تفہیم المسائل
سوال: میں اپنے یوٹیوب چینل پر گاڑیوں کے مکینیکل کام اور پارٹس بننے کی وڈیوز چلاتا ہوں، اشتہارات کے ذریعے اس میں آمدنی حاصل ہوتی ہے، اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 55فیصد حصہ چینل کے مالک کو دیا جاتا ہے۔ یوٹیوب نے اپنے صارفین کو جتنا اختیار دیا ہے، اس کے مطابق میں نے حرام اشیاء کے اشتہارات بند کردیے ہیں، اس کے باوجود جائز اشیاء کے اشتہارات میں بھی ماڈل خواتین اور میوزک شامل ہوتا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ اس طرح یوٹیوب سے حاصل ہونے والی آمدنی جائز ہے ؟ ( محمد سہیل ،تلہ گنگ، چکوال)
جواب: ٹیلی ویژن ، فیس بک اور سوشل میڈیا کا مثبت اور منفی دونوں طرح کا استعمال ہوسکتا ہے ، مقاصدِ خیر کے لیے ان کا استعمال جائز اور مباح ہے، واجب اور لازم نہیں ہے ،حرام اُمور کے لیے ان اشیاء کا استعمال حرام ہے۔ سوشل میڈیا اور جدید سائنٹیفک ذرائع ہوں یا عام معاشرتی زندگی میں میل جول محرمات کو دیکھنے سے اجتناب لازم ہے ۔حدیث پاک میں ہے :(۱)ترجمہ:’’ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے(اجنبی عورت پر) اچانک نظر پڑجانے کے متعلق پوچھا ،آپ ﷺنے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی آنکھ فوراً پھیرلوں،(سُنن ترمذی:2776)‘‘۔
(۲)ترجمہ:’’ حضرت بریدہؓ اپنے والد سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اجنبی عورت پر ایک بار نظر پڑنے کے بعد دوسری بار دیکھنا جائز نہیں ہے، پہلی نظر (غیر ارادی )ہونے کی بناءپر جائز ہے اور دوسری نظر (ارادی ہونے کی بناءپر) ناجائز ہے ، (سُنن ترمذی: 2777)‘‘۔
اگر آپ کے چینل پر چلانے جانے والی ڈاکومینٹری وڈیو میں محرمات نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں ، چونکہ یہ ایک عالمی ادارہ ہے اور دنیا بھر میں دکھائی جانے والی نشریات میں وہاں کے ماحول کے مطابق اشتہار چلائے جاتے ہیں، اکثریتی ممالک میں حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر وڈیو اَپ لوڈ کرکے پیسے کمانا اگر مکمل حرام قرار نہ دیاجاسکتا ہو ،تو مُشتبہ ضرور ہوگا ،رزقِ حلال کا حصول اور اکلِ حلال فرض ہے ،حدیث پاک میں ہے: ’’ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رزق کا حلال ذریعہ تلاش کرنا ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے ،(اَلسُّنَنُ الْکُبْریٰ لِلْبَیْہَقِی :11695)‘‘۔
حلال ذرائع اختیار کرنا اور حرام سے بچنا اور مشتبہات سے بچنا بھی لازم ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’ حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی)ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ اُمور مُشتبہ ہیں، جن کا بہت سے لوگوں کو علم نہیں ہے، سوجو شخص شبہات سے بچا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا اور جس شخص نے اُمور مشتبہ کو اختیار کرلیا، وہ حرام میں مبتلا ہوگیا، جس طرح کوئی شخص کسی ممنوع چراگاہ کے گرد جانور چرائے تو قریب ہے کہ وہ جانور اس چراگاہ میں بھی چرلیں ،سنو ! ہربادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں،(صحیح مسلم:1599)‘‘۔
آپ نے لکھا ہے: ’’ آپ اپنے یوٹیوب چینل پر گاڑیوں کے مکینیکل کام اور پارٹس بننے کی وڈیوز چلاتے ہیں، ظاہر ہے جو لوگ فاصلاتی ذرائع سے گاڑیوں کا کام سیکھنا چاہتے ہیں، وہ آپ کے چینل کو وزٹ کرتے ہیں، آپ کی اسپیس پر گوگل کمپنی والے اشتہارات چلاتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 55 فیصد بطور چینل مالک آپ کو دیتے ہیں اور 45 فیصد خود رکھتے ہیں‘‘۔پس یہ عقدِ اجارہ ہے،علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابو بکر فرغانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اجارہ ایک عقد ہے جو معاوضہ کے بدلے کسی منفعت پر کیا جائے، اس لیے کہ اجارہ لغت میں منافع کی بیع ہے ،(ہدایہ،جلد:3، ص: 230)‘‘۔
شرائطِ اجارہ میں ایک شرط یہ ہے کہ اُجرت معلوم ہو، یہاں اُجرت مجہول ہے، اگر اُجرت مجہول ہو تو اجارہ فاسد ہوجاتا ہے، علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’( اجارہ میں) کبھی کام کی مقدار مجہول ہونے کی وجہ سے فاسد ہوتا ہے، بہ ایں طور کہ کام کی جگہ معلوم نہ ہو اور کبھی منفعت کی مقدار کے مجہول ہونے کی وجہ سے فاسد ہوجاتا ہے، اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اجارہ کی مدت نہ بیان کرے اور کبھی بدل یعنی اُجرت کے مجہول ہونے کی وجہ سے فاسد ہوجاتا ہے اور کبھی ایسی شرط کی وجہ سے بھی اجارہ فاسد ہوجاتا ہے جو مقتضائے عقد کے خلاف ہو،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد1، ص:439)‘‘۔
ہمارے فقہائے کرام عقود میں اس جہالت کو ناجائز کہتے ہیں ، جو’’ مُفضِی اِلَی النّزاع ‘‘ہو یا جس کے باعث عقد کے فریقین میں تنازع پیدا ہوسکتا ہے، لیکن جہاں آگے چل کر جہالت رفع ہوجائے اور وہ باعثِ نزاع نہ بنے ،وہ عقد جائز ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے گوگل کمپنی کو آپ کی اسپیس پر اشتہارات سے جو آمدنی ہوگی،جب وہ معلوم ہوجائے گی اورآپ کا طے شدہ حصہ آپ کو مل جائے گا تو کوئی نزاع باقی نہ رہے گا۔
یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی گاڑی کرائے پر چلانے کے لیے کسی ڈرائیور یا رینٹ اے کار کمپنی کو کرائے پر دے اور عقد کی شرط یہ قرار پائے کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی نصف نصف یا55فیصد اور 45 فیصد کے تناسب سے تقسیم ہوگی ،تو کوئی نزاع باقی نہیں رہے گا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آپ کے اشتہارات فلٹر کرنے کے باوجود کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو کسی ناجائز مواد (مثلاًفحش تصاویر ) پر مشتمل ہو تو اس کا گناہ چینل مالک کو نہیں ہوگا۔ البتہ ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدنی علیحدہ کرکے اُسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کر دیں۔