محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی
عکّاسی: اسرائیل انصاری
اس شہر میں اب اتنی طاقت نہیں کہ اس پر مزید کوئی نیا تجربہ کیا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈر بیٹھیں اور پھر منصوبہ بندی کریں۔ آپ لیاری ایکسپریس وے چلے جائیں تو وہاں دیکھیں گے کہ ٹوٹے پھوٹے دو منزلہ مکان میں لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر یہ ساری زمین لے کردس بیس بلڈنگ تیار کردیں تو 500افراد کے رہائش کا بندوبست ہوگیا۔
چین نے ایسا ہی کیا انہوں نے پہلے ساری زمینیں حاصل کیں پھر پچاس گھر توڑے ایک بلڈنگ میں انہیں منتقل کردیا۔ توڑتے گئے بناتے گئے اور اس طرح اعلیٰ معیاری رہائش سب کو فراہم کردی۔ تو جب تک کوئی واضح حکومتی پالیسی ہی نہیں ہوگی جس میں تمام اسٹیک ہولڈر زکی رائے شامل ہوں تو پھر آپ کیسے سمجھتے ہیں یہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
ناصر حیات مگوں
کراچی وہ بدنصیب شہر ہے جو ملکی خزانے کو 65 فیصد ٹیکس دیتا ہے لیکن جواب میں اسےزیادہ توجہ کی بجائے نئی مشکلات ملتی ہیں ۔کراچی تو پورے ملک کےلیے سرمایہ ہے جو پورے ملک کو چلا رہا ہے اگر آپ ا سے ٹھیک کردیں گے تو ہم کہتے ہیں سرکاری خزانے کو ملنے والا ٹیکس65فیصد سے بڑھ کر 110 ہوسکتا ہے۔ مرتضیٰ وہاب نے کے ایم سی کی طرف سے سستے گھروں کے لیے ہمیں بلایا تھا۔
کچھ زمینوں کی نشاندہی کی اور بتایا کہ کے ایم سی بھی یہ کام کرنا چاہ رہی ہے۔ سستے گھر وں کی بہت ضرورت ہے یہ کام ہم سب کو کرنا پڑے گا۔اگر یہ نہیں کریں تو شہر میں مزید کچی آبادیاں بنیں گی۔ ازخود نو ٹس سے تو کراچی کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگئی۔ بیرون ملک مقیم لوگوں کا کنسٹرکشن انڈسٹری پر اعتماد خراب ہوا ہے۔ بجٹ میں پراپرٹی ،رئیل اسٹیٹ اور جائیداد کے کرایوں پر عائد ٹیکس ختم کیا جائے۔
محسن شیخانی
ڈھائی کروڑ کی آبادی کاکل بجٹ 25بلین روپے کا ہے۔اس کے مقابلے میں دہلی کا بجٹ 690ارب روپے اور آبادی تین کروڑ ہے۔ ڈھاکا کابجٹ 43ارب اور آبادی سوادو کروڑکے قریب۔اب اگر وسائل نہیں ہوں گے تو ترقی بھی نہیں ہوسکتی۔ہم تو کافی عرصے سے کہہ رہے کہ کراچی کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہے بہتر کرنے کے لیے اسے این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کے حوالے کردینا چاہیے۔
کچی آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ بھی ماسٹر پلان کا اپ ڈیٹ نہ ہونا ہے۔ تو یہ سب کچھ تب ہی بہتر ہوگا جب شہر کا آنے والا منتخب نیا مئیر اتنا مضبوط اور بااختیار ہو جو شہر کے ترقیاتی کام کرسکے کرواسکے۔ مہنگائی کی وجہ سے تعمیری لاگت پر بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے کم قیمت گھر پاکستان میں ممکن ہی نہیں۔
عبدالرحمن نقی
ایک گھر مگر کیسے؟ مہنگائی کی شدید لہر میں یہ اس وقت کا اہم ترین سوال ہے، زمین کی قیمتوں کے ساتھ تعمیراتی اشیاء کی قیمتوں میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور مسلسل جاری ہے، جس کے سبب اپنے گھر کی تعمیر اب ایک خواب کی صورت اختیار کر گئی ہے، اس بنیادی مسئلے کو لے کر کراچی میں رہائش کے مسائل پر جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا، ماہرین سے پوچھا گیا کہ تعمیراتی صنعت کن مشکلات کا شکار ہے، بلڈرز کی نئی منصوبہ بندی کیا ہے، ماضی میں کئے گئے عدالتی فیصلوں کے اثرات کیا ہوں گے، آئی ایم ایف کی شرائط کیا ہیں اور ہاؤسنگ انڈسٹری پر اس کے منفی اثرات کیا ہوں گے۔
نئی سرمایہ کاری کے امکانات کیا ہیں، بینک فنانسنگ کی صورت حال اور مستقبل کیا ہے، غیر قانونی تعمیرات کے مسائل کیا ہیں کیسے حل کیا جائے، کم لاگت کی پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ کس حال میں ہے، کم لاگت کی رہائشی منصوبے کیسے بن سکتے ہیں، صوبوں کا کیا کردار ہو سکتا ہے پبلک پرائیویٹ منصوبوں میں کیا رکاوٹیں ہیں۔
