• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

اس وقت پوری دنیا میں مادیت اور شہوانیت کا جو سیلاب آیاہوا ہے، اس نے تمام اخلاقی قدریں تہ وبالاد کرڈالی ہیں، معاشرتی نظام بے حیائی، بدکاری اور عریانیت کا مرکب بن چکا ہے، اخلاقیات کے نظام کو بے کرداری اور نفع پرستی کے مزاج نے زیروزبر کردیا ہے، معاملات کو سود اور حرام کی زنجیروں نے کچھ اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ امانت ودیانت، صداقت وراستی اور خیرخواہی کے اوصاف آخری سانس لے رہے ہیں۔انحراف اور بگاڑ کا یہ سیلاب پورے عالم میں آیا ہوا ہے اور مشرق ومغرب، عرب وعجم، شہرودیہات، کوئی خطہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔

احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی خطے یا معاشرے پر اللہ کی طرف سے اجتماعی قہروعذاب کا نزول تین گناہوں کے رواج عام کے نتیجے میں ہوتا ہے: (۱) سودخوری (۲) زنا اور بدکاری (۳) زکوٰۃ کی ادائیگی میں مجرمانہ کوتاہی‘‘۔ایک حدیث میں ارشاد فرمایاگیا ہے: جب کسی قوم میں سود اور زنا عام ہوجائیں تو وہ اپنے کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنالیتی ہے۔ (المستدرک:۲/۳۷)

آج یہی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے، سودی لین دین اور بدکاری کے فروغ نے وہ شکلیں اختیار کرلی ہیں کہ ان کا تصور بھی لرزہ طاری کردیتا ہے، اسی طرح زکوٰۃ کے تعلق سے مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کی عام فضا بنی ہوئی ہے، ہماری ان ہی بداعمالیوں کا خمیازہ قدرتی آفات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

احادیث کے مطابق کسی قوم، خطے اور معاشرے پر اجتماعی آفت وعذاب کے آنے کا ایک بنیادی سبب سودی کاروبار اور سودی لین دین کا عام چلن ہے۔شریعت نے حرام کاموں اور گناہوں کی جو تفصیل بتائی ہے، اس میں سود کا گناہ سرِفہرست ہے، قرآن وحدیث میں سود کی شناعت وقباحت کے تعلق سے ایسے ایسے الفاظ بیان ہوئے ہیں جو لرزہ طاری کردیتے ہیں۔ سورۃ البقرہ میں سود کی حرمت اور اس سے اجتناب کے حکم کے بعد ارشاد فرمایاگیا: ’’اگر تم سود کا کاروبار نہیں چھوڑو گے تو تم اللہ اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے اعلان جنگ سن لو‘‘۔ غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے شرک کے بعد بڑے سے بڑے گناہ کے بارے میں بھی اتنے سخت الفاظ اور اتنا سخت لب ولہجہ استعمال نہیں کیا، جتنا سخت لب ولہجہ سود کے بارے میں استعمال کیاہے، ”اعلانِ جنگ“ کے الفاظ انتہائی سخت وعید اور بدترین برائی کے اظہار کے لیے ہیں۔ 

روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص امام مالک بن انسؓ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: میں نے شراب کا ایک ایسا رسیا اور نشے میں چور شخص دیکھا جو چاند کو پکڑنے کی کوشش کررہا تھا، اس پر میں نے کہا: اگر انسان کے پیٹ میں شراب سے بھی بدتر کوئی چیز اترنے والی ہوتو میری بیوی کو طلاق، آپ نے فرمایا: ابھی جاؤ کہ میں تمہارے مسئلے میں غور کرلوں،وہ دوسرے دن آیا تو بھی فرمایا: ابھی لوٹ جاؤ کہ میں تمہارے مسئلے میں غور کرلوں، وہ تیسرے دن آیا تو فرمایا: تمہاری بیوی کو طلاق ہوگئی، اس لیے کہ میں نے کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں انتہائی غور وتدبر کیا، مگر سود سے بدتر کوئی چیز نظر نہ آئی، اس لیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن: ۳/۳۶۴)

سود کی بے برکتی اور نحوست کے وبال کو بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔(سورۃ البقرہ)سود اور صدقہ کی حقیقت، نتائج، اغراض اور کیفیات سب متضاد ہوتے ہیں، صدقہ میں اپنا مال بلامعاوضہ دوسرے کو دیا جاتا ہے اور سود میں دوسرے کا مال بلامالی معاوضہ کے لیاجاتا ہے، صدقہ کی غرض رضائے الٰہی اور ثواب آخرت ہوتی ہے، جب کہ سود کی غرض اللہ کے غضب سے نڈر ہوکر اپنی موجودہ دولت میں ناجائز اضافے کی ہوس ہوتی ہے، نتیجے کا فرق قرآن کی اسی آیت نے بتادیا کہ اللہ سود سے حاصل ہونے والے مال کی برکت وخیرمٹادیتا ہے، جب کہ صدقہ کرنے والے کے مال کو اور اس کی برکت کو بڑھا دیتا ہے، کیفیات کا فرق یہ ہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کو متنوع اعمال خیر کی توفیق عطا ہوتی ہے اور سود خوربالعموم محرومی میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔

