• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلاق کے الفاظ کوئی اور نہ سنے تو طلاق کا حکم، نیز طلاق کے وسوسے کا حکم

آپ کے مسائل اور ان کا حل

سوال: اگر کوئی طلاق دے، لیکن اس کے علاوہ کوئی بھی نہ سنے، نہ بیوی اور نہ کوئی بندہ ہو، کیا اس طرح طلاق ہوجاتی ہے؟ اگر طلاق کے وسوسے آتے ہوں؟ حدیث بھی ساتھ لکھ دیں۔

جواب: اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کی طرف نسبت کرتے ہوئے طلاق کے الفاظ کہے تو طلاق ہو جائے گی، خواہ بیوی یا کوئی اور شخص طلاق کے الفاظ نہ سنے، لیکن اگر اس نے طلاق کے الفاظ زبان سے ادا نہ کیے ہوں، صرف طلاق کا خیال آیا ہو، یا تلفظ کے بغیر طلاق کے الفاظ دل دل میں کہے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی، یہ طلاق کا وسوسہ اور خیال ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ خیالات اور وسوسے آنا غیر اختیاری عمل ہے، جس پر انسان کا مؤاخذہ نہیں ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ میری امّت کے لوگوں کے سینوں میں جو وسوسے آتے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ ان سے درگزر فرماتے ہیں، جب تک کہ کوئی شخص اس پر عمل یا اس کے بارے میں گفتگو نہ کرے۔(صحیح مسلم)

لہٰذا مذکورہ شخص کو چاہیے کہ وہ وسوسوں کی طرف بالکل دھیان نہ دے، نہ خود ان کی طرف متوجہ ہو، نہ ہی لوگوں کو بتائے اور نہ ہی ان سے پریشان ہو۔ جس وقت طلاق کا وسوسہ آئے اپنے آپ کو فوراً کسی بامقصد کام میں مشغول کرلے، اور طلاق کے الفاظ پر تلفظ نہ کرے۔ اگر پھر بھی دھیان نہ ہٹے تو "اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِه " ،" لاحولَ ولاقُوةَ الِاّ بِاللّٰه " اور استغفار پڑھنے کا اہتمام کرے۔

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

iqra@banuri.edu.pk

اقراء سے مزید