دسمبر کا مہینہ تھا، سردیاں تھیں۔ ویسے تو کراچی میں سردی صرف گرمی کم ہونے کو ہی کہتے ہیں پھر بھی دسمبر کو سردی کا ہی مہینہ تصوّر کیا جاتا ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں عالمی اُردو کانفرنس کا میلہ سجا تھا، چار روزہ کانفرنس انتہائی شاندار رہی اور اُس دن آخری روز تھا کانفرنس کا۔ فنکاروں، اَدیبوں، شاعروں کے علاوہ حاضرین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، ہم نے اناؤنسمنٹ کرکے آڈیٹوریم کے عقبی حصے کا رُخ کیا، جہاں ہماری ملاقات پاکستان کی صفِ اوّل کی گلوکارہ سے ہوئی۔ نیّرہ نور اور اُن کے شریکِ حیات شہریار زیدی وہاں موجود تھے۔
شہریار زیدی پاکستان کے نامور اداکار ہیں اور ٹیلی وژن ڈراموں میں اپنی عمدہ اداکاری کے جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ باقاعدگی کے ساتھ ہر سال اُردو کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں۔ اُس دن نیّرہ نور کو وہاں دیکھ کر ہمیں بہت اچھا لگا۔ بہت سالوں کے بعد اُن سے ملاقات ہوئی تھی۔ ہم نے انہیں اپنی گائیکی کے حوالے سے بتایا کہ ہم اُن کے گانے بہت محبت سے گاتے ہیں۔ جواب میں انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ واقعی بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں۔ آج آپ کسی ایسے گیت گائیں جو مقبول ہے تو اکثر فنکشن میں دُوسرا گلوکار شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ یہ گیت تو اُس کو گانا تھا۔
نیرہ نور کی حوصلہ افزائی نے ہمیں بہت تقویت دی۔ پھر کچھ عرصہ بعد سُننے میں آیا کہ آرٹس کونسل میں نیرہ نور کا ایک پروگرام ہونے والا ہے۔ ہمیں بہت اشتیاق تھا، ایک طویل عرصہ گزرگیا تھا کہ نیرہ نور کو لائیو نہیں سُنا تھا، اب ہم منتظر تھے کہ کب اس پروگرام کی ڈیٹ انائونس ہوتی ہے۔ لیکن اچانک ایک بہت بڑی خبر آگئی کہ نیرہ نور بُلبل پاکستان وفات پاگئیں۔ اس اچانک ملنے والی اطلاع پہ ہمارے تاثرات وہی تھے جو پورے پاکستان کے عوام کے تھے۔
دِل کو ایسا دھچکا لگا کہ مت پوچھیے۔ یہ سانحہ کیسے ہوگیا، کیا ہوا، کیوں وہ ہم سب کو چھوڑ کے چلی گئیں۔ دُنیا عجیب ہے، جو یہاں آیا ہےاُسے ایک دن جانا ہے، یہ حقیقت جاننے کے باوجود بھی کچھ لوگوں کے وصال پہ اتنا دُکھ ہوتا ہے کہ قرار آنا مشکل ہوتا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ اتنی سُریلی گلوکارہ، اتنی پرُوقار اور سادہ مزاج ہم سب کی پسندیدہ اور قابلِ احترام فنکارہ اس طرح اچانک دُنیا سے رُخصت ہوجائیں گیں۔
اُن کا متانت بھرا انداز، اُن کی شائستگی، اُن کی سنجیدگی، اُن کے گیت، اُن سے ہماری ملاقاتیں سب ذہن کے پردے پہ اُبھرنے لگیں۔ ہمیں وہ میوزک پروگرام یاد آیا جو ایک کمپنی نے مقامی آڈیٹوریم میں منعقد کیا تھا۔ ہم کمپیئرنگ کررہے تھے۔ فنکارو ں میں نیرہ نور بھی شامل تھیں۔ انہوں نے سرمئی رنگ کا باوقار لباس زیب تن کیا تھا، ایک شال بھی لپیٹے تھیں، میک اَپ کا نام و نشان تک نہ تھا، بالوں کو قرینے سے سمیٹ کے جُوڑا بنایا ہوا تھا۔ یہ سب گلوکاروں کے روایتی وضع قطع سے مختلف انداز تھا، سادگی کا پیکر نیرہ نور، شوبزنس کے گلیمر سے آزاد تھیں مگر اس کے باوجود جب انہوں نے اپنا پہلا گیت گانا شروع کیا تو پورا ہال کھڑے ہوکر تالیاں بجانے لگا۔
