حکمران اتحاد اور عمران خان کے درمیان سیاسی محاذ آرئی فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے۔ عمران خان کا ہدف ہے کہ ملک میں عام انتخابات اکتوبر کے آخری یا نومبر کے پہلے ہفتے میں ہوجائیں۔ جوں جوں وقت گزر گر رہا ہے اس کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم کے عہدہ سے معزولی کے بعد سے ہی عمران خان مسلسل قومی اسمبلی کی تحلیل اور ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کر ر ہے ہیں۔ ان کی نظر میں ملک کے مسائل کا حل فوری الیکشن میں ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی بات نہیں کرتے۔
ضمنی الیکشن کا میدان بھی خالی چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی پالیسی میں کنفیوژن اور تضاد جھلکتا ہے۔ انہوں نے شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا جذباتی اور غیر سیاسی فیصلہ کیا۔ عجلت میں کیا گیا یہ فیصلہ ان کیلئے ٹریپ ثابت ہوا۔ ایک تو ان کی پارٹی تقسیم ہوگئی اور ان کے بیس ممبران ہاؤس میں آکر بیٹھ گئے دوسرے وہ اپو زیشن لیڈر کے اہم آئینی عہدہ اور کردار سے محروم ہوگئے۔ وہ ایوان میں موجود رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے تھے۔
چیئرمین نیب اور الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کے ایشوز پر اپنی بات منوا سکتے تھے۔ نیب ترمیمی بل سمیت جو قانون سازی حکومت نے بڑی آسانی سے کرلی ہے اس کی مخالفت کرکے اپنا نقطہ نظر ایوان میں ریکارڈ پر لاسکتے تھے۔ اب اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کے استعفے مرحلہ وار الیکشن کمیشن کو بھیجنے شروع کردیئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے نو حلقوں میں الیکشن کرانے کا شیڈول جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان نے بیک وقت تمام نو حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے سیا سی کارڈ کھیلا ہے۔
ان کے خیال میں قدرآور شخصیت ہونے کی وجہ سے وہ تمام حلقوں سے الیکشن جیت جائیں گے مگر دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں نا کیلئے رسک بھی ہے کیونکہ ایک دو حلقوں میں وہ ہار گئے تو ان کیلئے شرمندگی کا باعث بن جا ئے گا۔ الیکشن میں بعض اوقات حلقے کے لوگ مقامی امیدوار کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل کے حل کیلئے ہر وقت دستیاب ہوتا ہے۔ خاص طور پر کراچی کے حلقے ان کیلئے مشکل ثابت ہوں گے جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ہے۔ عمران خان جتنے حلقوں سے بھی جیت جائیں بہرحال انہوں نے ایک نشست ہی اپنے پاس رکھنی ہے باقی چھوڑنی پڑیں گی۔ دوسرے اگر ایک نشست بھی رکھیں تو ایک نشست تو اب بھی ان کے پاس ہے۔
وہ اس اسمبلی میں آکر کیا کریں گے جسے وہ خود یہ کہ کر چھوڑ گئے ہیں کہ میں ان چور ڈاکوئوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا۔ ویسے تو پی ٹی آئی نے اسپیکر کی جانب سے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کو اسلام آ باد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے لیکن اس میں ایک قانونی نکتہ یہ ہے کہ استعفیٰ انفرادی مسئلہ ہے اسی لئے اس کی تصدیق کرائی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ضمنی الیکشن بیک وقت تمام حلقوں میں کرائے جا ئیں۔ اگر یہ مطالبہ مان لیا جائے تو پھر عام انتخابات تو بہرصورت فوری طور پر نہیں ہوسکیں گے۔
اس کا فائدہ بھی حکمران اتحاد کو ہوگا۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر قومی اسمبلی کے الیکشن نومبر کے پہلے ہفتے میں نہیں ہوتے تو پھر جب مرضی ہو جائیں۔ نومبر کے آخری ہفتے میں اہم تقرری ہے اور فوری الیکشن کیلئے یہ تمام دبائو اسی تناظر میں ڈالا جا ر ہا ہے لیکن دوسرا فریق بھی اپنی چالیں چل رہا ہے کہ معاملہ کو طول دیتے دیتے اکتوبر یا نومبر کے الیکشن کے انعقاد کو ناممکن بنا دیا جائے۔ اگر موجودہ حکومت ستمبر میں داخل ہوگئی تو پھر الیکشن نومبر کے بعد ہی ہوں گے کیونکہ حکومت کی تحلیل کے بعد ہی نوے دن کیلئے نگران حکومت بنے گی۔
عمران خان کے پاس سب سے اچھا آپشن یہ تھا کہ قومی اسمبلی میں موجود رہتے اور عدم اعتماد سے شہباز شریف کو آئوٹ کردیتے جن کو صرف تین ووٹوں کی اکثریت ملی تھی۔ ایک اتحادی حکومت کی بیساکھی کھینچ کر انہیں گھر بھیجا جاسکتا تھا۔ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ اور اس کے نتیجے میں آنے والی ہوش ربا مہنگائی کی وجہ سے شہبازشریف کی حکومت مشکل میں پھنس گئی تھی۔ ڈالر کی اڑان نے معیشت اور اسٹاک ایکسچینج کو گراوٹ میں دھکیل دیا تھا لیکن اب بتدریج حکومت صورتحال کو کنٹرول کر رہی ہے۔ ڈالر کی واپسی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کی کوششوں سے آئی ایم ایف کے بحالی کے عمل کی سست روی ختم ہوگئی ہے۔ دوست ممالک بھی مدد کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اگلے ایک ماہ میں معیشت دوبارہ استحکام کی جانب گامزن ہو جائے گی۔ قیمتوں میں بھی کمی کا امکان ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد عمران خان کی نہ صرف سیاسی اور اخلاقی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے بلکہ ان کا قانونی طور پر بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی روشنی میں دو اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ایک تو پی ٹی آئی کے خلاف ڈیکلرشن سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائے گا۔ دوسری فوجداری کارروائی ہے جس پر ایف آئی اے نے کارروائی شروع کردی ہے۔
نہ صرف عمران خان بلکہ پی ٹی آئی کے وہ تمام رہنما اور چار ملازمین کو شامل تفتیش کیا جا رہا ہے جن کے نام ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلہ میں سامنے آئے ہیں۔ ایف آئی اے کے نوٹس جاری ہوگئے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جو شوکاز نو ٹس جاری کیا تھا اس کا جواب آنے پر مزید کارروائی ہوگی۔ توشہ خانہ ریفرنس پر بھی الیکشن کمیشن نے کارروائی شروع کردی ہے۔
عمران خان نے اب حکمران اتحاد سے قومی اسمبلی کی تحلیل کا مطالبہ منوانے کیلئے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر عمران خان لاہور میں جلسہ کریں گے جس میں قومی اسمبلی کی تحلیل کیلئے حکومت کو ڈیڈ لائن دی جا ئے گی۔ اس مرتبہ عمران خان کو حکومت پنجاب کی مکمل سپورٹ ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی۔
ایک سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ عمران خان کو نظر بند یا گرفتار کرلیا جائے تاکہ وہ قیادت نہ کرسکیں لیکن اس کے ردعمل کا بھی تجزیہ کرنا ہو گا۔ دوسری سوچ یہ ہے کہ پنجاب میں گورنر راج لگا دیا جائے تاکہ پہلے کی طرح پی ٹی آئی کو لاہور سمیت بڑے شہروں سے نکلنے ہی نہ دیا جائے۔ اہم لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کرلیا جائے۔ کے پی کے جلوس اٹک پر روک لئے جائیں۔ اسلام آباد میں پہنچے والے کارکنوں پر شیلنگ سمیت سخت کارروائی کی جائے تاکہ کوئی بڑا اجتماع نہ ہوسکے۔
عمران خان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سمیت اہم ایشوز پر اسٹیبلشمنٹ پر جس انداز سے تنقید کی ہے اور سانحہ کوئٹہ پر ان کے پارٹی ورکرز نے جو زہریلا اور منفی پراپگنڈہ کیا ہے اس سے اب وہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل بھروسہ اور قابل قبول نہیں رہے بلکہ حکومت کو سپورٹ کرنے کے سوا اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا۔
اب اسٹیبلشمنٹ کی ترجیح یہ ہے کہ ملکی معیشت کو صحیح سمت میں ڈالا جائے اور اسے استحکام بخشا جائے اس کیلئے حکومت کو اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوری الیکشن کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی لیکن اب بھی عمران خان کیلئے یہی بہتر ہے کہ جذباتی سیاست سے نکلیں۔ صبر‘ تحمل اور برد باری کا مظاہرہ کریں۔ ایسے حالات پیدا نہ کریں جس سے ملک میں انتشار ہو۔ معیشت کو نقصان پہنچے ۔ اپنے سیا سی مفادات پر ملک و قوم کے مفاد کو تر جیح دیں ۔ قومی اسمبلی میں واپس آئیں۔ گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنیں۔ سیاست سے تلخی کو ختم کرکے مفاہت کی روش اپنائیں۔