• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جائے

قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں

میں ہمدم دیرینہ شفیق پراچہ صاحب کا عبدالکبیر قاضی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ آج سہ پہر ایسے دردمندوں کے درمیان ہوں جو ظلمت شب کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے اپنے حصّے کی شمع جلارہے ہیں۔ غریب امیر کا امتیاز کیے بغیر ہر ذہین پاکستانی بچے کے لیے پیپلز اسکول پروگرام کا آغاز کررہے ہیں۔

ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ ہم اپنی آزادی کے 75 ویں سال کے مہینوں اور ہفتوں میں سانس لے رہے ہیں۔ ڈائمنڈ جوبلی کی 14اگست ہوگی۔ جب وہ قافلے یاد آئیں گے جو غلامی کی زنجیریں کاٹ کر ایک آزاد ملک کی طرف لٹے پٹے روانہ تھے۔ وہ محبتیں تازہ ہوں گی جو اپنے بسے گھر بار چھوڑ کر آنے والوں پر مقامی بھائیوں نے نچھاور کی تھیں۔ خاص طور پر حیدر آباد۔ خیرپور۔ میرپور خاص والے یاد آئیں گے۔

آج کی درسگاہوں کی باتیں مجھے برسوں پہلے جھنگ شہر لے گئی ہیں۔ میں پانچویں کلاس میں ایک کھلے میدان میں ٹاٹ پر بیٹھا ہوں۔ درختوں تلے پرائمری اسکول کھلا ہے۔ سورج پورے نصف النہار پر ہے۔ ہم اس وقت شمسی توانائی سے فیض حاصل کررہے تھے۔ پھر ہمارے اسکول کے کچے درو دیوار استوارہوگئے ہیں۔ ٹاٹ نئے نویلے ہیں۔ ضلع کے ڈپٹی کمشنر بہادر اسکول کا دورہ کررہے ہیں۔ یہ کوئی اور نہیں قدرت اللہ شہاب ہیں۔ شہاب نامہ والے۔

ایک اور منظر میرے ذہن کے پردے پر ابھر رہا ہے۔ ایم بی ہائی اسکول جھنگ شہر۔ یہ ایک کمرہ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام سے موسوم کردیا گیا ہے۔ ان کی تصویریں کارنامے آویزاں ہیں۔ انہوں نے میٹرک یہیں سے کیا تھا۔

دریوں اور ٹاٹوں والے یہ سرکاری اسکول نوبل پرائز کی اہلیت رکھنے والے طالب علم پیدا کرتے تھے۔ اسکولوں کی شاندار عمارت۔ ایئر کنڈیشننگ۔ قیمتی کرسیاں میزیں نہیں۔ مدرس اور انداز تدریس اصل نعمت ہے۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن سرکار اور عوام کے اشتراک سے یہی منزل حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

مجھے سندھ کی مقدس اجرک اورٹوپی کی قسم یاد ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اس وادی میں دن رات گزار رہے ہیں۔ جو پانچ ہزار سال پہلے بھی تہذیب کا گہوارہ تھی۔ جب یورپ پر تاریک صدیوں کا راج تھا۔ یہاں سلیقے اور قرینے کا سماج تھا۔ سندھو ندی کے دونوں طرف آباد۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر۔ کے پی کے۔ پنجاب۔ سندھ اور کچھ دوربلوچستان۔ یہ سب ایک خوشحال وادیٔ سندھ کے وارث ہیں۔ علم دانش۔ خرد افروزی۔ جفاکشی۔ اہلیت کار اس وادی کی جبلتیں۔ 

آج کل کی اصطلاح میں DNA ہیں۔ سندھ جہاں بر صغیر کے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح نے جنم لیا۔ سندھ جہاں نئے پاکستان کے مدبر شہید ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے۔ سندھ جہاں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے آنکھیں کھولیں۔ سندھ کے بیٹے بیٹیاں اپنے نظریات اور اصولوں کی خاطر جان دے دیتے ہیں۔ سودے بازی نہیں کرتے۔ عوامی حکمرانی کے قیام کے لیے سب سے زیادہ جدو جہد اور قربانیاں بھی سندھ نسل در نسل دے رہا ہے۔

میں تو ہمیشہ اپنے آپ کو سندھ کا مقروض سمجھتا ہوں۔ اور یہ تاسف بھی ہے کہ میں سندھ کا قرض اب تک نہیں چکا سکا۔