دیگر اہم سوالات کے ساتھ آباد کے چیئرمین محسن شیخانی، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر عبدالرحمن نقی اور ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر ناصر حیات مگوں سے جنگ فورم میں گفتگو کی گئی، فورم کا انعقاد دادا بھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن، شہید ملت روڈ پر کیا گیا، میزبانی کے فرائض جنگ فورم کراچی کے ایڈیٹر محمد اکرم خان نے سرانجام دیئے فورم کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے:۔
جنگ: محسن شیخانی صاحب کراچی میں تعمیراتی منصوبوں کے اب کیا حالات ہیں، کچھ عرصے پہلے بعض عدالتی فیصلوں پر آپ لوگوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا اور دھرنا بھی دیا تھا۔ اب کیا صورت حا ل اور مستقبل میں آپ کیا دیکھ رہے ہیں۔
محسن شیخانی: کراچی کے تمام مسائل کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔وہ رہائش ہو ، صنعتوں کے مسائل ہوں ٹرانسپورٹ ہو یاامن و امان ہو۔ایک عرصے تک تو شہر میں کاروبار کرنا مشکل ترین تھا۔ خراب امن و امان بھتہ خوری ،اغوا ،لوٹ مار، ہرشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ 2014 کے بعد امن وامان کی صورت حال بہتر ہونا شروع ہوئیں تو اس سے کاروبار پرمثبت اثر پڑا۔صورت حال جب بہتری کی جانب گامزن ہوئی لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ اس کے ساتھ عدالتوں کے کچھ احکامات آنا شروع ہوگئے۔
یہ شہر جب بھی بہتری کی جانب جانے لگتا ہے تو اس میں اچانک رکاوٹیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔شہر کو منصوبہ بندی کے ساتھ چلنا چاہیے لیکن رکاوٹوں سے شہر میں کام کی منصوبہ بندی برقرار نہیں رہ سکتی۔پانی کی صورت حال ہی دیکھ لیں آج سے21سال پہلے 800 ایم جی ڈی پانی آتا تھا۔ جس میں سے ادارے کہتے تھے کہ 200ایم جی ڈی گیلن چوری ہوجاتا ہے۔ جو ٹینکروں میں چلا جاتا ہے باقی چھ سو لائینوں رہتا ہے۔21سال گزر گئے ڈیڑھ کروڑ کی آبادی بڑھ کر تین کروڑ ہوگئی لیکن شہر کو پانی کا حصہ وہی پانی 800 ایم جی ڈی ہی مل رہا ہے۔ہے۔جب آپ پانی دینے میں ناکام ہوئے تو لوگ زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔جب آپ منصوبہ بندی نہیں کریں گے تو لوگوں نے کچھ تو کرنا ہے۔
کراچی وہ بدنصیب شہر ہے جو ملکی خزانے کو65 فیصد ٹیکس دیتا ہے لیکن جواب میں اسےزیادہ توجہ کے بجائے نئی مشکلات ملتی ہیں۔ جب یہ شہر تجارتی کاروباری طور پر بہتری کی طرف جاتا ہے تو ہم کسی نہ کسی بہانے سے رکاوٹ ڈالنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کبھی کوئی منصف پانی کی فراہمی پر سوال اٹھا دیتے ہیں کہ صنعتوں کو پانی کہاں سے فراہم ہورہا ہے تو کبھی گیس کے مسئلےکھڑے کیے جاتے ہے اور کبھی بجلی پر اور کبھی پابندی لگادی جاتی ہے کہ شہر میں بلند عمارتیں نہیں بنے گی۔
کبھی سوال کیا جاتا ہے اس جگہ انڈسٹری کیوں لگ رہی ہے تو اس طرح سارے اسمال ٹریڈرز ویسے ہی پریشان ہوجاتے ہیں لیکن ان تمام پریشانیوں کے باوجود شہر کی گروتھ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ کراچی تو پورے ملک کےلیے سرمایہ ہے جو پورے ملک کو چلا رہا ہے اگر آپ ا سے ٹھیک کردیں گے تو ہم کہتے ہیں سرکاری خزانے کو ملنے والا ٹیکس65 فیصد سے بڑھ کر 110 ہوسکتا ہے۔
جنگ: آپ کو جن مسائل کا سامنا ہے اس پر آپ لوگوں کی وفاقی یا صوبائی حکومت سے کوئی بات چیت ہوتی ہے۔ اگر ہوئی تو کیا پیش رفت ہے یا اس طرف سے کوئی یقین دہانی ملی ہے۔
محسن شیخانی: ہاوسنگ کے حوالے سے پچھلی وفاقی حکومت کی کافی چیزیں بہتر تھیں، ہر ہفتے میٹنگ ہوتی تھی۔ سابق وزیراعظم نے ہم سے 132 میٹنگ کی تھی۔جس کا آوٹ پٹ یہ رہا کہ بینکوں نے بہت عرصے کے بعد ہاوسنگ میں سرمایہ کاری کرنا شروع کردی تھی۔ وزیراعظم نے فائیو پائی فیصد آف ٹوٹل پورٹ فولیو کے کنسٹرکشن کی ایکٹیویٹیز کو فکس کیا۔فورکلوزر لو تھا اس کو کورٹ سے۔ تاکہ بینکوں کو فری اانٹری کی وفاقی گورنمنٹ کوشش بھی کررہی ہے لیکن اب سامان کی قیمت ا تنی بڑھ گئی کہ وہ ان کے بس سے باہر ہوگیا۔