ایک حدیث میں فرمایا گیا: سود کا مال اگرچہ بڑھ جائے،مگر اس کا انجام ہمیشہ بے برکتی اور کمی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ (ابن ماجہ/۱۶۵، المستدرک: ۲/۳۷) سود خور کے مال میں سود کی وجہ سے بہ ظاہر کتنا ہی اضافہ کیوں نہ نظر آتا ہو، لیکن: (۱) سود خور کے مال میں برکت نہیں ہوتی۔(۲) ایسے مال میں عام طور سے آفتیں لاحق ہوتی ہیں، ناجائز مصارف میں خرچ ہوجاتا ہے یاکسی ناگہانی آفت وحادثے کی نذر ہوجاتا ہے۔ (۳) سودخور مال کے اصل فوائد یعنی عزت وراحت سے محروم رہتا ہے، اسے اسباب راحت چاہے جس قدر حاصل ہوجائیں، حقیقی راحت واطمینان وسکون کی کیفیات حاصل نہیں ہوتیں، پھر اس کی طبیعت میں سودخوری کی وجہ سے شقاوت، تنگ دلی، بزدلی، مجنونانہ حرص وہوس اور بے رحمی کے جراثیم جڑپکڑ لیتے ہیں، جس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے دلوں میں اس کی کوئی قدرومنزلت اور عزت ومقام باقی نہیں رہ جاتا۔

سورہٴ آل عمران میں ارشاد ہے:ترجمہ: اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھاکر سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ اس آیت میں زمانہٴ جاہلیت میں مروج سود کی ایک خاص صورت کا ذکر بہ طور مثال ہے، ورنہ سود کی حرمت کا حکم عام ہے، وہ کئی گنا بڑھاچڑھاکر ہویا نہ ہو۔

سود کی حرمت کے تعلق سے احادیثِ نبویہ میں بہت مواد موجود ہے، بخاری ومسلم کی ایک روایت میں رسولِ اکرم ﷺنے امت کو سات ہلاک وبرباد کرنے والی چیزوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور ان سات چیزوں میں شرک، جادو، قتل ناحق، میدان جنگ سے فرار ہونا، تہمت طرازی، یتیم کا مال ناحق کھانے کے ساتھ سودخوری کا ذکر صریح الفاظ میں آیا ہے۔ (صحیح بخاری: ۱/۳۸۸)

حضرت جابرؓنقل کرتے ہیں: ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود کی تحریر لکھنے والے، اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (صحیح مسلم:۲/۲۷)

حضرت ابوہریرہؓ آپ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ انہیں جنت میں داخل نہیں کرے گا اورنہ انہیں جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائےگا: (۱) عادی شرابی (۲) سود کھانے والا (۳) ناحق یتیم کا مال اڑانے والا (۴) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا۔ (المستدرک:۲/۳۷)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی حدیث نبوی میں سخت وعید آئی ہے:سود کے وبال تہتر قسم کے ہیں، ان خرابیوں میں سے ادنیٰ اور کمتر قسم ایسی ہے، جیسے کوئی شخص (معاذ اللہ) اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرے۔(المستدرک:۲/۳۷)

حضرت عبداللہ بن سلامؓ آپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں: ایک درہم کوئی سود سے حاصل کرے، یہ اللہ کے نزدیک مسلمان ہونے کے باوجود ۳۳ بار زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔ (ایضاً)

دوسری روایت میں وارد ہوا: سود کے 72 گناہ ہیں، ان میں سب سے چھوٹا گناہ اس شخص کے گناہ کے برابر ہے، جو مسلمان ہوکر اپنی ماں سے زنا کرے اور ایک درہم سود کا گناہ کچھ اوپر ۳۰ زنا سے زیادہ بدتر ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی:۴/۳۹۲)

