بلوچستان میں طوفانی بارشیں اور سیلابی ریلے اپنے پیچھے تباہی کی داستانیں چھوڑگئے ہیں، بلوچستان میں 2010 اور 2012کے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان میں قدرتی آفت سے بڑئے پیمانے پر تباہی پھیلی تاہم اس بار ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، بلوچستان کا وسیع و عریض آج بھی تباہی کا دلخراش منظر پیش کررہا ہے، بلوچستان میں مون سون کے چوتھے اسپیل کا الرٹ بھی جاری کردیا گیا ہے، صوبائی حکومت کی جانب سے بھی صوبے بارشوں سے ہونے والی تباہی کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔
ان کے مطابق صوبے میں 38 ہزار خاندان متاثر ہوئے جن میں سے 25 ہزار خاندانوں کو ٹینٹ، ایک ایک مہینے کا راشن فراہم کیا گیا ہے، جبکہ اب تک بارشوں سے صوبے میں 180 افراد شہید جبکہ ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، بارشوں سے پورے صوبہ کا مواصلاتی نظام تہہ و بالا ہوکر رہ گیا، 12 ڈیمز ٹوٹے 16 پلوں کو نقصان پہنچا ہے،90 شہداء کے خاندانوں کو دس دس لاکھ روپے کے چیک فراہم کردیئے گئے ہیں، اب تک سامنے آنے والی تفصیلات مکمل نہیں کیونکہ اب تک کوئی حتمی سرکاری سروئے کی رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی متعلقہ حلقوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ یہ نقصانات موجودہ تفصیلات سے کہیں زیادہ ہیں۔
جیسے کہ اس سے قبل بھی ایک تحریر میں یہ بات کی گی تھی کہ بلوچستان میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنا صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے پہلے اسپیل کی بارشوں کے بعد ہی وفاقی حکومت سے پچاس ارب روپے کے پیکیج کا مطالبہ کیا تھا جس کو ابتدائی طور پر ایک بہت بڑا مطالبہ سمجھا گیا لیکن اب جو نقصانات سامنے آرہے ہیں اس میں یہ مطالبہ نہ صرف درست بلکہ کم نظر آرہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف جو بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ہونے والی تباہی کے بعد اب تک بلوچستان کے تین مسلسل دورئے کرچکے ہیں۔
ان کی جانب سے متاثرین کے لئے امداد کے اعلانات تو سامنے آرہے ہیں لیکن بلوچستان حکومت کی جانب سے پچاس ارب روپے کے مطالبے پر کوئی پیشرفت نظر نہیں آرہی ہے جس کے بعد یہ خداشات جنم لے رہے ہیں کہ بلوچستان کے تباہ حال عوام اور اس کے انفراسٹرکچر کی بحالی ممکن نہیں اور عوام کو اپنے اپنے نقصانات کا اپنی مدد آپ کے تحت ازالہ کرنا ہوگا کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے صرف ایک ماہ کا راشن یوں بھی ناکافی ہے کہ بارشون کا پانی اتر جانے کے بعد بھی زرعی ارضی کو کا قابل کاشت بنانے کے بعد اگلی فصل کی تیاری میں بھی کئی ماہ کا عرصہ درکار ہوگا جبکہ بڑی تعداد تو ایسے متاثرین کی ہے جن کے لئے اپنی زمینوں کی بحالی اور اگلی فصل کی کاشت کسی خواب سے کم نہیں، بلوچستان میں سوائے نصیرآباد ڈویژن کے باقی پورئے صوبے میں زرعی شعبے کا دارمدار زیر زمین پانی پر ہے جبکہ حالیہ سیلابی ریلوں سے ٹیوب ویلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
اس وقت بلوچستان میں صورتحال ایسی ہے کہ ایک جانب ان سطور کے تحریر کیے جانے تک 180قیمتی انسانی جانیں جاچکی ہیں تو دوسری جانب اس سے بڑا المیہ بھی رونما ہونے کا خدشہ ہے کہ پہلے سے ہی غذائی قلت کے شکار صوبے میں اب لاکھوں زندہ انسانوں کی خوراک کا مسلہ درپیش ہوگا اور وہ بھی ایک ایسی حالت میں جب ان کے زرائع معاش بھی نہیں رہے اور نہ تو زرائع معاش کی بحالی کی کوئی فوری امکانات ہیں، صوبے کے سنجیدہ حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ شائد اتنی بڑی تباہی کے نقصانات کا ازالہ کرنا ملک کے موجودہ معاشہ صورتحال میں وفاقی حکومت کے لئے بھی آسان نہ ہو تو ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سے قبل کے دیر ہوجائے فوری طور پر وفاقی حکومت اقوام متحدہ سمیت دوست ممالک سے متاثرین کی فوری امداد کی اپیل کرئے۔
سانحہ 8اگست 2016 سول اسپتال کوئٹہ کے شہدا کی چھٹی برسی عقیدت واحترام سے ادا کی گئی گزشتہ ایک سے دو دہائیوں کے دوران بلوچستان میں بڑئے بڑئے واقعات رونما ہوئے سانحہ 8 اگست بھی اسی دوران پیش آنے والا ایک ایسا دلخراش اور افسوس ناک سانحہ تھا جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں، بلوچستان میں گزشتہ ایک دو دہائیوں میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے متاثر ہوئے مگر سانحہ 8اگست میں صوبے کے وکلا کو نشانہ بنایا گیا اور اس سانحے میں وکالت کے شعبے کی قریب قریب پوری کریم صوبے سے چھین لی گئی۔
صوبے کے انتہائی قابل تجربہ کار وکلا کے ساتھ نوجوان وکلا اس سانحے میں شہید ہوئے سانحے میں 70 سے زائد وکلا شہید ہوئے جو بلوچستان جیسے کم آبادی والے صوبے میں ایک بہت بڑی تعداد تھی، سانحے کے بعد ملک کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت نے کوئٹہ کو دورہ کرکے متاثرہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی کیا تھا جبکہ اس وقت مکی صوبائی حکومت نے شہید وکلا کے خاندانوں کے لئے جہاں قابل ذکر معاوضے کا اعلان کیا تھا۔
وہاں سانحے کے محرکات جانے کے لئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کی رپورٹ بھی آئی لیکن بلوچستان کی وکلا تنظیموں اور شہید وکلا کے خاندان اب بھی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ کمیشن کی رپورٹ پر مکمل عملدرآمد اب بھی نہیں ہوسکا ہے، پاکستان بار کونسل کے مینر احمد کاکڑ ایڈوکیٹ اور بلوچستان بار کے راحب بلیدی ایڈوکیٹ نے اس ضمن میں بتایا کہ کمیشن نے اپنی جو رپورٹ پیش کی تھی حکومت اس پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائے۔