ہمارے پیارے پاکستان اور اس کی فلمی صنعت نے اپنے وجود کے 75سال مکمل کر لیے ہیں۔ 75برس کے جشن آزادی کے حوالے سے جب فلمی صنعت کا ذِکر کیا جائے گا، یہ تو سب جانتے ہیں کہ اس کی عمر پاکستان جتنی ہے۔ 1947ء میں کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی، لیکن فلمیں بننا شروع ہوگئی تھیں۔1948ء میں پہلی پاکستانی اُردو فلم ’’تیری یاد ‘‘ کی نمائش ہوئی، جب سے آج تک لالی وڈ کا یہ سفر جاری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فلموں کی کام یابی اور مقبولیت میں شعبہ ٔ موسیقی کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ لوگ کہانی بُھول جاتے ہیں، یہاں تک اُس فلم میں کام کرنے والے اداکاروں کو بھی یاد نہیں رکھتے، مگر فلم کے مقبول گانوں کو کبھی نہیں فراموش نہیں کرتے۔
آج ہم ذِکر کریں گے ،75 سالہ پاکستانی اُردو فلموں کے اُن سدابہار گیتوں کا، جو ابتدائی دور سے انیس سوساٹھ تک وجود میں آئے، جو اب تک ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔ یُوں تو اُردو کے علاوہ پنجابی، سندھی اور پشتو کی علاقائی فلموں کی مقبول موسیقی نے بھی اپنے دور میں خاصی مقبولیت حاصل کی لیکن، آج یہاں ہم صرف اُردوفلموں کی موسیقی پر بات کریں گے، پہلی نمائش شدہ فلم ’’تیری یاد‘‘ تھی۔ یہ فلم نامساعد حالات میں مکمل ہوئی۔
فلم میں دس گیت شامل کیے گئے تھے، مگر کوئی بھی مقبولیت کا ریکارڈ نہ بنا سکا، جس کی وجہ سے اس کے گانے صرف فلم کی حد تک محدود رہے، کسی اور ذریعے سے عوام تک نہ پہنچ پائے۔ 1949ء میں فلم ’’ہچکولے‘‘ وہ پہلی فلم تھی، جس کے دو گانے عوام میں بے حد مقبول ہوئے اور اسی فلم سے مقبول فلمی گیتوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ فلم کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔ اُن کی پاکستان میں یہ پہلی فلم تھی،اس سے قبل وہ بھارت میں فلم کی موسیقی دے چکے تھے۔ فلم ’’ہچکولے‘‘ میں گلوکار علی بخش ظہور کا گایا ہوا گیت ’’میں پیار کا دِیا جلاتا ہوں‘‘ اور ایک دو گانا، جسے منور سلطانہ اور علی بخش ظہور نے گایا، ’’دل توڑ کے چلے تو نہیں جائو گے‘‘ لوگوں میں بے حد مقبول ہوئے۔
ان گانوں کے بول، نامور گیت نگار سیف الدین سیف نے لکھے تھے۔ فلم میں اداکار سدھیر اور اداکارہ نجمہ نے مرکزی کردار کیے تھے۔ ہدایت کار دائود چاند تھے۔ 1950ء میں فلم ’’بے قرار‘‘ کے گانوں نے عوامی مقبولیت حاصل کی۔ اس میں 13 گانے شامل تھے۔ ماسٹر غلام حیدر اس کے موسیقار تھے۔ نغمہ نگار طفیل ہوشیار پُوری کے لکھے ہوئے دو گیتوں کو سامعین نے بے حد پسند کیا، جن کے بول یہ تھے’’دل کو لگا کر کہیں ٹھوکر نہ کھانا‘‘ (آواز منور سلطانہ، علی بخش ظہور) اور ’’او پردیسیا بھول نہ جانا‘‘(آواز منور سلطانہ) فلم کے سدا بہار گیت شمار کیے گئے۔ فلم میں ہیرو کا کردار ایس گل، جب کہ ہیروئن راگنی تھیں۔
