دُنیا میں خوراک کی کمی کا مسئلہ سنگین تر ہوتا جا رہا ہے، غور فرمائیں کہ آج کی ترقّی یافتہ دُنیا میں تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ کے لگ بھگ افراد رات بھوکے سوتے ہیں۔ اس اَلمیہ کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس زراعت کے لئے زمین میسر نہیں ہے یا خوراک کی خریداری کے لئے پیسے نہیں، غربت کے مارے ان انسانوں کے لئے اقوام متحدہ کے عالمی ادارے خوراک کی کمی کو دُور کرنے کے لئے ایک خصوصی فنڈ قائم کر چکے ہیں، مگر اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا ہے۔
ماہرین، زرعی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سب سے سنگین مسئلہ دُنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے، اس وجہ سے خوراک کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے میں عملی دُشواری پیش آ رہی ہے۔ افریقی سب صحارا کے ممالک سمیت مزید افریقی، مشرق بعید اور جنوبی ایشیا کے ممالک آبادی میں اضافہ کے ذمہ دار ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان ممالک میں غربت سماجی ڈھانچہ اور طرز معاشرت آبادی میں اضافہ کا سبب ہیں۔
ماہرین کو یہ بھی شکوہ ہے کہ بیش تر ممالک کے مذہبی رہنما جو سائنسی علوم سے نابلد ہیں اور اپنے اپنے راسخ عقیدوں کا زور شور سے پرچار کرتے ہیں۔ قدرت نے انسان کو دو ہاتھ اور مُنہ دیا ہے۔ خوراک کی کمی میں کوئی کمی نہیں ہے محض ذخیرہ اندوزوں کا پروپیگنڈہ ہے، قیمتوں میں اضافہ کرنے کے بہانے ہیں۔ اس میں ایک حد تک سچائی ضرورہے، یہ نظریہ غلط ہے۔ اناج کی پیداوار میں کمی کا ذمہ دار بڑی حد تک انسان ہی ہے اور باقی قدرتی ہے۔ اس میں بھی کسی حد تک انسان کی کوتاہی کا دخل ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں شمالی امریکہ کی جنوبی ریاستیں جن میں ٹیکساس بہت نمایاں ہے وہاں فاضل گندم کو نذرِ آتش کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح ہزاروں ٹن گندم آگ کی نذر ہو جاتا تھا، اس کے پس منظر میں یہ نظریہ کارفرما تھا کہ منڈی کے بھائو مستحکم رہیں اور فاضل گندم مارکیٹ میں آنے سے گندم کے دام کم ہو جائیں۔ اس طرح سفاکانہ سرمایہ دار اپنے نفع کی خاطر لاکھوں افراد کوبھوکا رہنے پر مجبور کرتے تھے۔ بعدازاں اس پر شدید احتجاج کے بعد روش تبدیل ہوئی۔
ایک دور میں پنجاب کو اناج کا گودام کہا جاتا تھا مگر اس کی زرخیز زمین بھی آبادیوں کی آبادکاری اور تعمیرات کے حوالے سے شدید متاثر ہوئی۔ پانچ دریائوں کی زمین کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ انگلستان کو بھی پال رہا تھا۔مگر پہلی اور دُوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کو اسمگل کر دیا گیا۔ کلکتہ کے گودام خالی ہوگئے لاکھوں بنگالی قحط کی نذر ہو گئے۔ یہ انگریز اور بعض لالچی ہندوستانی تاجروں کی مکروہ حرکت تھی۔ اس تمام واقعہ کو تاریخ میں بدترین قحط سے یاد کیا جاتا ہے۔
کلکتہ اور اطراف کے علاقوں میں قحط سے ہلاک شدگان کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ حرص اور لالچ انسان کو اس حد تک گرا دیتی ہے جس سے دُنیا کانپ کر رہ گئی۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا بڑا عمل دخل بتایا جاتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے دیگر علاقوں میں ظلم ڈھائے وہ بہت قابل مذمت اور قابل ملامت ہیں مگر بنگال میں جو ظلم و ستم کے سلسلے روا رکھے وہ المناک اور اذیت ناک داستان ہے۔
انگریزوں نے برطانیہ کو اناج خصوصاً گندم کی فراہمی کے لئے کراچی کی بندرگاہ کو ترقّی دی، لاہور سےکراچی تک ریلوے لائن بچھائی۔ اس طرح کراچی برطانیہ کو گندم فراہم کرنے کا مرکز بن گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک میں یوں بھی اناج کی کمی شدّت اختیارکر رہی تھی۔ دُوسری جانب افریقی ممالک، مشرق بعید اناج کی کمی کا شکار ہو رہے تھے۔