آج جب وفاقی حکومت کم قیمت رہائشی منصوبہ بنانے کی بات کرتی ہے تو میں منع کرتا ہوں۔کیونکہ حکومت کا خیال تھا کہ گھر 30لاکھ میں دیں گے تو اب اس کی لاگت 45لاکھ ہوگئی ہے۔ لہذا نقشے اوردیگر کےلیے پرائیوٹ سیکٹرکے حوالے کرنا پڑے گا۔ آپ جب بحثیت حکومت یہ کام کرتے ہیں تو وہ نہیں ہوسکتی۔ پرائیوٹ سیکٹر جو سو ایکڑ کی زمین پراگر کوئی اسکیم کررہا ہے تو آپ اس اسکیم میں20فیصد کم قیمت رہائشی منصوبے کا کہیں، حکومت اسے مراعات دیںتاکہ یہ کام چلنا شروع ہو۔ سندھ حکومت کے حوالے سے کہوں گا پرانے مسائل اپنی جگہ ،لیکن نئی پالیسیوں میں بھی کچھ نہیں ہورہا۔سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، شہر میں غیر قانونی تعمیرات سے تباہی ہے ، جس کی وجہ پوری صنعت بلڈر کوقرار دیا جاتا ہے۔
حالانکہ وہ بلڈر نہیں وہ 60 گز پر غیرقانونی پورشن بنانے والے ہیں۔ بہت سارے مسائل ہیں ،حکومت سے بھی بات ہورہی ہے۔ سندھ حکومت سے ایڈمسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب صاحب نے کے ایم سی کی طرف سے سستے گھروں کے لیے ہمیں بلایا تھا۔ کچھ زمینوں کی نشاندہی کی اور بتایا کہ کے ایم سی بھی یہ کام کرنا چاہ رہی ہے۔ سستے گھر وں کی بہت ضرورت ہے یہ کام ہم سب کو کرنا پڑے گا۔اگر یہ نہیں کریں تو شہر میں مزید کچی آبادیاں بنیں گی۔
جنگ: 30سے45لاکھ گھر کی جو قیمت بتا رہے ہیں اس میں زمین کی قیمت بھی شامل ہے۔ اگر زمین حکومت فراہم کردے تو لاگت بھی کم ہوسکتی ہے؟
محسن شیخانی: جی ہاں یہ قیمت زمین کے ساتھ ہے۔ جہاں تک لاگت کی بات ہے تعمیراتی خرچ کا تعلق کورڈ ایریا پر منحصر ہوتا ہے جو لاگت کچھ عرصے پہلے ڈھائی ہزار تھی وہ آج چارہزار پر چلی گئی ہے۔جس کامطلب 70فیصد لاگت بڑھ گئی ہے۔ تو ہم جتنی تاخیر کریں گے اس کی قیمت بڑھتی جائے گی۔
عبدالرحمن نقی: رہائش فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،لیکن کراچی اور پاکستان بھر میں اس شعبے میں پرائیوٹ سیکٹر ہی کام کررہا ہے۔ جیسا کہ محسن صاحب بتارہے ہیں کہ کچھ عدالتوں کے معاملات ہیں، جس کی وجہ سے کمرشلائزیشن کراچی میں نہیں ہورہی۔ شہر میں نئے پراجیکٹ نہیں آرہے لہذا رہائشی یونٹس میں کمی پید ا ہونا شروع ہوگئی ہے اب اس کا جو حل نکالا گیا ہے۔
وہ کچھ یوں ہے کہ شہر کا 60فیصد کچی آبادی پر مشتمل ہوگیا ہے۔ایسی آبادی کے لیے نہ کوئی نقشہ چاہیے نہ کوئی اجازت نامہ۔لہذا وہ تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔اس کی وجہ سے جرائم بھی بڑھ رہے ہیں۔یہاں نہ کوئی پتہ ہوتا ہے، پتلی پتلی گلیاں ہوتی ہیں ،جس کی وجہ سے پولیس کے لیے آبادی میں جانا دشوار ہوتا ہے۔ مہنگائی سے جرائم ویسے ہی بہت بڑھ گئے ہیں،شہر کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ قریبا ڈھائی کروڑ کی آبادی کاکل بجٹ 25بلین روپے کا ہے۔
اس کے مقابلے میں زیادہ دور نہیں پڑوس میں دہلی کو لے لیں تو اس کا بجٹ 690ارب روپے کا ہےاور آبادی تین کروڑ کی۔ ہم ڈھاکا کی بات کریں تو اس کابجٹ 43ارب اور آبادی سوادو کروڑکے قریب۔اب اگر وسائل نہیں ہوں گے تو ترقی بھی نہیں ہوسکتی۔ ہم تو کافی عرصے سے کہہ رہے کہ کراچی کا انفرااسٹرکچر تباہ ہے بہتر کرنے کے لیے اسے این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کے حوالے کردینا چاہیے۔جب کمرشلائزیشن ہوتی تھی تو اس کا کچھ فیصدی بجٹ ڈی ایم سیز کو ملنا چاہیے تھا جو انہیں نہیں دیا گیا۔لیکن کمرشلائزیشن ساری تو ہوئیں۔
پھر انفرا اسٹرکچر کو بھی ترقی نہیں دی گئی۔ نتیجے کے طور پراب جب مسائل سامنے آئےتو الزام بلڈر یا ڈیولپر پر لگایا جاتا ہے کہ اس نے اتنی بڑی بلڈنگ بنادی لیکن وہاں کا انفرا اسٹرکچر کو بہتر کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔حالانکہ بلڈر اور ڈیولپر نے اس مد میں فیس ادا کردی ہے اداروں نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی،ایسے اور بھی کئی مسائل ہیں۔
جنگ : کراچی کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے، کراچی چیمبر ایک ذمہ دار ادارہ ہے شہر کا ماسٹر پلان ہونا چاہیے کیا اس سلسلے میں آپ لوگوں کی کوئی بات ہوئی ہے۔اب اگر تعمیراتی کام میں اضافہ ہورہا ہے تو یہ تو بہت ضروری ہے۔