1952ء میں ہدایت کار ایس فضل کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ ریلیز ہوئی، جو پاکستان میں ملکہ ٔ ترنم نورجہاں کی پہلی اُردو فلم تھی، جس میں وہ بہ طور گلوکارہ کے ساتھ ، ہیروئن بھی نظر آئیں۔ موسیقار فیروز نظامی نے اس فلم کے لیے دس عدد گیتوں کی دھنیں بنائیں، اس نے پاکستان کی پہلی مکمل نغماتی فلم کا اعزازحاصل ہے۔ نورجہاں کی گائیگی اور اداکاری کا ایک حسین ودل کش مرکب ثابت ہوئی۔ فلم کے مقبول نغمات کی تفصیل کچھ یُوں ہے ’’بات ہی بات میں چاندنی رات میں‘‘ ،’’میں بن پتنگ اُڑ جائوں‘‘ ، ’’چاندنی راتیں سب جگ سوئے‘‘ ، ’’تم زندگی کو غم کا فسانہ ‘‘، ’’راجا ہو میرے من کے راجا‘‘ ، ’’جگر کی آگ سے اس دل کو جلتا‘‘ جیسے سدا بہار گیتوں اور مسحور کُن موسیقی کی وجہ سے فلم نے نہ صرف پاکستان، بلکہ بھارت کے کئی شہروں میں شان دار کام یابی حاصل کی تھی۔
1953ء میں ملبوساتی کلچرل فلم ’’گلنار‘‘ میں ماسٹر غلام حیدر کی دُھن میں ترتیب دیا ہوا مقبول نغمہ ’’لوچل دیے وہ ہم کو تسلی دیے بغیر‘‘ ملکۂ ترنم نورجہاں کی ترنم خیز آواز میں ایک شاہ کار گیت ثابت ہوا، جسے قتیل شفائی نے لکھا تھا، یہ اس سال کا مقبول ترین نغمہ تھا۔ 1954ء میں ہدایت کار انور کمال پاشا کی کلاسیکل ،رومانی اور معاشرتی فلم ’’گمنام‘‘ کے چند گیتوں نے کراچی سے لےکر راج کماری تک عوام کو اپنے سحر میں مبتلا کردیا۔ موسیقار ماسٹرعنایت حسین کی دُھنیں، قتیل شفائی اور سیف الدین سیف کے بولوں نے کمال کردیا تھا۔
گلوکارہ منور سلطانہ کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت، ’’چاندی کی ایک جھنکار‘‘ اور نامور گائیکہ اقبال بانو کی آواز میں، سدا بہار گیت ’’پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے تو لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کے‘‘ کی صدائیں آج بھی روزِ اوّل کی طرح ہیں۔ 1955ء میں انور کمال پاشا کی سپرہٹ سدا بہار نغمات سے آراستہ فلم ’’قاتل‘‘ کے گیتوں نے ہر طرف دُھوم مچادی تھی۔ ایک بار پھر عوام نے ماسٹر عنایت حسین کی دُھنوں کو بے حد سراہا۔
اس فلم میں سات عدد گانے شامل تھے، جن میں طفیل ہوشیار پُوری کا لکھا ہوا گیت، جسے کوثر پروین نے گایا ’’او مینا نہ جانے کیا ہوگیا‘‘ گلوکار سلیم رضا کی آواز، جس کے بول قتیل شفائی نے لکھے ’’آتے ہو یار باربار کیسے تمہیں بھلائیں ہم‘‘ اور فلم کا سب سے مقبول گیت، جسے اقبال بانو نے گایا اور قتیل شفائی نے لکھا ’’اُلفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
صبیحہ اور سنتوش نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ مسرت نذیر اور اسلم پرویز اسی فلم سے متعارف ہوئے تھے۔ یہ وہ سال تھا، جب پہلی بار 19فلمیں ریلیز ہوئیں تھی، جو تعداد کے لحاظ سے پچھلے تمام برس وں سے زیادہ تھیں۔ صحیح معنوں میں فلمی صنعت کی کام یابی اور سنہرے دور کا اس سال سے آغاز ہوا تھا۔ اس سال پہلی گولڈن جوبلی فلم ’’نوکر‘‘ ریلیز ہوئی، جس کی ایک ’’لوری‘‘ بے حد مقبول ہوئی، جسے منور سلطانہ اور کوثر پروین نے اپنی آوازوں میں ریکارڈ کروایا اور جی اے چشتی نے اس کی دُھن بنائی، وہ مقبول لوری’’راج دُلارے توہے دل میں بساؤں‘‘ تھی، جو آج بھی مقبول ہے۔
