کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ شہبازگل کا جرم معمولی نہیں، جرم فوج کے خلاف نہیں ریاست کے خلاف ہے،وکیل شہباز گل فیصل چوہدری نے کہا کہ قانونی طور پر سویلین کا کورٹ مارشل نہیں کیا جاسکتا ہے، شہباز گل نے کورٹ کے اندر کہا ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا وہ تو پاک فوج کا جو ادارہ ہے اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ادارے کا احترام ہے،سینئر صحافی محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ مذاکرات کا ایک سلسلہ چل رہاہے اور جو سیز فائر ہوا ہے اس سے طالبان کو فائدہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بارڈر پر اپنی آمد رفت کو بڑھایا ہے اور ان کی کچھ تعداد یہاں پر نظر آرہی ہے ۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ شہبازگل کا جرم معمولی جرم نہیں ہے انہوں نے تو پاکستان کی مسلح افواج کے اندر ڈسپلن کو چیلنج کیا ہے جو پاکستان کے آئین اور قانون کے یکسر خلاف ہے، آپ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر تنقید ضرور کرسکتے ہیں تاہم فوج کے اندر ڈسپلن کو چیلنج نہیں کرسکتے یہ جرم فوج کے خلاف نہیں ریاست کے خلاف ہے ۔ شہباز گل پر تشدد کی سوال پر انہوں نے کہا عمران خان کی حکومت میں تو ن لیگ کے کسی بھی رہنما کو 14دن سے کم جسمانی ریمانڈ نہیں دیا گیا ہماری تو ضمانت کی اپیلیں بھی کئی ماہ تک موخر ہوتی رہی ہیں ، یہاں تو دو دن کے اندر جوڈیشل ریمانڈ ہوگیا اس سے زیادہ تیز انصاف اور کیا ہوگا ان کے دور میں تو دو دو ماہ کوئی بھی جوڈیشل ریمانڈ سیاسی مخالف پر نہیں ہوتا تھا اور یہ دو دن میں جوڈیشل ریمانڈ پر چلے گئے اس سے آپ ہماری دور حکومت میں عدلیہ کی آزادی کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ رہی بات تشدد کی تو پھر جج صاحب کو چاہئے تھا کہ اگر وہ تشدد کی شکایت کررہے تھے تو وہ میڈیکل ایگزامینیشن کی ہدایات جاری کرتے تاہم جج صاحب کی جانب سے اس حوالے سے کسی ہدایت کا جاری نہ کرنا اس بات کا غماز ہے کہ ان پر کوئی تشدد نہیں ہوا ۔ ہوسکتا ہے انہوں نے خود سے کوئی رگڑ لگا کر جعل سازی کی کوشش کی ہو ۔ان کے تو ڈرائیور نے بھی بہت بڑا ناٹک کیا کہ اپنے کپڑے پھاڑ کر ، ہاتھ پر پٹی باند ھ کر سامنے آگیا ۔ عمران خان نے تو شہباز گل کی گفتگو کو نہ Ownکیا اور نہ ہی Disownکیا ہے ، عمران خان نے تو ان سے ایک بیان پڑھوایا اور ٹشو پیپر کی طرح ان کو پھینک دیا ۔ وزیراعلیٰ پنجاب تک کہہ رہے ہیں کہ شہباز گل نے نہایت قابل مذمت گفتگو کی ہے ۔انہوں نے کہا ہم نے بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی ہی اور بہت کی ہے ہم تو فوج کے سیاست میں مداخلت کے پہلے بھی مخالف تھے اور آج بھی مخالف ہیں لیکن ہم پاکستانی فوج کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ وہ تو پاکستان کی ریاست کی سیکورٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہماری کوئی انتقامی کارروائی کی سیاست نہیں اور اگر ہم انتقامی سیاست پر یقین رکھتے تو اس وقت آدھی سے زیادہ پی ٹی آئی کی کیبنٹ جیلوں کے اندر ہوتی ۔جمہوریت آپ کو یقینی طورپر آزادی اظہار رائے کا حق دیتی ہے لیکن جمہوریت آپ کو ریاست کے اداروں کے خلاف انتشار پھیلانے کا حق نہیں دیتی ۔میرا سوال پھر وہی ہے کہ جب شہباز گل کے بیان کی وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی ،شاہ محمود قریشی اور اسد عمر مذمت کرسکتے ہیں تو عمران خان نے کیوں اس کی مذمت نہیں کی ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا نواز شریف کی گجرانوالہ کی تقریر ہو یا دیگر کوئی تقریر اسمیں فوج کے انتخابات میں مداخلت یا سیاست میں مداخلت پر تنقید تو کی ہے لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں پانچ سے دس منٹ اس بات کو بھی سراہا ہے کہ فوج پاکستان کا کتنا اہم ادارہ ہے اور ہم اس کے ڈسپلن کی ، اس کے شہداء کی اور اس کے جوانوں کی عزت کرتے ہیں کیونکہ ہم نے کبھی فوج کے اندر بغاوت یا کسی قسم کی کوئی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی ۔ شہباز گل کے کورٹ مارشل کے سوال پر احسن اقبال کا کہنا تھا میں اس وقت ملک سے باہر ہوں تاہم میں کہنا چاہوں گا کہ اس کے اوپر جو بھی آئینی اور قانونی راستہ ہے اسکی روشنی میں ہم لائحہ عمل بنائیں گے ہم کسی کو بھی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا نہیں چاہتے ہیں لیکن ہم کسی کو پاکستان کی ریاست میں انتشار کا پرمٹ بھی دینا نہیں چاہتے کہ وہ اپنی سیاست چمکانے کے لئے پاکستان کے قومی اداروں کی سا لمیت اور ریاست کے مفادات سے کھیلے ۔انہوں نے کہا اگر ڈیفنس منسٹری سے اس حوالے سے کوئی تجویز آتی ہے تو اس کا جائزہ لاء منسٹری لے گی اور جو اس جائزہ میں فیصلہ ہوگا وہ سامنے آجائے گا ۔ ٹی ٹی پی کے مالاکنڈ ڈویژن میں دوبارہ سے متحرک ہونے کے سوال کے جواب میں احسن اقبال کا کہنا تھا جو بھی اطلاعات آرہی ہیں وہ ان علاقوں سے آرہی ہیں جو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے زیر کنٹرول ہیں ہم نے تو جو آپریشن رد الفساد کیا تھا اس میں تو یہ سارے علاقے کلیئر کردیئے تھے اب اگر ایسی اطلاعات آرہی ہیں تو اس پر پی ٹی آئی کی جو صوبائی حکومت ہے اس کی ذمہ داری ہے وہ بتائے کہ ان سے کیا کمزوریاں ہوئی ہیں کہ دوبارہ سے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی معاہدے کے تحت ری گروپنگ نہیں ہورہی ہے ۔مسلح جتھوں کو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہورہی ہے تو یہ صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر اس پر کارروائی کرے ۔ وکیل شہباز گل فیصل چوہدری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت جج صاحب کی جانب سے جوڈیشل ریمانڈ کا آرڈر جاری ہوا تھا تو شہباز گل کو اڈیالہ جیل کی جانب ہی لے جایا گیا تھا تاہم اس دوران پولیس کی جانب سے اس جوڈیشل ریمانڈ کے خلاف اور فزیکل ریمانڈ میں توسیع کے لئے سیکنڈ جج کے خلاف ایک پٹیشن دائر کردی گئی تاہم وہ بعد میں ڈس مس ہوگئی ۔