عبدالرحمن نقی: مرتضی وہاب صاحب سے جب کراچی کے ماسٹر پلان کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا جب نیا منتخب میئر کراچی کا آئے گا وہی ماسٹر پلان بنائے گا۔ تو پھر یہ تو طے ہوا کہ نئے مئیر کے آنے تک یہ کام رکا رہے گا۔ کچی آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ بھی ماسٹر پلان کا اپ ڈیٹ نہ ہونا ہے۔ تو یہ سب کچھ تب ہی بہتر ہوگا جب شہر کا آنے والا منتخب نیا مئیر اتنا مضبوط اور بااختیار ہوجو شہر کے ترقیاتی کام کرسکے کرواسکے۔
جنگ :کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، کراچی چیمبر شہر بھر کے تاجر برادری کی نمائندگی کرتی ہے۔ آپ اپنے چیمبر کاکیا کردار دیکھتے ہیں۔ کم لاگت کے رہائش منصوبوں کے حوالے سے راچی چیمبر کے کردار سے مطمئن ہیں۔
عبدالرحمن نقی: ابھی اس میں مزید کام کی ضرورت ہے۔ ابھی شہر میں جو بھی ترقیاتی کام ہورہا ہے یا انفراسٹرکچر پر کوئی کام ہورہا ہے کراچی چیمبر آف کامرس اس سے مطمئن نہیں۔ جہاں تک سستے گھروں کی فراہمی کی بات ہے وفاقی حکومت کی اس سلسلے میں کرچی چیمبر سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں ہماری آباد ایسوسی ایشن اور ڈیولپرز سے ہی بات ہوئی ان ہی کا اس میں کردار ہے۔
جنگ: ناصر مگوں فیڈریشن اب جرات مند ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ کراچی میں عدالتی فیصلوں کے بعد جو صورت حال بنی ہے اور آئی ایم ایف کے اثرات بھی سامنے آرہے ہیں تو اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں۔
ناصر حیات مگوں: پہلی بات ہم اپنا گھر بنانے سے پہلے اس کا نقشہ بناتے ہیں۔کراچی میں ہر کام عجیب ہورہا ہے کام کس کا اور اتھارٹی کس کے پاس،کوئی روڈ بنا رہا ہے کوئی عمارت بنا رہا ہے۔ جب تک اس کی بنیاد یعنی پالیسی یا اختیار کا پتا نہیں ہوگا۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ عدالت اگر ہٹ بھی جائے تو بھی کرپشن ہوتی رہے گی۔ اگر آباد کے رکن قانون کے مکمل دائرے میں کام کرتے ہیں، تو جو اس کا رکن نہیں وہ ناجائز تعمیرات کرے گا۔ اس شہر میں اب اتنی طاقت نہیں کہ اس پر مزید کوئی نیا تجربہ کیا جائے۔ اس شہر کے ساتھ کرنا کیا ہے تمام اسٹیک ہولڈر بیٹھیں اور پھر منصوبہ بندی کریں۔
آپ لیاری ایکسپریس وے چلے جائیں تو وہاں دیکھیں گے کہ ٹوٹے پھوٹے دو منزلہ مکان میں لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر یہ ساری زمین لے کردس بیس بلڈنگ تیار کردیں تو 500 افراد کے رہائش کا بندوبست ہوگیا۔چین نے ایسا ہی کیا انہوں نے پہلے ساری زمینیں حاصل کیں پھر پچاس گھر توڑے ایک بلڈنگ میں انہیں منتقل کردیا۔ توڑتے گئے بناتے گئے اور اس طرح اعلیٰ معیاری رہائش سب کو فراہم کردی۔ تو جب تک کوئی واضح حکومتی پالیسی ہی نہیں ہوگی جس میں تمام اسٹیک ہولڈر زکی رائے شامل ہوں تو پھر آپ کیسے سمجھتے ہیں یہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
میں نے یہاں دیوار بنا دی، اس نے وہاں سڑک بنادی کسی نے ایک طرف گھر تیار کرلیا تو کسی نے فیکٹری تعمیر کرلی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ شہر بہت پھیل چکاہے جس میں بڑی بے ترتیبی اوربے ضابطگیاں ہوچکی ہیں۔ پہلے قدم کے طور پر ایس بی سی اے اور کے ڈی اے کو ری اسٹرکچر کیا جائے۔جس میں آباد ،کراچی چیمبر اور فیڈریشن کےنمائندے شامل کیئے جائیں۔ پھر یہ سب پہلے اس بات کی منصوبہ بندی کریں کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔
جنگ: عدالت نے جو نوٹس لیے اور اس کے بعد جو اقدامات ہوئے وہ کراچی کی منصوبہ بندی کےلیے کتنے مددگار ہوسکتے ہیں۔
ناصر حیات مگوں: اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی یہاں عدالت روزنوٹس لیتی ہے اور دو دن بعد وہی کام دوبارہ شروع ہوجاتاہے۔جب تک کوئی پالیسی نہیں بنے گی کچھ نہیں ہوگا۔ بلڈنگ نسلہ ٹاور توڑی گئی اب وہ تو چلے گئے تو اب کیا ہوگا۔وہ کام اب رکا ہوا ہے۔ تو پہلے ایک مکمل جامع پالیسی بنائی جائے۔ایسے کیسے کہ آپ کبھی اس بلڈنگ کو توڑ دو کبھی وہ کام رکوا دو ایسے تو یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔
جنگ: فیڈریشن اور چیمبر کی اس حوالے سے آواز موثر ہونی چاہیے تھی۔تو آپ کے خیال میں ایسا ہوا۔