مجھے چناب نے پالا تو سندھ نے سینچا

مرے مزاج سے دریا دلی کبھی نہ گئی

آپ اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم سندھو ندی کا پانی پیتے ہیں۔ جس میں عجب طاقت ہے۔ یہ اہلیت کار عطا کرتا ہے۔ اور آپ جو مختلف درسگاہوں۔ تنظیموں سے وابستہ علم کی روشنی بانٹ رہے ہیں۔ میرے لیے بہت قابل احترام ہیں۔ کیونکہ اس خطّے کا مستقبل آپ کے ہاتھوں میں پرورش پارہا ہے۔ ہماری یونیورسٹیاں،کالج اور اسکول سب ریاست کی آغوش ہیں۔ اپنی اولادیں ان کے سپرد کرکے ماں باپ سمجھتے ہیں کہ ان کی قیمتی متاع محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم مملکت سے نوازا ہے۔ جہاں تہذیب و تمدن۔ جدو جہد آزادی۔ تصوف دانش تدبر سے بھری کتنی ہی صدیاں نئی صدیوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر گلی کوچوں میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔ جہاں ایک ہی دن سارے موسم کہیں نہ کہیں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ جہاں بنجر اور خشک پہاڑوں کے سینے میں سونا تانبا قیمتی دھاتیں ہمارا انتظار کررہی ہیں۔ جہاں ریگ زاروں میں گیس انگڑائیاں لے رہی ہے۔ جہاں میدانوں کے نیچے تیل ہمیں خوشحال کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ 

ہم یہاں تحقیق اور جستجو کے بجائے واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے در پر چند ارب ڈالر کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ ریسرچ آج کے دَور میں ترقی کا انجن ہے۔ ساتویں صدی سے گیارہویں صدی تک ہم مسلمان تحقیق کرتے تھے۔ دنیا کو منور کرتے تھے۔ بارہویں صدی سے اکیسویں صدی تک ہم شمشیر و سناں اور فوج کشی میں مبتلا ہوگئے۔ علم و دانش۔ کتابیں یورپ والے لے گئے۔ ساتویں صدی سے گیارہویں صدی Age of Translation بھی کہلاتی ہے۔ 

عرب اسکالرز نے یونانی دانش کو عربی میں منتقل کیا۔ ترجمے کے ساتھ ساتھ ایجادات بھی کیں۔ یہ سرمایہ عربی سے انگریزی میں منتقل کرگئے۔ یورپ میں تحریک احیائے علوم کا پیرایۂ آغاز بنا۔ ہمارے ہاں نہ تو ترجمے کے اس دَور پر تحقیق ہوتی ہے۔ نہ پڑھایا جاتا ہے۔ اور نہ بارہویں صدی سے اکیسویں صدی تک کے علمی خلا کے اسباب پر بات ہوتی ہے۔

ریسرچ سے ہی تیز رفتار ٹیکنالوجی وجود میں آئی ہے۔ یہ جادو کی ڈبیا موبائل فون جو عام آدمی کی طاقت بن گیا ہے۔ جس نے بادشاہتوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ طاقت ور فوجیں لرزہ بر اندام ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں عجز کا شکار ہیں۔ سوشل میڈیا کی یہ قوت ریسرچ کا حاصل ہے۔ ہم اس ٹیکنالوجی کو پوری طرح سمجھے بغیر اس کو استعمال کررہے ہیں اور اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اگر ہم اس کا فہم حاصل نہیں کریں تو ٹیکنالوجی ہمیں استعمال کرتی ہے۔ ہم 22 کروڑ میں سے 16کروڑ بڑے خلوص سے استعمال ہورہے ہیں۔

بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی رہیؔ

بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے رہے

ہم پاکستان میں مینوئل اور آٹو کے دوراہے پر ہیں۔ اور یہ بڑا خطرناک مرحلہ ہے۔

کھڑے ہوئے ہیں وجود و عدم کی سرحد پر

بس ایک لغزش پا پر ہے فیصلہ ہونا

آپ قابل فخر اداروں سے وابستہ ہیں۔ آپ ایک انتہائی نیک مقصد کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔ پبلک اینڈ پرائیویٹ پارٹنر شپ ۔ سرکار۔ اور عوام کا اشتراک۔ آپ پاکستان کی آنے والی نسلوں کو بلا امتیاز ۔ مذہب و رنگ ونسل۔ مالی پوزیشن سے قطع نظر۔ اچھی تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ کوئی ذہن اس بنا پر سنورے بغیر نہ رہ جائے کہ اسے وسائل میسر نہیں تھے۔ کون جانے کہ کس کچی بستی میں مستقبل کا کوئی موجد کوئی سائنسدان۔ کوئی خلا باز کسی نظر کا منتظر ہے۔ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کا یہ راستہ ایک روشن منزل کا تعین کررہا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ حکومتیں اگر چاہیں تو اچھاکام بھی کرسکتی ہیں۔

