تفہیم المسائل
سوال: میں ایک مسجد میں تین سال سے امامت کررہا ہوں، مسجد کی جنازہ گاہ میں ایک جگہ شہید اوراق رکھے ہوئے ہیں، وہیں زمین پر ایک بورڈ رکھا ہوا تھا، جس پر یا اللہ، یارسول اللہ اور اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُولَ اللہ ‘‘ اور مدرسے کا نام اور بچیوں کے لیے دینی تعلیم کا مضمون لکھا ہوا تھا، میں نے اس پر نکاح خواں کا مضمون لکھوانے کے لیے اسے وہاں سے نکال کر گیلری میں رکھ دیا۔
مسجد کے خادم نے اُس کی وڈیو بنائی کہ اس پر مقدس نام تحریر ہیں اور قریب ہی کچرے کا ڈبہ رکھا ہوا ہے، اس وجہ سے امام صاحب گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں، جبکہ میرے وہم وگمان میں بھی ایسا نہیں تھا، میں اس بورڈ کو جس جگہ سے اٹھا کر لایا تھا، وہاں بھی یہ کسی تعظیم کی جگہ پر نہیں رکھا تھا، کیا میرا عمل گستاخی پر مبنی ہے، شرعی اعتبار سے کیاحکم ہے، میری امامت کا کیاحکم ہے؟ ( اخترحسین اشرفی، جامع مسجد عقبیٰ، کراچی)
جواب: اسمائے باری تعالیٰ و اسمائے رسول اللہ ﷺ کے لکھے جانے کا مقصد عموماً حصولِ برکت ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی ادب کے تمام تر تقاضوں کا ملحوظ رکھنا بھی بے حد ضروری ہے، قرآنی آیات ہی نہیں، بلکہ حروفِ تہجی کا احترام بھی لازم ہے اور کسی نجاست والے مقام پر نہیں لکھنا چاہیے۔
سڑکوں اور چوراہوں پر آیاتِ قرآنی ،کلماتِ طیّبات تحریر کرنے میں حد درجہ احتیاط لازم ہے کہ کہیں ذرّہ بھر بے ادبی کا شائبہ بھی نہ رہے، علّامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ہمارے ہاں حروف کی بھی حُرمت وعزت ہے ،اگرچہ وہ حروفِ تَہَجّی ہوں، (ردّالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد1،ص:340)‘‘۔
کراہت صرف ان حروف کی بے ادبی ہونے کی صورت میں ہے ،علّامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اوراگر قرآن کریم (کا کوئی حصہ) دیواروں اور چار دیواری پر لکھا جائے تو بعض فقہائے کرام نے کہا: جواز کی امید کی جاسکتی ہے اور بعض نے اسے مکروہ کہاہے کہ مبادا (اُن کی کھرچن )زمین پر گرے اور لوگوں کے قدموں تلے آئے ،جیساکہ ’’فتاویٰ قاضی خان ‘‘ میں ہے ، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد5، ص:323)‘‘۔
علمائے کرام نے تو استعمال شدہ قلم کے تراشوں کو بھی پھینکنے سے منع فرمایا ہے، علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’استعمال شدہ قلم کا تراشا احترام کے سبب(بے ادبی کی جگہ پر) نہ پھینکاجائے، اسی طرح مسجد کا گھاس کوڑا احتیاط کی جگہ ڈالا جائے، کسی ایسی جگہ نہ پھینکیں، جو احترام کے خلاف ہو ،’’قُنیہ‘‘ میں یہ مسئلہ اسی طرح بیان ہواہے، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد5،ص:324)‘‘۔
آپ نے نادانستہ اس عمل کا ارتکاب کیا ہے، توہین کی نیت نہیں تھی، اس لیے گستاخی کا حکم نہیں لگے گا، البتہ آپ توبہ واستغفار کریں، آپ نے لکھاہے کہ مسجد کے خادم نے وڈیو بنائی اور لوگوں میں پروپیگنڈا کیا جبکہ خادم کا تعلق مسجد اور امام سے براہِ راست ہوتا ہے، اُسے چاہیے تھا کہ آپ سے وضاحت طلب کرتا، بلاتحقیق گستاخ قرار دینا جہالت اور بغض وعناد کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آپ پر بھی لازم ہے کہ احتیاط برتیں۔ آپ نے سوال میں لکھاہے کہ پہلے وہ بورڈ مسجد میں کسی تعظیم کی جگہ پر نہیں رکھا تھا، تو بے ادبی کا حکم اُس بورڈ کو وہاں رکھنے والوں پر بھی آتا ہے، خواہ اس میں مسجد انتظامیہ، مؤذّن یا خادم ملّوث ہو۔
آپ کو بھی چاہیے تھا کہ چند روپے بچانے کے لیے مسجد ومدرسہ کے بورڈ کو استعمال کرنے کی بجائے نیا بورڈ بنوالیتے، ان معاملات میں ہمارا معاشرہ انتہائی حساس اور جذباتی ہے، ویسے بھی نکاح خواں کے بورڈ پر مُقدّس کلمات تحریر کرنا کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے، سادہ بورڈ آویزاں کیا جاسکتا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)