کیا سابق وزیراعظم میاں نوازشریف واقعی وطن واپس آ رہے ہیں اور ان قیاس آرائیوں میں کہاں تک حقیقت ہے کہ اپنی وطن واپسی کے فیصلے کی تاریخ کا اعلان لندن سے خود نوازشریف کریں گے اور یہ محض چند ہفتوں کی بات ہے گو کہ اس سے قبل سردار ایاز صادق نے چند ماہ قبل لندن روانگی کے موقعہ پر کہا تھا کہ وہ اپنے قائد کو ساتھ لیکر ہی پاکستان واپس آئیں گے۔
میاں نوازشریف کی پاکستان آمد کے حوالے سے مسلم لیگی رہنما میاں جاوید بھی مسلسل پیشینگوئیوں پر مبنی اعلانات میں ایسے ہی دعوے اور تاریخیں دے رہے ہیں پھر سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر سمیت جو بھی لندن میں میاں نوازشریف سے ملاقات کر کے آتا ہے اس کاکہنا بھی یہی ہوتا ہے کہ میاں صاحب کی واپسی میں اب ہفتوں اور دنوں کی بات ہے اور اب اس حوالے سے بھی گفتگو سامنے آ رہی ہے کہ میاں نوازشریف لندن سے اسلام آباد آئیں گے یا لاہور؟ جاتی امرا کی ’’سب جیل‘‘ میں قیام کریں گے یا پھر کوٹ لکھپت کے اسیر کی حیثیت سے ان سوالوں اور ان سے جڑے بعض استفسارات کا جواب اس انتہائی احتصاریئے میں صورتحال کو واضح کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
سرگوشیوں میں ہونے والی ان قیاس آرائیوں کو حقیقت یا اس کے قریب تسلیم کرنے میں متعدد شواہد موجود ہیں کہ میاں نوازشریف کی وطن واپسی کے بارے میں گزشتہ چند ہفتوں میں لندن میں ملاقاتوں، رابطوں اور مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں بعض شخصیات کا حوالہ بھی اشاروں کنائیوں میں کیا جاتا ہے۔
بعض عرب ممالک کا تذکرہ بھی ہوتا ہے جنہیں پاکستان کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتوں کی اہم شخصیات جن کے وزراء حکومت میں اپنی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں ان کے بیرون ممالک کے ’’نجی دورے‘‘ بھی اس سلسلے کی کڑی ہیں جو دبئی یا کسی دوسرے نزدیکی ملک میں مختصر قیام کے بعد اگلی اور اصل منزل کی طرف پرواز کر جاتے ہیں اور اس احتیاط میں کئی وجوہات شامل ہیں جن میں ’’لندن پلان‘‘ کی اصطلاح بھی جو اب سیاسی سے زیادہ سازشی تہمت کا تاثر بن گئی ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے ان ملاقاتوں میں ظاہر ہے کہ ملک میں عام انتخابات اور اس سے قبل ان کی وطن واپسی سے موضوعات جو سرفہرست ہوں گے ان پر حکمت عملی وضع کرنا ہے اور اس صورت حال سے آنے والے ہفتوں یا چند ماہ میں صورتحال واضح ہونے کا امکان ہے۔ لیکن اس کا انحصار خود میاں صاحب کی بعض شرائط اور ان تحفظات پر جو ان کو درکار ہیں اور درحقیقت لندن میں اس حوالے سے ہی بات چیت ہو رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان الیکشن کمیشن جو ملک میں انتخابات کے مواقعوں پر ہی فعال نظر آتا ہے یا پھر اس کی سرگرمیاں انتخابی ماحول میں زیادہ منظرعام پر نظر آتی ہیں، لیکن اس مرتبہ گو کہ ملک میں عام انتخابات کا معینہ دورانیہ دور ہے لیکن الیکشن کمیشن کا کردار بعض حوالوں سے فیصلہ کن دیکھا جا رہا ہے۔
بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے ،جنہیں رواں ہفتے الیکشن کمیشن میں تین اہم مقدمات کا سامنا ہے۔ یہ مقدمات جن میں پارٹی کے لئے غیر ملکی فنڈنگ کی وصولی جسے ( ممنوعہ فنڈنگ )کا نام دیا گیا ہے۔ پارٹی اکائونٹس کو خفیہ رکھنا اور خود پارٹی چیئرمین کی جانب سے ان کی تصدیق کے ضمن میں غلط سرٹیفکیٹ جمع کرانا اور وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے سالانہ گوشواروں میں توشہ خانہ تحائف کی آمدنی ظاہر نہ کرنا، شامل ہیں۔ ممتاز قانون داں ان مقدمات میں توشہ خانہ کیس کو ہی عمران خان کے لئے خطرناک حد تک مشکل کیس قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے ایک مثال اپنی ہی جماعت کے سابق سینٹر فیصل واوڈا کی دیتے ہیں، جنہیں حلف نامے میں غلط حقائق لکھنے پر نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 2017ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان اس سے قبل سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنے بیٹے کی کمپنی سے وصول کرنے والی قابل ادائیگی رقم ظاہر نہ کرنے پر نااہل کر چکی ہے اور اسی بنیاد پر یہ بھی قرار دیا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے اور عدالت کے حکم پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نوازشریف کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا نوٹس جاری کر دیا تھا۔
