• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کی اپیل کی سماعت ایک سال سے برطانوی امیگریشن ٹربیونل میں نہیں ہوئی

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) یو کے ہوم آفس کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے قیام میں توسیع کی درخواست مسترد کئے جانے کے بعد ایک سال سے برطانوی امیگریشن ٹربیونل میں ان کی اپیل کی سماعت نہیں ہوئی۔ برطانوی حکومت میں موجود اندرونی معتبر ذرائع نے جنگ اور جیو کو بتایا کہ نوازشریف کی اپیل کو فرسٹ ٹیئر ٹربیونل میں متعدد وجوہ کی بنیاد پر ابھی تک نہیں سنا گیا ہے، جس میں ہوم آفس کی جانب سے نواز شریف کی نمائندگی کرنے والے وکلا کے جواب میں اپنا بنڈل دائر کرنے کیلئے وقت میں توسیع کی درخواست بھی شامل تھی۔ گزشتہ سال اگست میں ہوم آفس نے نواز شریف کی اسٹے درخواست مسترد کر دی تھی لیکن انہیں ہوم آفس کے فیصلے کے خلاف ان کنٹری رائٹ آف اپیل دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مسٹر شریف کو اس وقت تک برطانیہ چھوڑنے کی ضرورت نہیں جب تک کہ وہ برطانیہ میں اپیل کے اپنے تمام حقوق استعمال نہیں کر لیتے۔ گزشتہ سال اگست میں نواز شریف کے وکلا کی جانب سے اپیل دائر کرنے کے فوری بعد یہ اپیل اب بھی فرسٹ ٹیئر ٹربیونل (ایف ٹی ٹی) میں زیر التوا ہے اور ایف ٹی ٹی جج کے سامنے سماعت کی منتظر ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا سرکٹ پر منگل 16 اگست 2022 کو ایک خبر گردش کر رہی تھی کہ برطانوی حکومت نے نواز شریف سے کہا ہے کہ وہ 25 ستمبر 2022 تک ملک چھوڑ دیں لیکن یو کے حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ جعلی خبر ہے۔ حتمی فیصلہ آنے سے پہلے نواز شریف کی اپیل کو کئی مراحل سے گزرنا ہے۔ برطانیہ کے سرکاری ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف کی اپیل کی ابھی تک فرسٹ ٹیئر ٹربیونل نے کیس کی میرٹ پر سماعت نہیں کی۔ رواں سال 18 فروری کو فرسٹ ٹیئر ٹربیونل میں کیس مینجمنٹ کی سماعت ہوئی، جہاں نوازشریف کی نمائندگی ان کے وکلا نے کی تھی۔ نوازشریف کو کیس مینجمنٹ کی سماعت میں شرکت کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور یہاں تمام فریقین کیلئے کیس کی پیشرفت کے سلسلے میں بنڈلز فائل کرنے کیلئے ایک ٹائم شیڈول پر اتفاق کیا گیا تھا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ جلد ہی سماعت ہونے والی ہے۔ بیرسٹر غلام مصطفیٰ نے، جو لندن میں قائم ایک لا فرم لا لین سالیسٹرز میں امیگریشن کے سینئر وکیل اور امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں، اس سارے پراسس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کی اپیل کے عمل کو بہت طویل سفر طے کرنا ہے کیونکہ یہ ابھی اپیل کا پہلا مرحلہ ہے اور اگر اس مرحلے پر نواز شریف کی اپیل کو اجازت نہیں دی جاتی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اس سے برطانیہ میں ان کے اپیل کے رائٹس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ غلام مصطفیٰ نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ فرسٹ ٹیئر ٹربیونل کیس کی سماعت کرے گا، جج اپنا فیصلہ عام طور پر چند ہفتوں میں سنائے گا اور شاذ و نادر ہی کیسز میں یہ دیکھا گیا ہے کہ فیصلہ معزز ججوں نے سماعت کی اصل تاریخ کے چند ماہ بعد جاری کیا ہو۔ تاہم کورونا وائرس کوویڈ 19 کی وجہ سے بنیادی طور پر ایف ٹی ٹی کی سماعتوں اور فیصلوں میں تاخیر ہوئی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اگر اس مرحلے پر نوازشریف کی اپیل ہوم آفس کے حق میں برقرار رہتی ہے اور یا اپیل کنندہ کے حق میں رد کردی جاتی ہے تو دونوں فریقوں کو ایف ٹی ٹی کے قیصلے کی تاریخ سے 14 دن کے اندر اپر ٹریبونل میں اپیل کرنے کی اجازت کیلئے درخواست دینے کا حق حاصل ہوگا اور پہلے مرحلے میں فرسٹ ٹیئر ٹربیونل سے یہ اجازت طلب کی جانی چاہئے۔ یہ درخواست ایف ٹی ٹی جج کے اپیل کو خارج کرنے کے فیصلے کے قانون کی کسی بھی غلطی پر مبنی ہو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اگر فرسٹ ٹیئر ٹربیونل نے اجازت دینے سے انکار کر دیا تو کوئی بھی پریشان فریق 14 دنوں کے اندر قانونی غلطی کی بنیاد پر براہ راست اپر ٹربیونل(یو ٹی) میں اپیل کرنے کی اجازت کیلئے مزید درخواست دے کر چیری کی ایک اور بائٹ لے گا۔ اگر اپر ٹربیونل کا جج یہ قبول کرتا ہے کہ ایف ٹی ٹی جج سے قانون کی غلطی ہوئی تھی تو اس صورت حال میں وہ ایف ٹی ٹی کے مختلف جج کے سامنے نئی سماعت کے لئے کیس کو ایف ٹی ٹی کو بھیجنے کا حکم دے سکتا ہے۔ اگر یو ٹی جج کو قانون کی کوئی خرابی نہیں ملتی ہے تو معاملے کو سرٹیفائی کرتا ہے اور اس وجہ سے فیصلے کو چیلنج کرنے والے فریق کے ذریعے اپیل کے تمام حقوق ختم ہوجاتے ہیں۔ تاہم اگر یو ٹی جج فیصلے کی تصدیق نہیں کرتا ہے لیکن کسی بھی صورت میں اجازت دینے سے انکار کر دیتا ہے تو متاثرہ فریق اس عدالت میں اپیل کرنے کی اجازت حاصل کرنے کیلئے فیصلے کو اپیل کورٹ میں اگلے مرحلے میں چیلنج کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس عمل میں ہائی کورٹ کو خارج کر دیا گیا ہے کیونکہ اسے لیپ فراگ رول بھی کہا جاتا ہے۔ بیرسٹر غلام مصطفیٰ نے کہا کہ چونکہ مسٹر شریف اپیل کی کارروائی کے ابتدائی مرحلے میں ہیں، اس لئے ان کے معاملے کو حتمی شکل دینے میں کم از کم ایک سال لگ سکتا ہے۔ اس طرح ان کی پاکستان واپسی کی تمام خبریں قیاس آرائی پر مبنی دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم نوازشریف تقریباً تین سال قبل نومبر 2019 میں ایک ائر ایمبولینس میں مزید علاج کیلئے لندن آئے تھے، انہیں پاکستانی کورٹس نے ملٹی پل بیماریوں کے علاج کیلئے پاکستان چھوڑنے کی اجازت دی تھی۔ جب انہیں ان کی رہائش گاہ ایون فیلڈ فلیٹس لے جایا گیا تو ان کے ساتھ ان کے بھائی شہباز شریف اور ایک ذاتی معالج بھی تھے۔ نوازشریف صرف چند ہفتوں کیلئے لندن آئے تھے اور ہارلے سٹریٹ کلینک میں ان کا باقاعدہ میڈیکل چیک اپس کرائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا اور لندن سے پارٹی کارکنوں سے خطاب کا آغاز کیا اور وہ یہاں سے پارٹی امور چلا رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ پی ایم ایل این چاہتی ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں قیادت کریں لیکن انہوں نے پاکستان واپسی کے اپنے پلان کو حتمی شکل نہیں دی ہے۔ ایک حالیہ تقریر میں سابق وزیراعظم عمران خان نے قیاس آرائی کی تھی کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی زیر قیادت موجودہ حکومت نواز شریف کو جلد پاکستان واپس لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یورپ سے سے مزید