اس سال ریلیز ہونے والی فلم ’’طوفان‘‘ میں گلوکار فضل حسین کے گایا ہوا یہ گیت، ’’آج یہ کس کو نظر کے سامنے پاتا ہوں میں‘‘ کی مقبولیت نے میں ہر طرف دھوم مچادی، یہ گانا اداکار سدھیر پر فلم بند ہوا تھا اور اس کے موسیقار جی اے چشتی تھے، جب کہ اس کے بول سیف الدین سیف نے لکھے تھے۔ لاہور کے علاوہ اس سال کراچی میں بھی فلم سازی کا آغاز ہو گیا تھا اور یہاں بننے پہلی فلم ’’ہماری زبان‘‘ ریلیز ہوئی تھی۔ 1956ء میں ریلیز شدہ فلموں کی تعداد پچھلے سال سے بڑھ کر31 ہوگئی تھی۔ صاحب ِ اسلوب موسیقار خواجہ خورشید انور کی پہلی پاکستانی فلم ’’انتظار‘‘ اسی سال ریلیز ہوئی، جسے پاکستان کی پہلی رومانی اور نغماتی فلم کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس فلم کے لیے خواجہ صاحب نے دس گانے مرتب کیے، جن میں 9گانے فلم میں شامل کیے گئے،جو سدا بہار ثابت ہوئے۔
ملکہ ترنم نور جہاں اور سنتوش کمار اس فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے۔ نورجہاں کی گائیگی اور خورشید انور کی موسیقی نے عوام پر ایک ایسا سحر طاری کر دیا تھا، جس کا اثر آج بھی قائم ہے۔ فلم کو پہلی صدارتی ایوارڈ یافتہ فلم کا اعزاز میں حاصل ہوا۔ ’’انتظار‘‘ کے مقبول عام سدا بہار گانوں ’’جس دن سے پیا دل لے گئے‘‘، ’’آگئے گھر آگئے بلم پردیسی‘‘۔ ان کے بول قتیل شفائی نے لکھے تھے، جب کہ طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے گانے کے بول تھے، ’’چاند ہنسے دنیا سے روئے‘‘،’’آبھی جا آبھی جا‘‘، ’’او جانے والے ٹھہرو‘‘، ’’ساون کی گھن گھور گھٹائوں‘‘،’’چھن چھن ناچوں گی‘‘، انتظار سال کی سب سے بڑی نغماتی فلم قرار پائی۔
اس کے علاوہ کراچی میں بننے والی فلم ’’انوکھی‘‘ کے چند گانوں نے بھی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے ،۔’’جیون کے سفر میں راہی‘‘ (آواز زبیدہ خانم) ’’گاڑی کو چلانا بابو‘‘ (آواز زبیدہ خانم) ’’ماری لیلیٰ نے ایسی کٹار‘‘ آواز احمد رشدی، شامل تھے۔ فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے ان نغمات کی دھنیں موسیقار تمربرن نے دل سے بنائی تھیں۔ اس سال ریلیز ہونے والی نغماتی فلموں کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے۔ فلم حمیدہ کا یہ گانا ’’بن کے دلہن لہرائوں گی (آواز زبیدہ خانم) موسیقار صفدر حسین شاعر قتیل شفائی تھے۔ فلم ’’لختِ جگر‘‘ کے گانے بھی اپنے دور میں مقبول ہوئے۔
