آپ کے مسائل اور ان کا حل
سوال: جو لوگ بینک میں کام کرتے ہیں یا کسی بھی ایسے فائنانشل سیکٹر میں، جس کے بارے میں آج کل سننے میں آرہا ہے کہ 2027 تک ان کا طریقۂ کار شریعت کے مطابق ہو جائے گا، جیسے کہ کچھ بینک اب اسلامک موڈ (طریقہ کار) پہ کام کر رہے ہیں، کیا ایسی صورتِ حال میں وہاں پر کام کرنا جائز ہے، یا جو ادارے ابھی آگے جا کر 2027 تک اسلامی طریقۂ کار کے مطابق ہو جائیں گے اور ان کے ناموں کی فہرست جاری کی گئی ہےکہ یہ اسلامک بینک یا اس اسلامک ادارہ ہے تو اس میں جاب کرنا صحیح ہے یا نہیں ہے؟ شرعی طور پر راہ نمائی فرمایئے۔
جواب: کسی ملازمت اور اس سے حاصل ہونے والے معاوضے کے جائز یا ناجائز ہونے کا مدارکسب وعمل اور فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے جائز یا نا جائز ہونے پر ہو تا ہے، مروجہ غیر سودی بینکوں یا فائنانشل اداروں کے معاملات اب تک تمویل کے اسلامی احکام سے مکمل طور پر ہم آہنگ اور غیر سودی نہیں ہیں، لہٰذا ایسے اداروں میں ملازمت جائز نہیں۔ اگر مذکورہ ادارے صحیح معنیٰ میں ان شرعی خامیوں کا ازالہ کرکے واقعتًا اسلامی تمویلی احکام کی رعایت کریں تو ان میں ملازمت جائز ہوگی۔
جن بینکوں یا اداروں کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ مستقبل میں اسلامی طریقہ کار کے مطابق تمویل (فائننس) کریں گے، ان کے طریقِ کار کا تفصیلی جائزہ لیے بغیر فی الوقت ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔
بعض علمائے کرام مذکورہ اداروں میں سے بعض اداروں کے معاملات کو جائز سمجھتے ہیں، اور بعض مالیاتی اداروں کا بھی کہنا ہے کہ ہم اپنے معاملات کو ان علمائے کرام کی نگرانی میں انجام دیتے ہیں، اگر کوئی شخص عموماً ان علمائے کرام کے علم و دیانت پر اعتماد کرتے ہوئے پہلے سے ہی ان کے فتاویٰ پر عمل کرتا ہو تو وہ اس مسئلے میں بھی ان اہلِ علم سے معلوم کرکے عمل کرسکتا ہے۔ لیکن جب کسی معاملے کے جائز یا ناجائز ہونے میں علمی اختلاف ہو، گو اجتہادی مسائل میں ہو، تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔
اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
iqra@banuri.edu.pk