مولانا رومی تو کہتے ہیں:

علم رابر دل زنی یارے بود

علم رابر تن زنی مارے بود

علم کو دل میں اتاریں تو دوست بن جاتا ہے۔ اگر جسم پر ماریں تو سانپ ہوجاتا ہے۔

پہلے ہمیں فارسی کے ترجمے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اب ایسا وقت آگیا ہے کہ اُردو کا بھی ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے اور آپ کے مرشد شاہ لطیف کہتے ہیں:

پڑھ پڑھ کر وہ بنے ہیں عالم سوز سے خالی دل

جوں جوں پڑھیں کتابیں ان کو پاپ ہوا حاصل

۔۔۔۔۔۔

ایسا پڑھ تو سبق اے سائیں۔ جس سے منوا پگھلے

آج سجالے اپنے من میں الف تو میم سے پہلے

تو وہ بات سمجھ لے۔ کہتا ہے جو یار لطیف

ایسا سبق جس سے دل پگھلے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ ایسا نصاب ترتیب دیں۔ جس سے پتھر دل بھی پگھل جائیں۔ نصاب تعلیم کے بارے میں بہت زیادہ بحث ہوتی ہے۔ ابھی تک تو المیہ ہے کہ وہ کچھ ہمارے نصاب میں نہیں ہے جو ہمیں زندگی میں دیکھنا پڑتا ہے۔ پیپلز اسکول پروگرام میں دیکھنا ہے کہ We the peoples of Pakistasn کتنا پڑھاتے ہیں۔

ادھر پنجاب میں ابدی نیند سوتے حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں:

ابیات باہو:

پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں عالم ہوئے بھارے ہو

اک حرف عشق دا پڑھن نہ جانن بھلے پھرن بچارے ہو

اک نگاہ جے عاشق دیکھے لکھ ہزاراں تارے ہو

لکھ نگاہ جے عالم ویکھے کسے نہ کدھی چاہڑے ہو

عشق عقل وچ منزل بھاری سیئیاں کوہاندے پاڑے ہو

جنہاں عشق خرید نہ کیتا باہو اودو ہیں جہانیں مارے ہو

بلھے شاہ کہتے ہیں:

علموں بس کریں ادیار

اکو الف تینوں درکار

یہ ’الف‘ ہی تو علم کا سرچشمہ ہے۔ یہ الف تو ہی ہمیں کبھی صدیوں میں لیے پھرتا ہے۔ اور کبھی بر اعظموں میں ۔ ایک ’الف‘ میں کتنے ایم فل۔ کتنے پی ایچ ڈی بھرے پڑے ہیں۔

سماج میں تبدیلی درسگاہیں ہی لاسکتی ہیں۔ اب تو ہر ضلع میں یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ ان کا رشتہ اپنے شہر کی مٹی سے جڑا ہوتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے علاقے کی عام جڑی بوٹیاں بھی کیا کیا خزانے رکھتی ہیں۔ اپنے وسائل سے اپنے مسائل حل کرنے کی تحقیق یہ کرسکتی ہیں۔ ایم فل پی ایچ ڈی اپنے علاقے کی تاریخ۔ جغرافیے اور معیشت پر ہونی چاہئے۔

کچھ برسوں سے بہت زور ہے کہ پی ایچ ڈی زیادہ تعداد میں ہونے چاہئیں۔ یہ خواب بڑی حد تک پورا بھی ہوگیا ہے۔ پی ایچ ڈی بہت ہیں مگر وہ کام اپنے میٹرک سے ہی لیتے ہیں۔