موسیقار جی اے چشتی کی دھن میں فلم کا یہ گانا ’’آحال دیکھ لے میرا‘‘ جسے حزیں قادری نے لکھا، اس فلم کا ایک اور گیت، جسے سیف الدین سیف نے لکھا ’’وہ خواب سہانا‘‘یہ دونوں مقبول گیت نورجہاں نے گائے، جو اس فلم کی ہیروئن بھی تھیں۔ فلم ’’حمیدہ‘‘ سے اداکار اعجاز اور ’’لخت جگر‘‘ سے فلم اسٹار حبیب متعارف ہوئے تھے۔ موسیقار رشید عطرے کی مسحور کن موسیقی سے سجی ہدایت کار انورکمال پاشا کی سپرہٹ فلم ’’سرفروش‘‘ کے نغمات کے ریکارڈ نےسامعین کی بڑی تعداد میں خریدے۔
نغمہ نگار ساغر صدیقی کا لکھا ہوا سدا بہار گیت ’’میرا نشانہ دیکھے زمانہ‘‘ جسے زبیدہ خانم نے ریکارڈ کروایا۔ طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے نغمات ’’تیری الفت میں ‘‘، ’’اے چاند ان سے جاکر‘‘ جو زبیدہ خانم نے گائے، آل ٹائم سپرہٹ قرار پائے۔ موسیقار صفدر حسین نے فلم ’’صابرہ‘‘کے لیے یہ مقبول دوگانا مرتب کیا ، جسے کوثر پروین اور سلیم رضا نے گایا ’’رات ہوگئی جواں نغمہ بن کے آگئی‘‘ نے بھی سال کے مقبول نغمات میں اضافہ کیا۔
موسیقار فیروز نظامی کی ’’قسمت‘‘ تصدق حسین کی موسیقی میں فلم ’’چھوٹی بیگم‘‘ کے چند گانے بے حد مقبول ہوئے تھے۔ 1957ء کی مقبول ترین نغمات لیے فلم ’’وعدہ‘‘ ریلیز ہوئی، جس کے موسیقار رشید عطرے تھے اور ایسی سدابہار دھنیں بنائیں، جن کی بازگشت آج بھی سماعتوں کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ اس فلم میں کل گیارہ گانے شامل تھے، جن میں سیف الدین سیف کا تحریر کردہ سنگیت ’’جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں‘‘جسے شرافت علی نے گایا، آج تک روزِ اوّل کی طرح مقبول ہے۔
اس گیت کو ہر دور کے نئے سنگرز نے گایا اور آج تک گاتے رہے ہیں۔ شرافت علی اور کوثر پروین نے اس فلم کے لیے دو ڈویٹ گانے بھی ریکارڈ کروائے تھے، جس کے بول تھے ’’بار بار برسیں مورے نین‘‘ اور ’’لے چل منجدھار میں اے دل‘‘ سیف الدین سیف اور طفیل ہوشیارپوری بالترتیب ان گیتوں کے شاعر تھے، وعدہ کے دیگر سدابہار گانوں کی تفصیل’’آج کی رات نہ تم جائو‘‘(آواز کوثرپروین) (شاعر سیف الدین سیف) ’’اب جوملوں گی اُن سے کہوں گی‘‘ (آواز کوثر پروین) (شاعر سیف الدین سیف ) جب کہ طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے گیتوں کے بول یہ تھے،’’نین سے نین ملا کے رکھنا‘‘(آواز زاہد ہ پروین، فتح علی خان) ’’شام سویرے نین بجھا کر‘‘(آواز کوثر پروین) ’’وعدہ‘‘ سال کی مقبول ترین نغماتی فلم ثابت ہوئی تھی، جس کے ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد تھے، صبیحہ اور سنتوش اس کے مرکزی کرداروں میں نظرآئے تھے۔ موسیقار اختر حسین اکھیاں نے فلم آس پاس کے لیے بہت اعلیٰ دھنیں مرتب کیں۔