اس پذیرائی کو انگریزی میں Standing Ovation کہتے ہیں جس کا ترجمہ جمیل جالبی نے کھڑتالی کیا ہے۔ گیت کے بول، نیّرہ کی سُریلی آواز جسے دِلوں میں اُتر گئی تھی، ہم نے دیکھا بعض خواتین شدت جذبات سے رو پڑیں، آنکھوں سے آنسو رواں، چہرے پہ تمتماہٹ اور خوب تالیاں، نیّرہ تو بس چھا گئیں، گیت کونسا تھا یہ آپ یقیناً جاننا چاہتے ہوں گے، تو ہم بتلا دیتے ہیں، وہ تھا مشہور ملی گیت’’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘‘۔ نیّرہ نے کُل تین گانے گائےاور رُخصت لی۔ لوگ Once more چیختے رہے، تالیاں بجاتے رہے مگر انہوں نے مائیک رکھ دیا۔
ہمیں حیرت ہوئی، اُن سے پوچھا کہ کیوں اتنی مختصر انٹری دی، لوگ اصرار کررہے تھے، آپ کو سُننا چاہ رہے تھے۔ اُنہوں نے متانت سے جواب دیا کہ تین بھی بہت ہیں، معین اختر تو کہتے ہیں بس دو گانے گایئے اور اجازت لیجئے، لوگوں کا اصرار رہے، تشنگی برقرار رہے، Once moreکی آوازیں آتی رہیں تو اچھا ہے ورنہ عموماً فنکار اسٹیج پہ جاکے بھول جاتے ہیں کہ کتنے گانے گائے اور کتنا وقت لیا۔ ہمیں اُن کی بات اچھی لگی۔ اُن کے گانوں کا انتخاب بھی خوب تھا۔ ویسے تو انہوں نے جتنے بھی گیت گائے، سب ہی مقبول ہیں لیکن ملی گیت سے پرفارمنس کا آغاز کرنا بہت مناسب بات ہے۔
وطن کی مٹی گواہ رہنا بہت مشہور گیت ہے، نیرہ نور نے فلم فرض اور ممتا کے لیے بھی ایک ملی گیت گایا تھا جس کی موسیقی ایم اشرف نے ترتیب دی تھی، گانے کے بول تھے، ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘۔ نیرہ نور کا تعلق کسی موسیقی گھرانے سے نہیں تھا لیکن اُن کی آواز اور اُن کا فن اتنا باکمال تھا کہ ہر کوئی اُن کی صلاحیتوں کا معترف تھا۔ انہوں نے ملی گیت، فلمی گیت، نظمیں، غزلیں گائیں اور بہت نام کمایا۔
ابتدا میں جب نیرہ نور ٹیلی وژن پر آئیں تو اتفاق ہے کہ اُن کا ہیئر اسٹائل اور بیٹھ کے گانے کی وجہ سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی کہ خدانخواستہ اُن کے کان کے پاس کوئی سیاہ نشان ہے جسے چُھپانے کے لیے یہ ہیئر اسٹائل بنایا ہے، یا وہ بیمار ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ نہ تو نیرہ نور کے چہرے پہ کوئی نشان تھا نہ وہ بیمار تھیں۔ لوگوں میں آگہی کی کمی تھی، اسی باعث بلاوجہ کی قیاس آرائیاں ہوئیں۔
پرانے وقتوں میں نہ تو میڈیا کا پھیلائو ایسا تھا جیسا کہ آج ہے، نہ ہی اتنا شعور و آگاہی۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ ماضی میں جیسے بے مثال گیت تخلیق ہوئے، جیسے ڈرامے پیش کیے گئے، جیسا کام ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔
نیرہ نور نے ٹیلی وژن ڈراموںکے علاوہ فلموں کے لیے بھی پس پردہ گلوکاری کی، اُن کے فلمی گیت آج بھی سدابہار ہیں۔ شہرۂ آفاق فلم آئینہ کے لیے گائے اُن کے گیت ’’روٹھے ہو تم تم کو کیسے منائوں پیا‘‘ اور ’’مجھے دل سے نہ بھلانا‘‘ آج بھی مقبول ہیں۔ فلم گھرانہ کا گیت ’’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا‘‘ جسے ہر دور میں پسند کیا گیا یا فلم آس کا گیت جو شبنم پہ فلمایا گیا’’بول ری گڑیا بول ذرا‘‘ سب کو یاد ہیں۔ تُو ہی بتا پگلی پون جو فلم پھول میرے گلشن کا کے لیے تھا، ٹوٹ گیا سپنا اور دیگر بے شمار گیت ہیں جو نیرہ نور نے خوبصورتی سے گائے۔