حضرت حنظلہ ؓ(شہیدِ اسلام، جن کو فرشتوں نے غسل دیا تھا) کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ آپ ﷺسے بیان کرتے ہیں: سود کا ایک درہم جسے کوئی جانتے ہوئے استعمال کرلے ۳۶ مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔(مسند احمد: ۵/۶۹، مجمع الزوائد: ۴/۱۱۷)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میں نے اوپر کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا تو اچانک گرج، بجلی اور کڑک محسوس کی، پھر ایک ایسی قوم پر میرا گزرہوا جن کے پیٹ بڑے بڑے مکانوں جیسے تھے، جن میں سانپ بھرے ہوئے تھے، جو باہر صاف طور سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرائیل امینؑ سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا: یہ سودخور ہیں۔ (ابن ماجہ:۱۶۴، مسند احمد: ۲/۲۵۶)حضرت عبداللہ بن مسعودؓآپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں:جس قوم میں زنا اور سود پھیل گیا، انھوں نے یقیناً اللہ کا عذاب اپنے اوپر اتارلیا۔(مجمع الزوائد:۴/۱۱۸)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: جب اللہ کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو ان میں سود پھیل جاتا ہے۔ (مسند الفردوس الدیلمی: ۲/۲۱۳)حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ایک حدیث میں انتہائی چشم کشا حقیقت کا بیان ہے: ایک زمانہ ضرور ایسا آئے گا کہ کوئی بھی سود سے نہ بچ سکے گا اور کوئی شخص سودخوری سے بچ بھی گیا تو بھی سود کے دھویں اور غبار سے نہیں بچ سکے گا۔ (ابن ماجہ)

مذکورہ احادیث اور بہ طور خاص اس حدیث کے تناظر میں ہم اگر موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق اکثریت سود کی لعنت میں گرفتار ہے، تجارتی نظام سود پر منحصر ہوچکا ہے، اللہ کے باتوفیق بندے ایسے ہیں جو سود خوری سے بچے ہوئے ہیں، لیکن سودی نظام کی زنجیر نے عالمی معیشت وتجارت کو اس طرح جکڑ رکھا ہے اور سماج میں سود اس طرح سرایت کرگیاہے کہ ان باتوفیق اور حلال کاروبار کرنے والوں کا حلال مال بھی پورے طور پر سود کے دھویں اور غبار سے محفوظ اور بچا ہوا نہیں رہ جاتا۔

اب جب کہ دنیا سودی لعنت میں جکڑے ہوئے تجارتی ومعاشی نظام کا تجربہ کرچکی ہے اور اس کے اخلاقی، روحانی، تمدنی، اجتماعی اور معاشرتی نقصانات کا سامنا بھی کرچکی ہے اور اس کے نتیجے میں بار بار مختلف شکلوں میں آنے والے قہرِالٰہی سے بھی دوچار ہوچکی ہے، دنیا کے لیے سود سے بالکل پاک اسلامی نظام معیشت (جو تمام انسانی طبقات کے لیے سراپا رحمت وخیر ہی ہے) کو اپنانے کے سوا کوئی اور متبادل اور چارئہ کار باقی نہیں بچا۔

قرآن وحدیث کے واضح ارشادات کی روشنی میں عقلی طور پر بھی سود کا جائزہ لیا جائے تو ایک انسانی عقل برملا اس اعتراف پر مجبور ہو جاتی ہے کہ اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور اقتصادی طورپر سود کے معاملات نقصانات سے بھرے ہوئے ہیں۔ سود کی وجہ سے انسان میں خود غرضی، لالچ، بے رحمی اور سنگدلی جیسی بری عادتیں پیدا ہوجاتی ہیں جس سے معاشرے کا چین اور سکون بالکل ختم ہوجاتا ہے اور ایسے معاشرے میں رہنے والے افراد ایک دوسرے کے خلاف بغض ، حسد ، کینہ پروری اور مفاد پرستی کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

اس کی بدولت ایک دوسرے کے کام آنے اور مدد کرنے کی بجائے ہر ایک کو اپنے فائدے کی فکرہوتی ہے۔ سود پر رقم دینے والا اپنی رقم پر برابر سود وصول کرتا رہتاہے، اُسے اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ قرض پر رقم لینے والے کا کتنا نقصان ہورہاہے؟ سود کی وجہ سے سودی رقم دینے والے کی خودغرضی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ شدید ضرورت کے وقت بھی مثلاً کوئی بیمار ہے یا بھوک سے اس کی بری حالت ہے کسی کو بلاسود قرض دینے پر راضی نہیں ہوتا۔

کیا اس صورتحال کو سود کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے؟ یا اس کے بعد بھی ابھی انجام باقی ہے جو کہ دنیا میں افلاس اور آخرت میں عذاب کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ موجودہ دور میں غربت و افلاس اور معاشی بدحالی کا ایک بڑا سبب سودی لین دین ہے۔جو درحقیقت معاشی استحصال کی بنیاد اور معاشی عدم مساوات کا بڑا سبب ہے۔