نیازی سے جواب دیا۔

’’خوب است‘‘ نوجوان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ ’’آپ کی نماز کا اللہ کو معلوم ہے اور میری نماز کا آپ کو…واہ!‘‘ اس نے ادب سے کہا اور سلام کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

بزرگوار کھسیانے سے ہو کر اپنی جگہ کھڑے ر ہے اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگے۔ شاید کہہ رہے ہوں کہ گستاخ بجائے ’مسئلے‘ کو سمجھنے اور شرمندہ ہونے کے زبان درازی کر کے چلا گیا۔

چھوٹے کوئی غلطی یا کوتاہی کریں تو انہیں ٹوکنا، روکنا بڑوں کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو یقینا اپنی ذمے داری سے کوتاہی کے مرتکب ہوں گے۔ اس بات سے تو اختلاف کی قطعاً گنجائش نہیں، مگر ایک تو یہ روک ٹوک واقعتا غلطی اور کوتاہی پر ہونی چاہیے۔ دوسرے غلطی کی طرف متوجہ بھی اس حکمت کے ساتھ کیا جائے کہ جسے نصیحت کرنا مقصود ہو، اس کی دل آزاری، توہین یا تضحیک نہ ہو۔ 

انداز ایسا ’’لٹھ مار‘‘ نہ ہو جس سے سامنے والا بجائے نصیحت حاصل کرنے اور غلطی کی اصلاح کرنے کے الٹا بغاوت پر آمادہ ہو کر نصیحت کرنے والوں سے بدظن ہو جائے بلکہ جیسی تیسی نیکی اور بھلائی کرنا بھی چھوڑ دے، تیسرے یہ کہ ناصح کا مقصد نصیحت کرنا ہی ہو بلاضرورت اپنی نام نہاد علمیت اور قابلیت کا جھنڈا بلند کرکے دوسروں کو مرعوب کرنا نہ ہو۔ 

نیک نیتی اور حکمت سے کی گئی نصیحت ہی مؤثر اور قابل قبول ہوتی ہے۔ آج کل عام مشاہدے میں آتا ہے کہ اگر نوجوان کوئی غلطی کر جائے تو بڑے بآواز بلند اسے ڈانٹنے ڈپٹنے اور ’’جہالت‘‘ کے طعنے دینے لگتے ہیں، ساتھ اس کے والدین کو بھی اپنے غیظ وغضب کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس رویے کا نشانہ بننے والے کئی نوجوان پھر اچھے کام کرنے سے کترانے لگتے ہیں اور بزرگوں کے بارے میں ان کے خیالات نہایت باغیانہ ہوجاتے ہیں۔

نصیحت کرتے ہوئے، خصوصاً چھوٹوں کو ان کا برا بھلا بتاتے ہوئے، ان کے احساسات اور عزت نفس کا بھرپور خیال رکھاجائے تو بہتر ہوگا، بصورت دیگر نتائج اچھے کی بجائے بہت برے بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔

ناصح تجھے آتے نہیں آداب نصیحت

ہر لفظ ترا دل میں چبھن چھوڑ رہا ہے