اُن کی آواز میں اتنا رچائو تھا، اتنی مٹھاس تھی، جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انہوں نے ناصر کاظمی، احمد شمیم، مومن خان مومؔن، اختر شیرانی اور ابنِ انشا سمیت انہوں نے فیض احمد فیض اور مرزا غالب کا بھی کلام گایا۔
جلے تو جلائو گوری، کبھی ہم خوبصورت تھے، پھر ساون رُت کی پون چلی، وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، اے جذبۂ دل گر میں چاہوں جیسے شہرۂ آفاق رسیلے، کانوں میں رَس گھولتے اور میٹھے، سچے سُروں میں ڈھلے موسیقی کے خزانے کو ہر کوئی عزیز رکھتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل شہر کے ایک معروف تاجر کی رہائش گاہ پہ عشائیہ اور محفل موسیقی کا اہتمام تھا جس کے مہمان خصوصی اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے۔ ان کی فرمائش تھی کہ نیرہ نور کی غزل ’’اے جذبہ دل گرمیں چاہوں‘‘ گائی جائے۔ گلوکارہ نے بتلایا کہ یہ غزل اسے یاد نہیں تاہم وہ کوشش ضرور کرے گی۔ مہمانِ خصوصی کا بہت اصرار تھا کہ جتنی بھی یاد ہے گادیں۔
پاکستان ٹیلی وژن کے لیے نیرہ نور کی بہت خدمات ہیں۔ اُنہوں نے ڈراموں کے لیے بھی گلوکاری کی۔ اُن کی آواز نے ڈراموں کی پروڈکشن میں چار چاند لگائے۔ ساحرہ کاظمی اور راحت کاظمی کا مشہور ڈرامہ سیریل ’’تیسرا کنارا‘‘ جس میں نیرہ نور کی آواز میں گائی نظم ’’کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘ نے ڈرامے کے تاثر کو جلابخشی۔
3؍نومبر 1950 کو آسام میں پیدا ہونے والی نیرہ نور آج اِس دُنیا میں نہیں لیکن ان کی آواز ہمیشہ ہماری سماعتوں میں رَس گھولتی رہے گی۔
نیرہ نور کے گائے ہوئے مشہور نغمے اور گیت و غزلیں
پاکستان کی لیجنڈ گلوکارہ نیرہ نور کے نغمے ان کے گیت و غزلیں ان کے ترانے لازوال ہیں اور ان کی آواز دلوں میں گونجتی ہے اور وہ اپنی خوبصورت آواز سے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ ان کے مشہور گیتوں میں تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں پلکیں بچھا دو ں اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے روٹھے ہو تم تم کو کیسے منائوں پیا مجھے دل سے نہ بھلانا چاہے روکے یہ زمانہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ٬ بول ری گڑیا بول ذرا اے عشق ہمیں برباد نہ کر پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے ‘وطن کی مٹی گواہ رہنا گواہ رہنا‘‘ جیسے شاہکار فن پارے شامل ہیں۔ ان کی گائی ہوئی بے شمار غزلوں میں احمد شمیم کی یہ نظم بہت مقبول ہوئی۔
کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی
خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے
لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ
آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
امی تتلیوں کے پر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت
رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو