• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترک صدر اردوان کی روس کے ساتھ قربت نے مغرب کی نیندیں اڑا دیں

کراچی (نیوز ڈیسک) نیٹو کے اہم اتحادی اور یورپی یونین کے رکنیت کیلئے ممکنہ طور پر مضبوط امیدوار ملک کی حیثیت سے ترکی کا روس کے ساتھ تعلقات میں وسعت اور گہرائی لانے کیلئے اقدامات کرنے کی وجہ سے مغربی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان حال ہی میں روس کے شہر سوچی سے واپس لوٹے ہیں اور روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے بعد اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں وسعت اور تعلقات میں مضبوطی لائی جائے گی۔ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے 6؍ اہم عہدیداروں نے فنانشل ٹائمز کو بتایا ہے کہ روس اور ترکی کے منصوبوں کے حوالے سے اُن کے ملکوں میں تشویش پائی جاتی ہے؛ دونوں ملکوں نے تجارت اور توانائی کے حوالے سے معاہدے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ انتہائی باریک بینی کے ساتھ انقرہ اور ماسکو کے درمیان تعلقات کی نگرانی کی جا رہی ہے اور لگتا ہے کہ ترکی تیزی کیساتھ روس کیلئے تجارتی پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے۔ ولادیمیر پوتن کے ساتھ چار گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد اردوان نے ترکی میں جوہری پاور پلانٹ تعمیر کرنے پر روس کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں ملک تجارتی لین دین 100؍ ارب ڈالرز تک لیجانے کی خواہش رکھتے ہیں اور لیبیا اور شام میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کیلئے تعاون چاہتے ہیں۔ پوتن نے ترکی کو تیل، گیس اور کوئلہ بلا تاخیر فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا، ترکی نے اس گیس کے کچھ حصے کی ادائیگی روسی کرنسی میں کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ ایک اور یورپی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ترکی والوں کا رویہ موقع پرستی جیسا لگتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ترکی ہماری تشویش پر بھی توجہ دے۔ یورپی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ ترکی پر پابندی عائد کیے جانے کا امکان نہیں لگتا لیکن یورپی یونین کے رکن ممالک انفرادی حیثیت سے یہ اقدام کر سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر ترکی کے ساتھ مالی یا تجارتی تعاون کم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ امریکا خبردار کر چکا ہے کہ روس کے ساتھ تجارت کے معاملے میں پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر بھی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں اس بات کا امکان نظر نہیں آتا کہ امریکا یا یورپی یونین ترکی کیخلاف اقدام کریں گے۔ ترکی کے پاس مغربی اتحادیوں سے تعلق توڑنے کیلئے بہت آپشنز ہیں۔ ترکی میں رہنے والے 37؍ لاکھ پناہ گزین موجود ہیں جو ترکی کی مرضی نہ ہوتی تو یورپ بھر میں داخل ہو سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی یورپ سے اپنی کئی باتیں منوا چکا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ترکی کی انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کی حامل آدانا شہر میں قائم انجیرلیک ایئر بیس سے مشرق وسطیٰ کے اُن تمام شہروں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے جنہیں حالیہ برسوں کے دوران امریکا نے جنگ کا نشانہ بنایا ہے۔

اہم خبریں سے مزید