پاکستان مسلم لیگ (ق لیگ) کے چوہدری پرویز الہی کے پنجاب میں وزیر اعلی بننے کے وقت سے پاکستان مسلم لیگ ن سکتہ کی حالت میں ہے اور اب تک اس سے نکل نہیں پا رہی۔ اگر چہ سیاسی بیانات کا سلسلہ جاری ہے مگر باڈی لینگوایج قدرے مایوس کن ہے۔ ن لیگیوں اور ان کے اتحادیوں کو ابھی تک یقین ہی نہیں آ رہا کہ حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب نہیں رہے۔
اب عطااللہ تارڑ سمیت میڈیا پر صبح و شام آنے والے ن لیگی کہیں نظر نہیں آرہے۔ دراصل مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادی عدالتوں میں اپنا کیس درست انداز میں پیش ہی نہیں کر سکے جس کی وجہ سے نہ صرف پنجاب کا تخت ان کے ہاتھ سے جاتا رہا بلکہ شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
یہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے کردار اور سیاسی بصیرت کی داد دینی پڑے گی جنہوں نے ایک طرف چوہدری برادران کو تقسیم کر دیا تو دوسری طرف قانونی جنگ درست طریقے سےنہ لڑنے کےباعث ہاری ہوئی گیم پھر سے ن لیگ اور اتحادیوں کی جھولی میں ڈال دی مگر اسے بچایا نہیں جاسکا۔
چوہدری پرویز الہی جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب 2002 سے 2007 تک وزیر اعلی پنجاب رہے تو انہوں نے تجربہ کار بیوروکریٹس کی ٹیم بنائی اور کام شروع کر دیا اگر چہ اس مرتبہ صورت حال چوہدری پرویز الہی کے لیے اگر چہ قدرے مختلف ہے۔
اب وہ ایک ایسی پنجاب حکومت کے وزیر اعلی ہیں جس میں ق لیگ کا ایک بھی وزیر نہیں اگر چہ چوہدری پرویز الہی کی سابقہ وزارت اعلی کے دور کے کئی وزیر پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اب ان کی کابینہ میں شامل ہیں جو یقینی طور پر پرویز الہی کے لیے ممد و معاون ہو سکتے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی کی سابقہ وزارت اعلی کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے پنجاب کے عوام ان سے مزید بہتر کارکردگی کی امید کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ چوہدری پرویز الہی سیاسی اور جسمانی صحت کے حوالے سے اتنے توانا نہیں ہیں اور ان کے پاس وقت بھی بہت کم ہے۔
سابقہ دور میں چوہدری پرویز الہی نے ریسکیو 1122 ، پنجاب ہائی ویز پولیس، پیٹرولنگ پوسٹ، ہسپتالوں میں مفت ادویات،صحافیوں کے لیے رہائشی کالونیاں، پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے ذریعے غریب بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی اور دیگر کئی عوامی فلاحی منصوبے شروع کیے جنہیں ان کی افادیت کے باعث میاں شہباز شریف نے نہ صرف جاری رکھا بلکہ آگے بھی بڑہایا۔ عثمان بزدار کی وزارت اعلی کے دور میں ان منصوبوں میں سے کچھ کو نظر انداز کیا گیا جن سے ان کو نقصان پہنچا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ وقت تھوڑا ہے اور قدرے غیر یقینی بھی ہے لہذا چوہدری پرویز الہی کو چاہیے کہ وہ اپنے سابقہ دور کے منصوبوں پر بریفنگز لیں اور صرف" سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے والوں" پر انحصار کرنے کی بجائے ان بریفنگز میں ان منصوبوں کے اصل سٹیک ہولڈرز کے نمائندوں سے بھی ملیں اور ان منصوبوں کو ایک مرتبہ راہ راست پر ڈال دیں۔
ایسی پالیسیاں اور قانون سازی کریں جس سے ان منصوبوں کو دوام حاصل ہو۔ چوہدری پرویز الہی نے اپنی کابینہ کو مخالف سیاسی جماعت کے گورنر سےحلف دلوانے کے لیے جو سیاسی راستہ اختیار کیا وہ ان کی سیاسی بصیرت اور ن لیگ کی مثبت سیاسی سوچ کا مظہر ہے دونوں نے ہی سیاسی سوچ کا ثبوت دیا جس کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت ہے۔ آخر میں پنجاب میں لاٹ صاحب(چیف سیکریٹری) کی بات کرتے ہیں۔
جنہوں وزیر اعلی پنجاب کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے وفاق میں واپسی کے لیے وفاقی سیکریٹری ایسٹیبلشمنٹ کو مراسلہ لکھ دیا حالانکہ اس مراسلہ سے پہلے وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی ایک پریس کا نفرنس میں چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کو صوبے میں برقرار رکھنے کا کہہ چکے تھے۔ ایسے میں چیف سیکریٹری کی واپسی کی خواہش سمجھ سے بالا ہے۔ چیف سیکریٹری پنجاب کامران علی افضل اچھی شہرت رکھنے والے افسر ہیں مگر اس مرتبہ شاید وکٹ کے دونوں طرف کھیل گئے جس سے وہ بے چین ہو گئے اس کے قبل انہوں نے حمزہ شہباز کی وزارت اعلی کے دور میں بھی وفاق واپسی کی درخواست کی تھی۔