ان میں نغمہ نگار ساحل فارانی کا لکھا ہوا یہ عوامی گیت جسے گلوکار سلیم رضا نے گایا اور عوامی اداکار علاؤ الدین پر فلم بند کیا گیا بول یہ تھے ’’بے درد زمانے والوں نے کب درد کسی کا جانا ہے‘‘ اس گانے کو لکھنے پر ساحل فارانی کو عوامی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا کہ ’’ساحل یہ گانا مجھے دے دو اس گانے کے بدلے میرا سارا کلام اپنے نام کرلو‘‘ وعدہ کے علاوہ موسیقار رشید عطرے کی ماسٹر عنایت حسین کے ساتھ شراکت پر مبنی آل ٹائم تاریخی فلم ’’انارکلی‘‘ کے نغمات اپنی شاعری اور موسیقی کا اعلیٰ شاہ کار ثابت ہوئے ، ’’انارکلی‘‘ کے نغمات ’’صدا ہوں اپنے پیار کی‘‘ (شاعر ساغر صدیقی) ’’بانوری چکوری کرے دنیا‘‘ (شاعر طفیل ہوشیارپوری)’’پھر جو نگاہ یار کہے‘‘ (شاعر طفیل ہوشیارپوری)، ’’جلتے ہیں ارمان میرا دِل ‘‘ (شاعر سیف الدین سیف) ان گانوں کو موسیقار رشید عطرے نے مرتب کیے تھے ،جب کہ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں فلم کے یہ دو گیت ’’بے وفا ہم نہ بھولیں تجھے‘‘(شاعر سیف الدین سیف) اور ’’کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں‘‘(شاعر قتیل شفائی) بھی مقبولیت میں آگے رہے۔
گلوکارہ نورجہاں ،جنہوں نے فلم میں انارکلی کے تاریخی کردار کے ساتھ اپنی آواز اور گلے کے سُرسیلے پن سے برصغیر کو مہکایا۔اداکار سدھیر نے شہزادہ سلیم کا تاریخی کردارادا کیا تھا۔ انور کمال پاشا ، فلم کے ہدایت کار تھے۔ رشید عطرے کی سدا بہار موسیقی سے آراستہ اس سال ایک اور فلم ’’سات لاکھ‘‘ نمائش پذیر ہوئی، اس فلم سے نگار ایوارڈ کا اجراء شروع ہوا، اسے پہلی نگارایوارڈ یافتہ فلم قرار دیا گیا۔ فلم میں سات گانے شامل تھے، جن میں ’’آئے موسم رنگیلے سہانے‘‘ (آواز زبیدہ خانم) کے اس گیت نے کراچی سے خیبر اور دہلی تک مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ۔ اداکارہ نیلو کو اس گانے کی فلم بندی کے بعد بہ طور ہیروئن کاسٹ کیا جانے لگا۔
گلوکار سلیم رضا کی آواز ’’یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں‘‘ اداکار آغا طالش نے کچھ اس انداز سے فلم بند کروایا کہ یہ گانا آج بھی یاد کیا جاتا ہے ’’قرار لوٹنے والے‘‘(آواز مُنیر حسین) ’’گھونگھٹ نکالوں‘‘ (آواز زبیدہ خانم) اس فلم کے دیگر مقبول گیت بھی تھے۔ تمام نغمات سیف الدین سیف نے لکھے۔ سنتوش اور صبیحہ نے اس فلم میں ہیرو ہیروئن کے کردار اداکیے۔ موسیقار رشید عطرے نے تین سپرہٹ نغماتی فلمیں دے کر اپنی ہیٹ ٹریک مکمل کرکے پاکستانی موسیقی میں ایک نیا اعزاز حاصل کیا۔ ہدایت کار نذیر کی اسلامی فلم ’’نورِاسلام‘‘ میں شاعر تنویر نقوی کی لکھی ہوئی نعت شریف،یثرب کے والی سارے نبی تیرے در کے سوالی‘‘ جسے سُن کر ایک ایمانی وجد طاری ہو جاتا ہے۔
حسین لطیف نے اسے مرتب کیا اور گلوکار سلیم رضا، آئرن پروین اور ساتھیوں نے اسے ریکارڈ کروایا۔ موسیقار فتح علی خان نے فلم ’’بیداری‘‘ کے لیے جو نغمات بنائے، وہ تمام کے تمام پاکستانیت اور قائداعظم کو عظیم خراجِ تحسین تھا۔ان نغمات کو خصوصاً یومِ پاکستان اور یومِ دفاع اور دیگر قومی مواقعوں پر ہر دور میں سُنا جاتا ہے۔ ماسٹر عنایت حسین کی دُھن میں ایک مقول گیت ’’لے لو چوڑیاں ان کو پہن کر رانی بن کر‘‘ آج بھی بے حد مقبول ہے۔ فلم معصوم کے لیے ریکارڈ کیا گیا تھا، اس سال نمائش ہونے والی جے سی آنند کی آل ٹائم سپرہٹ فلم ’’عشق ِ لیلیٰ‘‘ کے گانے سدا بہار قرار پائے۔ موسیقار صفدر حسین نے کمال کے میوزک اس فلم کے لیے مرتب کیا۔ فلم میں 15عدد گانے تھے، جو تعداد کے لحاظ سے پچھلی تمام پاکستانی فلموں سے زیادہ تھے۔