ناصر حیات مگوں: ہمارے ایک وائس پریذیڈنٹ آباد سے آصف جیوا صاحب تھے، وہ پورٹ فولیو ان کا تھا وہ اس شعبے کے ماہر تھے ہمیں جہاں جس فورم پر انہوں نے بلایا ہم نے وہاں جا کر آواز اٹھائی۔
جنگ: محسن شیخانی کیا آپ عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کےلیے گئے تھے۔
محسن شیخانی: جب عدالت ان عمارت پر سوموٹو لے لیتی ہے جن کی اداروں سے جازت لی گئی۔ تو پھر مشکل کھڑی ہوجاتی ہے ایسے کیسوں کے لیے عدالتوں کو ماہرین کی ضرورت پڑتی ہے،جج صاحبان ایسے کام کے لیے پروفیشنلز کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ازخود نو ٹس سے تو کراچی کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگئی۔ بیرون ملک مقیم لوگوں کا کنسٹرکشن انڈسٹری پر اعتماد خراب ہوا ہے۔ جب ہم وہاں جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تمہارے پاس اجازت نامہ ہونے کے باوجود عمارت ٹوٹ گئی تو پھر ہم کیسے محفوظ ہیں۔اب ہم کسی اور شہر میں کام کریں گے۔
جنگ: اس صورت حال میں اب آپ نئی سرمایہ کاری کا کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔
محسن شیخانی: ہم نے ایک نکاتی ایجنڈے پر سندھ حکومت سے کچھ میٹنگ کی ہے کہ ہمیں وہ ایک کھڑکی بتادیں جس کی اجازت تسلیم کی جائے،اس میں وہ وقت لیں لیکن پھر اس کے بعد ہرقسم کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔ادارے کے جازت نامے کے بعد ہمیں، عام آدمی، بلڈر، خریدار ،سرمایہ کار ی کرنے والے یا الاٹی کو تنگ نہ کیا جائے۔
زمین کے معاملات ہیں تو اسے انشورڈ کریں، ہماری زمین کو بھی انشورڈ کروادیں۔ ان تمام چیزوں کے میکنیزم کو بہتر کریں۔ صوبائی اسمبلی سے اس پر کوئی بل پاس کریں، تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو۔ اس پر ہمارے منٹس بنے ہیں چیف سیکریٹری اسے ہیڈ کررہے ہیں۔ گزشتہ روز کی میٹنگ میں سیکریٹری بلدیات بھی شامل تھے۔
دو مہینے میں سارے چیزیں مکمل کرنی ہیں،ہم نے لاہور کی طرح کا نئے بائی لاز بھی دیئے ہیں۔ کنسٹڑکشن کے کام میں پہلے کراچی سب سے آگے تھا۔ لیکن اب پہلے لاہور پھر اسلام آبا اس کے بعد پشاور چوتھے نمبر پراب کراچی ہے۔ اب یہاں سے مال ان شہروں میں جارہا ہے صرف 20 فیصد یہاں استعمال ہورہا ہے۔جبکہ پہلے یہاں سے20فیصد مال جاتا تھا باقی سارا کراچی میں استعمال ہوتا تھا۔ تو پھر جب گھروں کی قلت ہوگی کچی آبادیاں قائم ہونا شروع ہوجائیں گی۔ غیر قانونی گھربنیں گے پوردشن تعمیر ہوں گے یہ سب کچھ ہوگا۔
جنگ : یہ ازخود نوٹس غیرقانونی تعمیرات پر ہوا جو ایک تلخ حقیقت ہے،ABADکا اس میں کیا کردار تھا۔کیوں کہ بعض اوقات ABAD کے اراکین بھی بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی کرتے ہیں،یہ شکایت آپ کا خریدار یا صارف بھی کرتا ہے، جو وعدے کیے جاتے ہیں وہ پورے نہیں کیے جاتے ،قیمت جو لینی ہوتی ہے اسے بھی ری شیڈول کیا جاتا ہے۔ یہ مسائل جوآتے ہیں اس کی ذمہ داربھی آباد ہے۔اس سے صارف کا اعتماد تو ٹوٹتا ہے۔
محسن شیخانی: ABAD اپنے اراکین کی تعمیرات کی ذمہ دار ہے۔ جو منصوبے ان کےاراکین کےمنظور شدہ ہیں آباد اس کی بھی ذمے دار ہے۔اور اگر ہمارے رکن کا اپنے خریدار سے کوئی وعدہ ہے تو آباد اس کا بھی ذمے دار ہے۔ اس کی وجہ کراچی میں یہ پابندی ہے کہ اگر وہ منصوبہ عوام کو فروخت کرنے کا ہے تو وہ آباد کا رکن ہوگا۔ بصورت دیگر وہ منصوبہ ممکن نہیں۔ پھر ایس بی سی اے کو ناجائز تعمیرات سے ا تنی زیادہ آمدنی حاصل ہورہی ہے کہ ان کے پاس قانونی تعمیر کرنے والوں کے لیے وقت ہی نہیں۔
جنگ: جو متاثرہ صارفین خریدار آپ کے پاس داد رسی کے لیے آتے ہیں توکیا آپ ان کی مدد کرتے ہیں۔
محسن شیخانی: ہمارے پاس آنے والے 80فیصد افراد کے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ہماری زیادہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو اس کا فائدہ ملے، ہمارے پاس ان شکایات کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔ بلکہ ہمارےرکن بلڈر بعض اوقات ہم سے ناراض ہوجاتے ہیں کہ آپ کس طرح کے فیصلےکررہے ہیں۔