اس حوالے سے امریکہ نے بیش تر ممالک کو اناج فراہم کر کے یورپ کو خوفناک قحط سے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ مگر دُوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی جنگ میں شرکت کے بعد خطّہ میں اناج کی کمی شدّت اختیار کر گئی اور مہنگائی نے گویا عوام پر قیامت ڈھا دی تھی۔ خاص طور پر جرمنی، آسٹریا، بیلجیم، اٹلی اور اسپین کا بُرا حال تھا۔
پچاس، ساٹھ اور ستّر کے عشروں میں ایک حد تک اناج کی پیداوار میں استحکام پیدا ہوا۔ مگر ستّر کے عشرے کے بعد قدرتی ماحولیات میں بگاڑ کی ابتدا تیز ہوئی جس سے پیداوار پر بھی اس کے اَثرات مرتب ہوئے۔ بیسویں صدی میں ستّر لاکھ سے سوا کروڑ تک افراد صرف قحط سالی کی وجہ سے ہلاک ہوئے ان میں نصف تعداد چینیوں کی تھی۔ چین میں اُنیس سو ساٹھ کے عشرے میں تیس لاکھ سے زائد افراد قحط سالی، کم خوراک کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
افریقی ملک صومالیہ میں سب سے زیادہ قحط پڑے، چاڈ دُوسرے نمبر پر رہا جہاں کئی لاکھ افراد ہلاک ہوئے جن میں بچّوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ورلڈ ڈیٹا رپورٹ کے مطابق دُنیا میں قحط سالی، کم خوراک عام سی بات ہے۔ خشک سالی، آپس کے شدید تنازعات اور موسمی تغیرات اناج کی پیداوار میں رُکاوٹ بنتے ہیں اور خطّوں میں خوراک کی شدید کمی کی وجہ سے اموات ہوتی رہی ہیں۔
سال 2021ء میں سب صحارا اور جنوبی افریقہ خوراک کی کمی کا سب سے زیادہ شکار رہے۔ ان کے علاوہ برونڈی، کیمرون، کانگو، صومالیہ، اریٹیریا، شام اور یمن بھی زیادہ متاثر ہوئے۔ یمن میں جاری شورش کی وجہ سے خوراک کی کمی شدّت اختیارکررہی ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان بھی خوراک کی کمی سے شدید متاثر ہے۔ تاہم اناج کے اسمگلر اس کمی کومُنہ مانگے دام پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دُنیا کے 198ممالک میں بیس ایسے ممالک بھی شامل ہیں جہاں قحط سالی تو نہیں ہے مگر خوراک کی کمی محسوس کی جاتی ہے ان بیس ممالک میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں۔جاری سال میں بارشوں اور سیلابوں کی شدّت سے فصلوں کو بہت نقصانات ہوئے اور خدشہ ہے کہ آئندہ دنوں میں اناج کی قلت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے عالمی صحت کی ایک جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال 6 کروڑ افراد خوراک سے بیمار ہو جاتے ہیں جس کو فوڈ پوائزن کہتے ہیں، ان میں تین سے چار لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس طرح روزانہ ہزار افراد ناقص خوراک کی وجہ سے بیمار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ادارۂ عالمی صحت کے ان اعداد و شمار میں زیادہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ دُنیا میں روزانہ پکی ہوئی خوراک کا ایک بڑا حصہ کوڑے دان کی نذر ہو جاتا ہے۔ ویسٹیڈ خوراک لاکھوں افراد کا پیٹ بھر سکتی ہے۔ مگر اب بھی بیش تر افراد کو خوراک کی اہمیت کا احساس نہیں۔ اکثر دعوتوں میں خوراک کی اس طرح بربادی دیکھی جاتی رہتی ہے۔ درحقیقت یہ انسانی حرص اور طمع ہے جو دُوسروں کا حق مارتی اور ضائع کرتی ہے۔
معذرت کے ساتھ مغربی ممالک میں یہ روش کم کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ مگر ترقّی پذیر ملکوں میں عام افراد خوراک کی کمی کے باوجود اس کی وہ قدرنہیں کرتے جو ضروری اور لازمی ہے۔ اس کا مظاہرہ آپ دعوتوں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ کھانا کھا کر بچانا اور اس خوراک کو کچرے میں پھینک دینا انتہائی غلط روش ہے۔ خوراک کا احترام ضروری ہے، انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جبکہ حالیہ دور بے شمار مسائل اور مصائب کا دور ہے۔ خوراک کی کمی کا مسئلہ دُنیا میں گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔
خوراک کے حوالے سے ادارۂ عالمی خوراک نے چاول کھانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ بتائی ہے۔ اس حوالے سے دُنیا میں سب سے زیادہ چاول استعمال کرنے والے ایشیا میں ہیں جو 17 فیصد افراد چاول کھاتے ہیں، 9 فیصد افراد جنوبی امریکہ اور افریقہ و دیگر علاقوں میں 8فیصد چاول استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد گیہوں کا استعمال سب سے زیادہ ہے یعنی 16 فیصد کے لگ بھگ پھر مکئی کا استعمال تیسرے درجے پر ہے جو تقریباً 5.5 فیصد ہے۔
غذائی اشیا میں اناج کے علاوہ آلو، پیاز، مرغی کا گوشت، انڈے اور دیگر سبزیاں شامل ہیں۔ خوراک کی قلّت کا سب سے زیادہ بچّے شکار ہیں۔ عالمی ادارۂ خوراک کے جائزہ کے مطابق فلسطین میں خوراک کی قلت زیادہ ہے۔ بعض غیرسرکاری تنظیمیں فلسطین میں تیار شدہ خوراک (پکی ہوئی) تقسیم کررہی ہیں مگر یہ ساری جدوجہد مسئلہ کا حل ہرگز نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر خوراک کی فراہمی ضروری ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قلت جان بوجھ کر پیدا کی جا رہی ہے تا کہ فلسطینیوں کی تحریک کمزور پڑ جائے۔
اس کے علاوہ میانمار میں بھی خوراک کی کمی شدّت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ فوج جنتا کے تمام ذرائع پر قابض ہے اور جان بوجھ کر عوام کو مصائب اور مسائل میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دُنیا میں آئندہ برسوں میں خوراک کی کمی شدّت اختیار کر سکتی ہے ان کا دعویٰ ہے کہ حالیہ دنوں میں برطانیہ میں خشک سالی اور گرمی کی شدّت نے دُنیا کو خبردار کر دیا ہے کہ گلوبل وارمنگ میں کمی کرنا، ماحول دوست اقدام کرنا اور موسمی تغیرات کی روک تھام کے لئے دُنیا کو سائنس دانوں کی باتوں اور تجاویز پر کان دھرنا ضروری ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں کانگریس نے ماحولیات میں بہتری لانے کے لئے پبلک ٹیکس عائد کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔ اس طرح دیگر ممالک کو بھی اس کی تقلید کرنا ہوگی۔ پوری دُنیا کو بلکہ ہر فرد کو اس عظیم جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ تاریخ کی ایک عظیم جدوجہد ہے۔
ترقّی پذیر ممالک کا مسئلہ تمام عالم کے لئے تشویش ناک ہے۔ غربت کی وجہ سے بیش تر ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جس سے قدرتی ماحول کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ تاہم امریکی کانگریس کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔ اس طرح امریکہ اور یورپی ممالک اور جاپان، آسٹریلیا وغیرہ کو دُنیا میں خوراک کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بھی کوئی ٹھوس اقدام اُٹھانا چاہئے۔
خوراک کے حوالے سے ماہرین دُنیا کو دو زون میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا چاول زون، دُوسرا گندم زون۔ چاول زون میں چین، بھارت، انڈونیشیا، فلپائن، کمبوڈیا، لائوس، جاپان وغیرہ سمیت کچھ افریقی مشرق وسطیٰ کے ممالک شامل ہیں ان میں پاکستان کو کسی حد تک شمار کیا جا سکتا ہے جبکہ گندم استعمال کرنے والوں کے زون میں امریکہ، یورپی ممالک، جنوبی ایشیائی، افریقی، لاطینی امریکی اور مشرق وسطیٰ کی ریاستیں اور پاکستان وغیرہ کو شمار کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ مکئی کا استعمال بھی بہت ہے۔ حال ہی میں گلاسکو اور نیروبی کینیا میں ماحولیات کے حوالے سے ہونے والی عالمی سربراہ کانفرنسوں میں ایک خاص سیشن خوراک کے بحران کے حوالے سے بھی منعقد ہوا تھا جس میں سائنس دانوں اور ماہرین نے خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے حوالے سے مختلف تجاویز پیش کی تھیں ان میں چند تجاویز پر کام ہو رہا ہے۔