صبیحہ اور سنتوش نے لیلیٰ مجنوں کے کرداروں کو اس فلم میں اپنی اداکاری سے امرکردیا تھا۔’’لیلیٰ اولیلیٰ لیلیٰ‘‘ ، ’’چاند تکے چھپ چھپ کے‘‘،’’اک ہلکی ہلکی آہٹ ہے‘‘کس کو سنائوں غم کی کہانی‘‘،’’اُداس ہے دل نظر‘‘،’’بتا اے آسمان والے‘‘،’’ستاروں تم تو سو جائوں‘‘ ،’’بادِصبا اے بادِصبا‘‘،’’جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے‘‘،’’سخی کچھ دے دے‘‘،’’ کیا مِلا ظالم ہمارے دل‘‘۔ ان تمام گانوں کے بول قتیل شفائی کی اعلیٰ شاعری کا شاہ کار تھے، جب کہ زبیدہ خانم، اقبال بانو، سلیم رضا اور عنایت حسین بھٹی نے اپنی آوازوں میں ریکارڈ کروایا تھا۔
اس سال ریلیز ہونے والی کاسٹیوم فلم ’’شہرت‘‘ میں موسیقار نذیر جعفری کا مرتب کیا ہوا، ایک گیت ’’بڑا شکریہ آپ تشریف لائے‘‘ اسے کوثر پروین نے گایا اور طفیل ہوشیارپوری نے لکھا تھا۔ 1958ء میں انسانی نفسیات کے موضوع پر بننے والی یادگار میوزیکل فلم ’’زہرِ عشق‘‘ کو سال کی بہترین نغماتی فلم کا اعزاز حاصل ہوا۔ خواجہ خورشید انور کی دِل نواز اور مسحور کن موسیقی نے شائقین موسیقی کے دِل جیت لیے۔
قتیل شفائی اس فلم کے نغمہ نگار تھے۔ فلم کے سپرہٹ گیتوں کی تفصیل ’’چھم چھم ناچوں میرے پیا گھر آئے‘‘، ’’اُن سے بچھڑ کر یہ جینا بھی‘‘،’’رات چاندنی میں اکیلی‘‘ یہ تینوں گیت زبیدہ خانم نے ریکارڈکروائے۔ کوثر پروین کے گائے ہوئے دو گیت ’’پل پل جھومو‘‘ اور ’’جانے نہیں دوں گی‘‘ کی مقبولیت میں سرفہرست رہی ، جب کہ ناہید نیازی کا گایا ہوا یہ گیت ’’موھے پیاملن کو جانے دے‘‘ کو کلاسیکل درجہ حاصل ہوا۔ اس فلم کی کاسٹ میں شامل مسرت نذیر، حبیب اور یاسمین نے نمایاں کردار ادا کیے تھے۔ ایور ریڈی پکچرز کی رومانی اور نغماتی فلم ’’حسرت‘‘ کے نغمات میں مقبولیت میں پیچھے نہ رہے۔ موسیقار صفدر حسین کی دُھنوں پر قتیل شفائی کے بول اعلیٰ اور مرصع شاعری سے مزّین تھے۔
اس فلم کے مقبول عام گیتوں میں ’’باغوں میں بہار آئی‘‘(آوازیں زبیدہ خانم، سلیم رضا) ’’پائل موری چھنک گئی(کوثر پروین) شامل تھے۔ ہدایت کار لقمان کی انقلابی پیش کش فلم آدمی کے لیے موسیقار مصلح الدین بہت اعلیٰ دُھنیں مرتب کیں۔ فلم کے شاعر تنویر نقوی تھے۔ اس کے بہترین گانوں میں ’’ تقدیر کو جگالوں گی‘‘(آواز ناہید نیازی) ’’زمانہ پیار کا اتناہی کم ہے‘‘ ،’’زمین پر قدیم ہے فلک پر‘‘(آوازیں ناہید ،سلیم رضا) شمار کیے جاتے ہیں۔یہ ہے پاکستانی مقبول گیتوں کا ابتدائی سفر جو فلم ’’ہچکولے‘‘ سے شروع ہوااور1960ء تک کی ریلیز شدہ فلموں تک کے حوالے سے ہے۔