جنگ: تعمیراتی شعبے میں نئی سرمایہ کاری آپ کتنی متاثر دیکھ رہے ہیں۔
عبدالرحمن نقی: بہت زیادہ ،تعمیراتی لاگت بڑھ گئی ہے۔ پچھلے سال جنوری میں سریا 90 ہزار سے ایک لاکھ فی ٹن تھا۔اب دو لاکھ40ہزار پر ہے۔ سیمنٹ پر قیمت میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اب جن بلڈرز اور ڈیولپرز نے اپنا مال اس قیمت پر فروخت کیا وہ آج کیسے اس قیمت پر اپنا مال فروخت کریں۔بلڈنگ بائی لاز میں ہے کہ اگر ڈبل ڈیجیٹ میں چیزیں مہنگی ہو تو تو آپ قیمت بڑھا سکتے ہیں۔
یہاں بلڈر ز کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے قیمت نہ بڑھائے کیوں کہ اس طرح اس کی ساکھ پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔مہنگائی کی وجہ سے تعمیری لاگت پر بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے کم قیمت گھرپاکستان میں ممکن ہی نہیں۔ہمارے یہاں صرف اسٹیل مل تھی جو بلک بناتی تھی اسٹیل مل اب بند پڑی ہے، شیڈڈ اسکریپ درآمد کیا جاتا ہے۔ اس پر ڈیوٹی کے ساتھ 15 فیصد آرڈی بھی لگادی گئی ہے اگر آرڈی ختم کردیا جائے سریے کی قیمت پر 30فیصد کمی آسکتی ہے۔
ناصر مگوں: ہمارا دوبنیادی استعمال ہونے والا مال سریا اور سیمنٹ ہے، سریے میں تو اسکریپ امپورٹ کرسکتے ہیں، سیمنٹ میں کچھ نہیں کرتے جو قیمت سیمنٹ کی برآمد کرتے ہوئے رکھی گئی ہے وہ اگر یہاں ہو تو سیمنٹ کی قیمت کم ہوجائے گی۔ دنیا میں جو مہنگائی آئی اس پر تو ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن جو آپ ٹھیک کرسکتے ہیں اسے تو کریں بصورت دیگرحکومت کو کم قیمت گھر فراہم کرنا نہ ممکن ہوجائے گا۔ کراچی کی کنسٹرکشن کی صورت حال تویہ ہے کہ ایس بی سی اے والے نقشہ ہی پاس نہیں کررہے۔ تو جب تک اصولی طور پر چیزیں طے نہیں ہوگی حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔
جنگ: کراچی کی 60فیصد کچی آبادی شہر میں داغ کی طرح ہے۔سندھ حکومت سے اس پر آپ لوگوں کی کوئی بات ہوئی ہے۔
محسن شیخانی: گفتگو تو قریبا دس بارہ سال سےچل رہی ہیں۔ ہمارا پروپوزل جو دیکھتا ہے تعریف کرتا ہے۔ پوری دنیا میں اس پر عمل ہورہا ہے لیکن جب ہم اس طرح جاتے ہیں تو وہ جواب ملتا ہے کہ ہم ماڈرن نہیں۔ کچی آبادی ختم کرنے کے لیے حکومتی پالیسی ہونی چاہیے۔ پہلےوہ زمین حکومت کو اپنے تحویل میں لینی پڑے گی لیکن لوگوں کو اعتماد نہیں کہ زمین ہمیں حکومت واپس دے گی۔ حکومت کی بھی اس پر کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی۔
جنگ: سندھ حکومت پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے کی کام پہلے ہی سے کررہی ہے خاص طور پر صحت کے شعبے میں تو اس شعبے میں کیوں نہیں کررہی۔ آپ لوگوں کی طرف سے تو کوئی کوتاہی نہیں ہورہی۔
محسن شیخانی: جی ایسا بھی ہے کیوں کہ ہمیں بھی ان پر یہ اعتماد نہیں کہ ہاوسنگ میں ہم پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سندھ حکومت سے کس طرح کریں۔ہمارے قانونی نقشے پاس نہیں ہورہے لیکن دوسری طرف ایک بڑے منصوبے میں سارے غیر قانونی کام چل رہے ہیں۔ تو ایک شہر میں دو قانون کیسے چلیں گے۔ ہمیں سوتیلا کردیا گیا ہے۔ شہر میں ایک رجسٹری نہیں ہوسکتی ،ڈی سی سے شہر میں اپنی زمین کا قبضہ نہیں لے سکتے اپنا نقشہ پاس نہیں کراسکتے تو لوگ کہاں سے اعتماد کریں۔
جنگ: آباد کے کتنے اراکین ہیں،اور کتنے نئے منصوبے سامنے آنے والے ہیں۔
محسن شیخانی: آباد بارہ سو اراکین پر مشتمل ہے۔ جبکہ ہمارے تین سو کے قریب منصوبے پائپ لائن میں ہیں، ڈھائی سوکیسز تو مختلف اعتراض پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں اجازت کے انتظار میں پڑے ہیں ۔ان تین سو میں سے ا یک پراجیکٹ تین ارب روپے اوسط کا ہے۔
جنگ: یہ شکایت کتنی ہے کہ آپ نقشہ کچھ پاس کراتے ہیں اور بناتے کچھ اور ہیں۔
محسن شیخانی: آباد کے رکن کے پراجیکٹ کا جوبھی نقشہ پاس ہوتا ہے اس میں 20فیصد کا ایک گیپ ہوتا ہے کہ ضرورت پڑنے پرہم اس بیس فیصد میں تبدیلی کرلیں، جسے ہم ریگولرائزیشن کے موقع پر کور کرتے ہیں۔ ہم جب تعمیر کررہے ہوتے ہیں تو ڈیزائن میں تھوڑی بہت تبدیلی ہورہی ہوتی ہے،بس وہ فرق ہوتا ہے اس سےزیادہ بلڈر کوئی تبدیلی نہیں کرتا وہ بھی کمپلیشن میں کور ہوجاتا ہے۔