علم۔ عقل اور عشق میں کشمکش بھی رہتی ہے۔ لیکن یہ تینوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر بھی ہیں۔ آئیے ہم ان کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کریں۔ علم پہلی منزل ہے۔ جو عقل کی پختگی تک لے کر جاتی ہے۔ علم اور عقل کا جب وصال ہوجاتا ہے تو عشق کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔ عشق ہی زندگی کی معراج ہے۔

وادیٔ سندھ عاشقوں کی سر زمین ہے۔ آنے والی نسلوں کو صرف کتابیں نہیں چہرے پڑھنا بھی سکھائیں۔ اب سوشل میڈیا کا دَور ہے۔ ہمیں فیس بک۔ انسٹرا گرام۔ ٹوئٹر پر علم عشق عقل کو پوسٹ کرنا چاہئے۔ سوشل میڈیا پڑھانے کے لیے بھی پیریڈ ضرور مخصوص کریں۔ اپنی عظیم مملکت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مستند ڈیٹا سوشل میڈیا پر آویزاں کریں۔ میں اکثر نوجوانوں سے پوچھتا ہوں کہ وہ ’ریکوڈک‘ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ اکثریت لا علمی کا اظہار کرتی ہے۔

ریکوڈک جہاں کئی لاکھ اونس سونا ہے۔ کئی ٹن تانبا ہے۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں جسے ہم ایٹم بم پھاڑنے کے بعد بھول گئے ہیں۔ ہمارا انتظارکررہا ہے۔ ہم اور آپ اپنے نوجوانوں کو اپنے ملک کے اثاثوں اور خزانوں سے آگاہ کریں۔ اب تو ایک بہت بڑی نعمت سوشل میڈیا میسر ہے جس سے علم۔ عشق۔ اور عقل چند سیکنڈ میں ہزاروں نوجوانوں تک منتقل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے ہر فرد میں اہلیت کار بہت ہے۔ لیکن اسکول کے وقت سے ہی اسے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ حالات بد تر ہیں۔ ایک فرد کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ فرد کی ذہانت اور صلاحیت پر کہیں مذہب کو مسلط کردیا جاتا ہے۔ کہیں برادری۔ کہیں اسٹیبلشمنٹ۔ حالانکہ

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

میری امید یہی ہوگی پیپلز اسکول سے کہ یہاں فرد کی ذہانت صلاحیت کوجِلادی جائے گی۔ کچلا نہیں جائے گا۔

موسم اچھا پانی وافر مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان

علم۔ عقل اور عشق سب ہی اس میں مبتلا ہونا شامل ہونا سکھاتے ہیں۔ کوئی بھی نیوٹرل ہونے کا درس نہیں دیتا۔ وادیٔ سندھ میں گونجتا صوفیا کا کلام وطن اور جمہوریت کے لیے جان قربان کرنے والے شہداء کی روحیں منتظر ہیں کہ لا الہ الا اللہ کی صدا درسگاہوں سے کب بلند ہوتی ہے۔ 22ہزار طلبہ و طالبات ہر قسم کی سہولتوں سے آراستہ پیپلز اسکولوں سے عشق کی مشعل لے کر کب برآمد ہوتے ہیں۔

میں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں ۔ سندھ کے 34۔ وسیع و فراخ۔ عمارتوں کھلے میدانوں میں ہمارا مستقبل ہمارے Future Residents جدید علوم کی تحقیق اور تحصیل میں مصروف ہیں۔ 2032 میں پہلے قافلے نکل رہے ہیں معاشرے میں میٹھا پانی داخل ہورہا ہے۔ یہ 22 ہزار تبدیلی کے پیغام لے کر قریہ قریہ پھیل رہے ہیں۔ سماج مستحکم ہورہا ہے۔ والدین کے دلوں سے دعائیں نکل رہی ہیں۔ سید مراد علی شاہ کے لیے۔ سید سردار علی شاہ کے لیے۔ اکبر لغاری کے لیے قاضی عبدالکبیر کے لیے۔

آپ کی یہ روشنی پورے ملک اور بیرون ملک پہنچ سکتی ہے۔

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے

مولانا عبدالمجید سالک کی ایک عہد آفریں غزل کے چند اشعار۔

چراغ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے

چمن میں آئے گی۔ فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے

ہمارے ڈوبنے کے بعد ابھریں گے نئے تارے

جبین دہر پہ چمکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے

جوانو۔ اب تمہارے ہاتھ میں تقدیر عالم ہے

تمہیں ہو گے فروغ بزم امکاں ہم نہیں ہوں گے