درحقیقت سب ہی کو گلوبل وارمنگ کے حوالے سے شدید تشویش ہے ان سب کی رائے میں دُنیا میں خشک سالی کا محرک بھی یہی ہے۔ حال ہی میں برطانوی ماہرین نے برطانیہ میں ہونے والی خشک سالی پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ خوراک کے حالیہ بحران کی وجہ یوکرین اورروس سے گندم کی فراہمی میں رُکاوٹوں اور جنگ کی وجہ بھی ہے۔
عالمی سطح پر اناج کی پیداوار میں چین، امریکہ، روس، بھارت، کینیڈا، فرانس، اسپین کا حصہ زیادہ ہے۔ پاکستان نے اناج کی پیداوار میں چند برسوں میں زیادہ بہتری دکھائی ہے۔ پاکستان کے چاولوں کی دیگر ممالک میں خاص مانگ ہے تاہم آبادی میں اضافہ کی رفتار پر قابو پانا ترقّی پذیر ممالک کے لئے بہت ضروری ہے۔ سال 2022ء کے اعداد و شمار کے لحاظ سے دُنیا میں آبادی میں اضافہ کی رفتار 1.2ہے جبکہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں آبادی کی رفتار 1.3 ہے تاہم سرکاری ذرائع اس کی تصدیق کرتے یا تردید کرتے دکھائی نہیں دیتے۔
خوراک کے عالمی مسئلہ سے نمٹنے کے لئے پاکستان نے کمر کس لی ہے۔ مگر دو ماہ قبل پاکستان اور بھارت کے شمال مغربی علاقوں میں دُھواں دھار بارشوں نے جو سیلابی صورت حال پیدا کر دی ہے اس میں ہزاروں ایکڑ زمین زیر آب آگئی، گائوں، مویشی، دیہی باشندے ان سیلابوں کی نذر ہوگئے۔ کھڑی فصلیں موسلادھار بارشوں سے شدید متاثر ہوئیں۔ ایسے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ خوراک کی پیداوار متاثر ہوگی اور اس کا قیمتوں پر بھی منفی اثر پڑے گا، کچھ ایسی ہی صورت حال بھارت کے شمالی علاقوں کی ہے۔
جیسا کہ بالائی سطور میں عرض کیا گیا تمام مسئلہ گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات کا ہے۔ پرانے وقتوں میں بارش کم ہونے، ٹڈی دل کے حملوں اور سیلابی صورت حال وغیرہ کی صورت میں غلّہ کی پیداوار میں کمی سے قحط پڑتے تھے۔ بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے تباہی آتی تو قحط کی صورت حال پیش آتی۔ مگر اب موسمی تغیرات اور زمین کی حدّت میں اضافہ زراعت پر بُری طرح اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے دُنیا میں غذائی قلّت پیدا ہو رہی ہے، حالانکہ زرعی پیداوار میں اضافہ کے لئے بیش تر زرعی دوائیں موجود ہیں جن کا استعمال عمل میںآتا ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زرعی دوائوں کی وجہ سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔
پاکستان میں ساٹھ کی دہائی میں گیہوں کی پیداوار میں اضافہ کے لئے پاکستانی گندم کے ساتھ میکسیکو کے گندم کا ملاپ کرنے کا تجربہ کیا گیا تھا اور بازار میں میکسی پاک گندم متعارف ہوا۔ پاکستان کا خطّہ تاریخی اعتبار سے زرعی خطّہ رہا اور ہندوستان کو گندم چاول وغیرہ فراہم کرتا رہا۔ اب اس خطّہ کی زمین بار بار کئی بار کی کاشت کاری کے بعد اپنی قوت پیداوار کم کر چکی ہے جس کو زرعی ادویات سے پورا کیا جاتا ہے۔ درحقیقت سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کا کاشتکار محنتی اور زراعت کا خاصا تجربہ رکھنے والا کسان ہے۔
اگر حقیقی معنی میں زرعی اصلاحات عمل میں آئیں تو ملک میں اناج کی پیداوار میں وافر اضافہ ہو سکتا ہے مگر ملک میں جاگیرداری اور زمینداری کا پرانا نظام لاگو ہونے کی وجہ سے اصلاحات ممکن نہیں ہیں۔ اجارہ داریاں قائم ہیں۔ زرعی ادویات مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ کھاد بھی مہنگی ہے۔ کہیں کہیں پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی ہے۔ دُنیا کے بیش تر علاقوں میں صورت حال زیادہ نازک ہے۔
