• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ANF والے کل کسی جج کی گاڑی سے چرس نکال لیں تو کیا ہوگا، جسٹس فائز عیسیٰ

اسلام آباد( رپورٹ / رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے اینٹی نارکاٹیکس فورس(اے این ایف) حکام کی جانب سے اٹک قلعہ کے سامنے ناکہ بندی کرکے تین کلو گرام چرس برآمد کرنے سے متعلق مقدمہ کے ملزم عدنان خان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ دوسرے مقاصد کے لیے انٹی نارکاٹیکس فورس(اے این ایف) نے اپنی ساکھ خراب کرلی ہے جس کی وجہ سے ادارے کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں؟ سب کو علم ہے کہ منشیات کہاں کہاں بکتی ہے ؟

وہاں تو اے این ایف حکام کوئی کارروائی نہیں کرتے ہیں، کیا بغیرپیشگی معلومات کے،ناکہ بندی کرکے؟ اے این ایف اہلکار کسی بھی گاڑی کو کیسے روک سکتے ہیں؟ کیا تین کلو چرس ایک موٹر سائیکل کی سیٹ کے نیچے آ بھی سکتی ہے؟کیاکسی کا پڑوسیوں سے جھگڑا ہوتو کیا ان پر بھی منشیات ڈال دیں گے؟

دوران سماعت استغاثہ عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا اطمنان بخش جواب نہیں دے سکا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اے این ایف کے سپیشل پراسیکیوٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریما رکس دیے کہ اے این ایف والے کل کلاں آپ یا کسی جج کی ہی گاڑی سے بھی چرس نکال لیں گے تو کیا ہوگا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا اے این ایف اہلکاروں نے عوامی مقام پر ناکہ بندی کے لئے کنٹرول آف نارکاٹیکس سبسٹنس ایکٹ 1997کی دفعات ہائے 21اور22کے تقاضے پورے کئے تھے ؟ قانون واضح ہے،اگر منشیات کی سمگلنگ سے متعلق پیشگی معلومات ہونگی تو ہی اے این ایف عوامی مقام پر ناکہ بندی کرے گی

 فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ کیا مقامی پولیس کو اطلاع کیے بغیر ہی اے این ایف حکام مشکوک گاڑیوں کو روک کر ان کی تلاشی لے سکتے ہیں ؟کیا قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ہی اے این ایف حکام کسی کے خلاف مقدمہ درج کرواسکتے ہیں؟جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے منگل کے روز ملزم عدنان خان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست کی سماعت کی تو اے این ایف کے سپیشل پراسیکیوٹر جنرل ،راجہ انعام امین منہاس اور ملزم کی جانب سے سید عظمت بخاری ایڈوکیٹ پیش ہوئے

عدالت کے استفسار پر سپیشل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ اے این ایف حکام نے بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکل کو مشکوک جان کر روکا تو اس کے خفیہ خانوں سے 3کلو چرس بر آمد ہوئی تھی جس پر ملزم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ اے این ایف حکام نے جس موٹر سائیکل سے چرس بر آمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے وہ ان کے موکل کی نہیں تھی بلکہ وہ تو موٹر سائیکل کے مالک مرکزی ملزم شبیر خان کے ساتھ صرف پچھلی نشست پرسوار تھااور مالک خودہی اسے چلا رہا تھا،انہوںنے کہاکہ ایف آئی آر کے مطابق اے این ایف کے اہلکاروں نے جی ٹی روڈ (بالمقابل اٹک قلعہ) کے پاس بائیک روک کر اس کی تلاشی لی اور ملزم شبیر کی نشاندھی پر 3کلو چرس بر آمد کی ہے.

فاضل وکیل نے کہاکہ اے این ایف تفتیش کے دوران نہ تو میرے موکل کا موٹر سائیکل سے کوئی تعلق ثابت کرسکی ہے ،نہ ہی اس نے منشیات کی نشاندھی کی ہے

انہوںنے کہاکہ کنٹرول آف نارکاٹیکس سبسٹنس ایکٹ 1997کی دفعات ہائے 21اور22کے تحت اے این ایف حکام منشیات کی سمگلنگ سے متعلق پیشگی اطلاع اور تیاری کے بغیر یکدم کسی پبلک مقام پر ناکہ بندی کرنے کے مجاز ہی نہیں ہیں.

 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپیشل پراسیکیوٹر جنرل سے استفسار کیا کہ کیا اے این ایف اہلکاروں کے پاس بائیک پر چرس لیجانے کی کوئی پیشگی معلومات تھیں؟تو انہوںنے کہا کہ نہیں ،اے این ایف اہلکاروں نے بغیر نمبر پلیٹ بائیک کو مشکوک سمجھ کر ہی اسے روکا گیا تھا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں کو روکنا اے این ایف کا کام ہے ؟ یہ توٹریفک پولیس کا کام ہے؟

 اٹک اور اسلام آباد میں ہزارہا گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کی ہوں گی؟ کیا اے این ایف سب کو روک کر ان کی تلاشی لیتی ہے ؟فاضل جج نے ریما رکس دیے کہ اہم مقدمات میں ایسے رویوںکی وجہ سے ہی اے این ایف نے خود کو مشکوک کرلیا ہے۔

اہم خبریں سے مزید