جنگ: آباد ،چیمبر اور فیڈریشن تینوں بڑے ادارے ہیں،تو آپ لوگوں کاکوئی مشترکہ لائحہ عمل کیوں نہیں ہے۔
محسن شیخانی: نسلہ ٹاور کے موقع پر ہم مشترکہ بیٹھے ہیں لیکن جواب میں کیا ہوا اور جو فیصلہ ہوا وہ آپ کے سامنے ہیے۔ میں بڑے اعتماد سے کہتا ہوں کہ آباد کے90فیصد اراکین بائی لاز کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ چھوٹی موٹی کام کرتے ہوئے تبدیلیاں خلاف ورزی میں شمار نہیں ہوتی۔
عبدالرحمن نقی: میں ڈھاکا کی مثا ل دوں گا ہمارے بائی لاز اپ ڈیٹ رہنے چاہیں۔ ڈھاکا میں سائیکلیں گاڑیاں سڑکو ں پر پارک ہوتیں تھیں۔ ڈھاکا انتظامیہ نے اپنے بائی لاز میں تبدیلی کی اور کہا کہ گھروں کو گراکر بنائیں گراونڈ فلور کو مکمل پارکنگ بنائیں اور رہائش اگلے فلور سے کریں جگہ کم پڑرہی ہے تو آپ اگلےمنزل استعمال کے لیے بنانے کی اجازت ہے۔اب وہاں ایسا ہی ہے توا س طرح کے اقدامات ہمیں لینے کی ضرورت ہے۔
جنگ: کے ایم سی کے پاس مشکل سے شہر کا 30فیصدہے۔باقی 70فیصد پر تو ان کا اختیار ہی نہیں ہے تو اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے۔
عبدالرحمن نقی: کنٹونمنٹ بورڈ زکا اپنا اختیار ہے، وفاقی اداروں کا پنا اختیار ہے۔کے ایم سی کا اپنا۔ اور ان سب کا کوئی یونیفارم بائی لاز بھی نہیں۔شہر کراچی کے بہتر انتظام کے لیے سب بائی لاز ایک ہونے چاہیئں۔
جنگ: شہر کے سابق مئیر سید مصطفی کمال نے اپنے دور میں شہر کے بہتر انتظام کے لیے ایک ایسی اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی تھی جووفاقی صوبائی شہر کے تمام اسٹیک ہولڈر ز پر مشتمل ہو مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا یہ بہتر مشورہ نہیں ہے۔
محسن شیخانی: یہ ممکن نظر نہیں آتا ،اٹھارویں ترمیم کے بعدآپ کا آئین اور قانون اس بارے میں واضح ہے کہ صوبائی اور وفاقی مسائل دلچسپی مختلف ہیں۔ کوئی بھی ادارہ کسی دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔ جب تک اس شہرکو ملک کا بااختیار معاشی دارلحکومت قرار نہیں دیں گے جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے، کراچی کو بھی ایسا ہی شہر قرار دیں۔اسی صورت میں کوئی ایک پالیسی بن سکتی ہے۔ شہر کے لیے بہتر قوانین بنانے میں آسانی پیدا ہوگی۔
جنگ: آئی ایم ایف کے بعد بینک فنانسنگ کی کیا صورت حال ہےاور اس کی شرائط کیا ہیں۔
محسن شیخانی: آئی ایم ایف نے سبسڈائز لون روکنے کا کہا ہے۔آباد کا موقف تھا کہ دنیا بھر میں عوام کےلیے پہلا گھر سبسڈائزڈ ہوتا ہے۔ تاکہ ہرشخص اچھے ماحول میں رہائش اختیار کرسکے۔ لیکن مثبت بات یہ ہے حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کم قیمت گھر والی پالیسی کو جاری رکھنا چارہے ہیں۔ اور اس کے بعد اس کا ریٹ آف انٹرسٹ بھی پانچ فیصد سے کم کرکے چار فیصد کردیا ہے ۔پہلا گھر لینے والے شخص کے لیے ریٹ آف انٹرسٹ چارفیصد کردیا ہے۔
جنگ: نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کا دور ہے تو آپ لوگ کسی نجی بینک کے ساتھ بھی تو ایسے منصوبے شروع کرسکتے ہیں۔
ناصر حیات مگوں: قریباً سارے بینک نجی ہیں اور وہ رسک والے ایسے لون دینا ہی نہیں چاہتے۔ حالانکہ حکومت نے کہا ہے کہ اگر بینک کو کوئی نقصان ہوا توآدھا ہم دیں گے۔اور ان بینک کو پابند کیا ہے کہ اتنی مالیت کو لون دینا ہے بصورت دیگر جرمانہ عائد کیاجاسکتا ہے۔ یہ حکومت کا اچھا اقدام ہے۔
عبدالرحمن نقی: اسٹیٹ بینک کی نئی پالیسی کے تحت اب حکومت بھی اسٹیٹ بینک کے بجائے نجی بینک سے لون لینے پر مجبور ہوگی۔حکومت کو دینے والا لون سارا انشورڈ ہے، تو نجی بینک کی کسی پرائیوٹ سیکٹرکو کو لون دینے میں اب کیا دلچسپی ہوگی۔
جنگ: وفاقی حکومت ہاوس بلڈنگ فنانس کارپویشن سے کیوں مدد نہیںلیتی پہلے یہ ادارہ بیس سال تک کا لون دیتا تھا اس ادارے نے گھر بنانے میں عوام کی بہت مدد کی ہے۔