عالمی ادارۂ خوراک کے ماہر وین سین نے خوراک کے مسئلے پر اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا کہ اگر دُنیا میں خوراک کا مسئلہ تشویش ناک ہو جاتا ہے خوراک کی کمی انسانی جانوں کے لئے خطرہ بن جاتی ہے تب دو فیصد سمندری کائی جھاڑیاں اس مسئلے کو اور دُنیا کے آٹھ ارب انسانوں کو خوراک فراہم کر سکتی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ اناج کے علاوہ سمندری حیاتیات سے دُنیا کے 14 فیصد عوام اپنی بھوک مٹاتے ہیں دُوسرے لفظوں میں چودہ (14) فیصد سے زائد عوام کی اہم غذا سمندری حیاتیات ہے۔ عالمی ادارۂ خوراک آئندہ وقتوں کے لئے نت نئے تجربات پر کام کر رہا ہے۔ تاہم جاری حالات میں بیش تر افریقی، لاطینی امریکی عوام کی نمایاں تعداد غذائی اور پینے کے صاف پانی کی قلّت کا شکار ہیں۔ اچھا ہوگا ماہرین ہر سال لاکھوں بچوں اور بالغ افراد کو اس عذاب اور گھمبیر مسئلے سے نجات دلائیں جو ہر سال اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ بہت اہم ہے وہ اناج کی دیکھ بھال اور کیڑوں وغیرہ سے بچائو کا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں اناج کی دیکھ بھال کا پورا پورا خیال کرتی ہیں اور اناج کو کیڑوں اور نمی سے بچائو کے جدید طریقے اپناتی ہیں۔ بصورت دیگر گندم، چاول اور دیگر اناج پر پھپھوند لگنے اور کیڑے لگنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں دیہی علاقوں میں آمد و رفت کے لئے معیاری سڑکوں اور نقل و حمل کے ذرائع کی کمی کی وجہ سے بیش تر دُور دراز علاقوں کے پھل فروٹ سبزیاں بروقت منڈیوں تک رسائی حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ سال بھی کینو کی فصل اچھی ہوئی مگر پچیس تا تیس فیصد کینو کہا جاتا ہے نقل و حمل میں تاخیر کے سبب ضائع ہوگیا۔
اربابِ حلّ و عقد کو اس اہم مسئلہ پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور زرعی پیداوار کی دیکھ بھال کے لئے سہولتیں فراہم کرنا چاہئے۔ بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ اور دیہی علاقوں میں بہتر سڑکوں کا ہے تا کہ نقل و حمل میں آسانی ہو سکے اور پیداوار بروقت منڈیوں تک پہنچ سکے۔ مگر افسوس کہ ہم اہم مسائل کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، فروعی مسائل کو زیادہ اُجاگر کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ عالمی ادارۂ خوراک سمیت دُنیا کی اہم غیرسرکاری تنظیمیں خبردار کر رہی ہیں کہ موسمی تغیرات اور کرّۂ اَرض کے قدرتی ماحول میں بگاڑ کے سبب دُنیا کے بیش تر خطّوں میں خشک سالی اور قحط کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اناج مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ دُوسری طرف آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ایسے ملکوں کو اس اہم ترین مسئلے سے نمٹنے کے لئے پالیسیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے جس طرح کووڈ19- نے دُنیا بھر میں ایک تشویش ناک صورت حال پیدا کر دی تھی۔ ایسی صورت حال افریقہ کے بیش تر غریب ترین ممالک کے عوام کو سال ہا سال سے درپیش ہے۔ ایسے میں اسکاٹ لینڈ کے انسان دوست گروپ نے سال 2000ء میں میریز مِیل (Marry's Meal)کے نام سے غیرسرکاری تنظیم قائم کی جس کا بنیادی مقصد غریب ترین ممالک کے اسکولوں کے بچّوں کو خوراک فراہم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں میریزمیل نے افریقہ کے غریب ترین ملک ’مالی‘ کے ایک اسکول کے دو سو بچوں کو پیک خوراک کے ڈبّے تقسیم کئے۔ اب میریز میل کو اپنی فلاحی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے بیس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں اور یہ تنظیم افریقہ سمیت دیگر ممالک میں مشہور ہے اور بڑے بڑے ادارے اس گروپ کی مالی مدد کرتے ہیں اس تنظیم نے اپنے کاز اور مخلصانہ جدوجہد کی وجہ سے عوام کا اعتماد حاصل کیاہے۔ اس مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے دُنیا کے بڑے ادارے اور مخیّر شخصیات بھی ایسا کچھ کر سکتے ہیں۔ ویسے مغربی دُنیا کے مختلف معروف شخصیات اور مخیّر ادارے دیگر فلاحی امور کی تکمیل کے لئے مالی امداد دیتےہیں اس میں وہ کوتاہی نہیں کرتے۔ یہی جذبہ انسان کو دِلی سکون اور مسرت فراہم کرتا ہے۔