• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران شہباز گل کو اپنی پارٹی سے علیحدہ کریں، طلال چوہدری

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’ آپس کی بات‘‘ میں میزبان منیب فاروق سے گفتگوکرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما آفتاب جہانگیر نے کہا ہے کہ پاکستان کو مضبوط رکھنا ہے تو اداروں کو مضبوط ہونا چاہئے، مرکزی رہنما پاکستان مسلم لیگ ن طلال چوہدری کا کہنا تھاکہ عمران خان شہباز گل کو اپنی پارٹی سے علیحدہ کریں اور اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ اس نے غلط نہیں کیا تو پھر ٹھیک ہے اس کے پیچھے کھڑے ہوں،تجزیہ کارنصرت جاوید نے کہا کہ مجھے متوازی عدالت لگانے کا شوق نہیں ہے حکومت ایک کیس Buildکررہی ہے اپنے کیس کو عدالتوں میں ثابت کرے، مرکزی رہنما پاکستان تحریک ا نصاف آفتاب جہانگیر نے کہاکہ میں شہباز گل کے بیان کی مذمت کرتا ہوں تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارے یہاں کلچر کیا بن گیا ہے آصف زرداری کے بیان کو لے لیجئے کہتے ہیں میں آپ کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا ، اس طرح پرویز رشید ، خواجہ آصف اور پھر نواز شریف اور یہ باتیں جب ہوتی ہیں اور لوگ دیکھتے ہیں اس پر کوئی سنجیدہ ایکشن بھی نہیں لیا جارہا ہے تو اس میں لوگ اپنی حدود سے کراس کرجاتے ہیں اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ میرا بھی ایک بیانیہ ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ اس بیانیہ کو پسند کرتے ہوں تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ اداروں کو مضبوط ہونا چاہئے اور اداروں کے ساتھ ہمیں کھڑا ہونا چاہئے ۔ بات یہ بھی ہے کہ یہ ساری سیاست ہمیں سکھائی کس نے ہے میں 16 سال کی عمر سے سیاست کررہا ہوں میں نے وہ حالات دیکھیں کہ لوگ کس طرح کی گفتگو کرتے تھے اور کیا کہا کرتے تھے فوج کے بارے میں ۔میں پھر کہوں گا جب آپ اپنی حدود سے کراس کرتے ہیں تو پھر دوسرا بھی کرتا ہے یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرا ایک قدم آگے چلا جائے تاہم میں پھر یہ کہوں گا کہ ہمیں اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنے ملک کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے اور اس ملک کی جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہئے ۔یہ کہنا درست نہیں کہ میاں نواز شریف کو درگزر نہیں کیا گیا بالکل کیا گیا ہے دو دو گھنٹے کی تقاریر ہوئی ہیں ۔تحریک انصاف کے رہنما آفتاب جہانگیر نے مزیدکہا کہ پاکستان کو مضبوط رکھنا ہے تو اداروں کو مضبوط ہونا چاہئے، ن لیگ کبھی نواز شریف، مریم نواز، ایاز صادق اور پرویز رشید کی مذمت نہیں کرے گی۔ مرکزی رہنما پاکستان مسلم لیگ ن طلال چوہدری کا کہنا تھاکہ عمران خان تو صادق او رامین ہیں ،محب وطن ہیں ، نواز شریف مودی کے یار اور ہم غدار ہم تو اچھے لوگ نہیں ہیں ، ہم نہ صادق امین ہم تو نااہل لوگ ہیں سارے تو پھر یہ ہماری نقل کیوں اتارنے لگ گئے ، مسئلہ یہ ہے کہ جو کام ہوتا ہے یہ کہہ دیتے ہیں یہ کام تو نواز شریف نے بھی کیا تھا اور ن لیگ نے بھی کیا تھا ۔ بات یہ ہے کہ ہم نے اگر کچھ برا کیا تھا تو اس وقت سب پر ایکشن ہوئے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں جو شہباز گل نے کیا ہے یہ غلط کیا ہے اور اس میں تو آپ کنفیوژ ہیں ابھی بھی کیونکہ عمران خان نہ اس کو Ownکرتا ہے اور نہ ہی اس کو disownکرتا ہے ان کو چاہئے کہ وہ شہباز گل کو اپنی پارٹی سے علیحدہ کریں اور اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ اس نے غلط نہیں کیا تو پھر ٹھیک ہے اس کے پیچھے کھڑے ہوں ۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ یہ لوگ کوہسار تھانے تک نہ جاسکے ۔ انہوں نے کہا یہ جو کچھ بھی ہوا ہے سارا کا سارا ایک پلان کے تحت ہوا ہے میں خود میڈیا سے 8 سال سے وابستہ رہا ہوں ۔ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی حکومت میں تھی تب بھی ہر چیز کی ذمہ داری ن لیگ پر ڈال دیتی تھی، پی ٹی آئی کیخلاف کوئی سازش نہیں ہوئی ان کے کرتوت سامنے آرہے ہیں، عمران خان کو زبردستی صادق اور امین بنایا گیا تھا۔تجزیہ کارنصرت جاوید نے کہا کہ مجھے متوازی عدالت لگانے کا شوق نہیں ہے حکومت ایک کیس Buildکررہی ہے اپنے کیس کو عدالتوں میں ثابت کرےمیں شہباز گل کے بیان کو out of contextنہیں دیکھ سکتا اپریل کے بعد سے عمران خان کی مسلسل یہ پوزیشن ہے کہ ان کے خلاف امریکی سازش ہوئی اور وہ جو امریکی سازش کے آلہ کار تھے وہ پاکستان کے چور اور لٹیرے سیاستدان تھے ، خان صاحب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر ان کا اور چوروں اور لٹیروں کا فقط ان کے مابین مقابلہ ہوتا تو وہ پھر بھی اپنے دشمنوں کو پچھاڑ لیتے اور ایک حوالے سے وہ درست کہتے ہیں کہ انہوں نے قاسم سوری کے ذریعے رولنگ دلوا کر تحریک عدم اعتماد کو invalid قرار دیدیا تھا بعدازاں وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہماری ریاست کے اداروں میں امریکا کو میر جعفر مل گئے اور اپنے ایک عوامی اجتماع میں انہوں نے خلق خدا کو جو ان کا خیال ہے کہ تاریخ سے ناواقف ہوتی ہے سمجھانے کے لئے یہ بھی بتادیا کہ جن دنوں نواب سراج الدولہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی انکروچمنٹ کے خلاف برسر پیکار تھے تو میر جعفر کس عہدے پر فائز تھے اگر آپ اس مسلسل پوزیشن کو ذہن میں رکھیں تو شہباز گل نے جو فرمایا ہے تو وہ کلام شاعر کی تشریح کے علاوہ تو کچھ نہیں بنتا اب یہ کہنا کہ وہ چیف آف اسٹاف تھے ترجمان تو نہیں تھے توبھائی کیا انہیں برتن مانجھنے کے لئے رکھا ہوا تھا ،مہمانوں کی دیکھ بھال کے لئے رکھا ہوا تھا ۔ جی نہیں جب بھی کسی شخص کی باقاعدہ ایسی زبان میں مذمت کروانی ہوتی تھی تو اس وقت شہباز گل کی زبان پر گرفت وہ ڈکشنری سے بتاتے تھے کہ یہ جو لفظ جو میں اور آپ عموماً استعمال کرنے سے اجتناب برتتے ہیں وہ تو ڈکشنری کے عین مطابق ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے یہ جو لفظ وہ استعمال کررہے ہیں یہ تو انگریزی کے لفظ بروکر کا ترجمہ ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ میں تو ایک contextکودیکھوں گا کہ تحریک ا نصاف کے رہنما کی جس دن سے وہ اقتدار سے فارغ ہوئے ہیں ان کی ثابت قدمی کے ساتھ ایک پوزیشن کیا ہے کیا یہ بیان اس میں فٹ ہوتا ہے یا نہیں کیا یہ اس کی ایکسٹینشن بنتاہے یا نہیں تو نظر بظاہر بنتا ہے اب اس کو own کرنا جو ہے وہ کیوں نہیں کررہے۔ 
ملک بھر سے سے مزید