بادی النظر میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے کیس میں بھی ایسی ہی مماثلت نظر آتی ہے۔ لیکن دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سرگرمیوں، بھرپور توجہ اور اولین ترجیحات اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ وہ جلسوں میں لوگوں کی شرکت کی تعداد کو اپنی مقبولیت کا پیمانہ اور کسوٹی بنا کر اس کے خلاف اس صورت حال اور واقعات کو ڈھال بنانا چاہتے ہیں جن کے خدشات کا اظہار وہ خود بھی بار بار کرچکے ہیں۔
مثلاً یہ کہ موجودہ حکومت انہیں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پہلے نااہل کرنےکی بھرپور کوشش کر رہی ہے یا پھر انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی بار بار کیا ہے کہ چونکہ موجودہ حکومت اور اس میں شامل تمام جماعتیں ’’میرا مقابلہ‘‘ سیاسی میدان میں نہیں کر سکتیں اس لئے وہ انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے مختلف مقدمات میں الجھانا چاہتی ہیں۔ اگر واقعی ان کا یہ خدشہ ان کے ادراک پر مبنی ہے تو پھر ’’دانندگان راز ‘‘ کا ان کو مشورہ ہے کہ وہ جلسہ، جلوس بعد میں کریں پہلے اپنے خدشات اس سے پہلے کہ وہ ان کی سیاست کی کوئی ڈرائونی حقیقت بن جائیں ان کی طرف توجہ دیں۔
اس ضمن میں وہ یہ مثال بھی دیتے ہیں کہ پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں میں بھی اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کیا کرتے تھے اور ان کے رفقا ءجاں نثاری کے دعوے کرتے تھے لیکن کیا ہوا؟ ستمبر 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف معروف قانون دان نواب محمد احمد خان جنہیں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا ان کے صاحبزادے احمد رضا قصوری نے قتل کی ذمہ داری ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر عائد کی اور ان کے خلاف لاہور کے ایک تھانے میں ایف آئی آر درج کرا دی۔ معزولی کے چند ماہ بعد ہی ان کے خلاف اسی ایف آئی آر کے تحت ہائیکورٹ میں مقدمے کا آغاز ہوا اور 6 ماہ تک مقدمے کی کارروائی ہوئی اور 18 مارچ 1978ء کو بھٹو صاحب کو سزائے موت سنا دی گئی۔
انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ رحم کی اپیل کریں لیکن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائزرہنے والے ذوالفقار علی بھٹو جو نہ صرف کئی معاملوں میں خودپسندی اور خود کو حد درجہ پر اعتماد سمجھتے تھے ،انہیں اپنی مقبولیت کا زعم تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اگرمجھے کچھ ہوا توہمالیہ بھی رو پڑے گا۔ اس حوالے سے ان کی کتاب If I,m Assassinated میں بہت دلچسپ اور چشم کشا واقعات درج ہیں۔ گو کہ عمران خان پر سنگین نوعیت کا کوئی ایسا الزام یا مقدمہ نہیں ہے لیکن ان کو مشورہ دینے والے کہتے ہیں کہ بین الاقوامی حالات و واقعات کے مطالعے اور آگہی رکھنے والے عمران خان کو ملکی سیاست کی تاریخ پر نظر رکھنی چاہئے۔
ان تمام سیاسی لڑائیوں میں ملک اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے ، مہنگائی سے عام آدمی پس کے رہ گیا ہے اگرچہ ڈالر میں کسی حد تک کمی دیکھنے میں آرہی ہے لیکن حالیہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود عوام کو فائدہ نہیں دیا گیا، لوگ سیاسی بیانات اور لڑائیوں سے متنفر ہوتے جارہے ہیں کیا سیاسی رہنمائوں کو اس ملک کی خوشحالی کیلئے ایک صفحے پر نہیں ہونا چاہئے ؟ معاشی استحکام کیلئے اس وقت قومی ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے سب اختلافات بھلا کر معاشی قوت کیلئے ایک ہونا ہوگا یہ وقت اگر ضائع کردیا تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