محسن شیخانی: ایچ بی ایف سی کا کل بجٹ ہی پانچ سے سات بلین کا ہے۔ہاوس بلڈنگ کا ماضی کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔جب گھر ڈیڑھ سے دو لاکھ میں بنتا تھا تو وہ پچاس سے70 ہزار تک لون فراہم کرتے تھے۔ اب مکانوں کی قیمت تیس لاکھ سے تین کروڑ پر ہے۔اب اسے ایک سو سات بلین روپے سرمائے کی ضرورت ہے۔ اب یہ حکومت کو چاہیے اس پر کچھ کرے۔
عبدالرحمن نقی: ہاوس بلڈنگ کو تباہ کیا گیا۔وہ ادارہ سبسڈائزڈ لون دیا کرتا تھا، سبسڈی ختم کی اور اسے کمرشل بینک کے طور پر چلایاگیا۔جس کے بعد اس ادارے کا کردار ختم ہوکر رہ گیا ہے یہ ادارہ ہ عام آدمی کی رسائی میں تھا اور ایک غریب آدمی بھی اس کی مدد سے گھر بنوالیتا تھا۔
ناصر مگوں: حکومت کی موجودہ پالیسی اچھی ہے کیوںکہ بینک کے پاس جانا بھی ہرشخص کے لیے آسان ہے۔ ایک مرتبہ نجی بینک کے خدشات دور ہوجائے تو عام آدمی کا بھی بینکوں سے لون لینا آسان ہوجائے گا۔
جنگ: عام آدمی آسانی سے کس طرح اپنا گھر بنا سکتا ہے اس سلسلے میں آپ کی کیا تجاویز ہیں۔ شہر کی اپنی آبادی میں تو اضافہ ہورہا ہے ساتھ ملک کے دیگر حصوں سے عوام ہجرت کرکے یہاں آباد ہورہی ہے اس کے متعلق بھی آپ کی کیا رائے ہیے۔
عبدالرحمن نقی: کراچی کی ٹھیک آبادی معلوم کرنے کے لیے پہلے ایماندارنہ مردم شمای کرائی جائے،جس کے مطابق پھر شہر کو وسائل فراہم کیے جائیں، تاکہ بہتر طریقے سے ترقیاتی کام کیے جاسکیں جو وسائل ابھی مہیا ہیں اس سے یہ مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ہمارا پورا کوسٹل ایریا ٹریٹمنٹ پلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے تبا ہی پر ہے، سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کی ضرورت ہےاوران سب کے لیے ٗضروری ہے کہ شہر کو ایک باختیار خود مختار مئیر دیا جائے۔
ناصر مگوں: پیسوں اور وسائل کا کوئی مسئلہ نہیں نیت اور اختیار کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ پیسے تو وہ بہت زیادہ وصول کرتے ہیں،شہریوں سے لیے جانے والے پراپرٹی، پانی وغیر ہ کے ٹیکس وصولی کے اعداو شمار ہی دیکھ لیں۔ صرف اداروں کی کارکردگی پر سوال ہے۔ جن باڈیز نے شہر کے لیے فیصلے کرنے ہیں اس میں پرائیوٹ سیکٹر کو بھی مساوی شامل کیا جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ بارہ رکنی باڈی میںدس افراد سرکاری شامل ہوتے ہیں جو پہلے سے ہی طے کرکے بیٹھے ہوتے ہیں تو پھر پرائیوٹ سیکٹر کی نمائندگی کچھ نہیں کرسکتی۔
جنگ: کراچی سے تعمیراتی شعبے سے سرمائے کی منتقلی ہورہی ہے اس کی کیا حقیقت ہے۔
محسن شیخانی: جب تک شہر کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں ہوگی، ماسٹر پلان نہیں ہوگا، کراچی کی صورت حال بہتر نہیں ہوسکتی،یوٹیلٹی ایجنسی اپروول اتھارٹیز ان سب کے ریکارڈز کو ڈیجیٹلائزڈ کرنا بہت ضروری ہے۔ پوری دنیا ڈیجیٹلائزڈ ہے ہم ابھی تک کاغذوں پر ہیں ،ابھی میرا نام کاغذ پر ہے میں جاوں گا پیچھے کسی اور کا نام اس کاغذ پر لکھ دیا جاتا ہے،10 ایکڑ کی اجازت کو صرف صفر لکھ کر 100 کرلیا جاتا ہے، یہ ختم ہونا چاہیے۔دنیا کی ترقی کا راز اسی میں ہے۔ اور اسے کرنے کےلیے سندھ حکومت کو کھڑا ہونا پڑے گا۔دوسرا ڈیجیٹلائزیشن کے لیے باہر کی کمپنیوں کی خدمات لی جائیں اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔
ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لوگوں نے اپنا سرمایہ کراچی سے منتقل کیا ہے۔ لاہور سے لوگ ہمارے لیے آفر لارہے ہیں کہ پانچ سال کی ادائی پر ہم منظور شدہ پلاٹ دیں گے اور ریشو ایک سے پندرہ کا۔ہم کراچی میں پانچ سے چھ ریشوز پر کام کررہے ہیں۔ ڈی ایچ اے بہاول پور کی طرف سے پیش کش ہے۔سرمایہ بہت حساس ہوتا ہے خدشات کی صورت میں منتقل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔لیکن اگر آپ لوگوں کو مطمئن کردیں گے تو وہ واپس آجائیں گے۔
30فیصد لوگ لاہور اسلام آباد دبئی اور دیگر کی طرف سرمایہ لے جارہے ہیں اگر دو تین ماہ میں سرمایہ کار کو سرمایہ کاری کرنے والے کو اس بات کا یقین دلادیا جائے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا تو سرمایہ کار مطمئن ہوسکتا ہے بصورت دیگر ممکن نہیں۔ اور آخر ی بات بجٹ میں پراپرٹی ،رئیل اسٹیٹ اور جائیداد کے کرایوں پر عائد ٹیکس ختم کیا جائے۔