پروفیسر ملک محمد حسین
دہلی کی ایک کچی آبادی میں ایک چھوٹا سا پرائمری اسکول تھا اس میں 80؍ بچے زیرتعلیم تھے اور ایک استانی انہیں پڑھانے پر مامور تھی۔ اس دوران دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کے ایک پروفیسر نے ایم اے کے طلبہ کو ایک تحقیقی منصوبہ دیا ،جس میں کچی آبادی کے اسی پرائمری اسکول کا معاشرتی اور تعلیمی دورہ بھی شامل تھا۔ شعبہ عمرانیا ت کے طلبہ نے مذکورہ اسکول کے 80؍طلبہ کا گہرا مطالعہ کیا اور پھر ایک جامع رپورٹ تیار کرکے پروفیسر کو پیش کردی۔ رپورٹ پر بحث کے دوران پروفیسر صاحب نے اپنے طلبہ سے پوچھا۔ ’’ان 80؍بچوں کا مستقبل کیا ہے؟‘‘
طلبہ نے اس بات پر اتفاق کیا۔ ’’ان بچوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ وہ گندے ماحول میں پلیں گے اور پھر اپنے والدین کی طرح عسرث زدہ زندگی گزار کر مر جائیں گے۔‘‘
رپورٹ کی جلد … شعبے کے کتب خانے میں رکھ دی۔
اس واقعے کو بیس سال گزر گئے تو ایک پروفیسر کو مذکورہ بالا رپورٹ دیکھنے کا موقع ملا۔ انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ اس رپورٹ کے نتیجے کا تعاقب (Fpllow up) کیا جائے۔ وہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ کچی آبادی کے پرائمری اسکول کے 80؍بچے اب کس حال میں ہیں۔ چنانچہ پروفیسر صاحب نے اپنی ایم اے کی جماعت کے طلبہ کو یہ تحقیقی منصوبہ دیا کہ وہ دیکھیں 80؍بچے اب کہاں اور کس حال میں ہیں۔ جب یونیورسٹی کے طلبہ مذکورہ کچی آبادی میں پہنچے تو ان 80؍ بچوں کو تلاش کرنے لگے جو اب جوان ہوچکے تھے۔ تلاش بسیار کے بعد انہیں 76؍ نوجوانوں کا سراغ مل گیا صرف چار نوجوانوں کی بابت معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ طلبہ کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ تمام 76؍نوجوان کامیاب اور خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں۔
ان میں سے کچھ ڈاکٹر، کچھ انجینئر، کچھ اکائونٹینٹ جبکہ باقی بھی اعلیٰ پیشوں سے منسلک تھے۔
جب دورے کی تازہ روداد یونیورسٹی پہنچی اور اس کا بیس سال پہلے کی رپورٹ کے نتائج سے موازنہ کیا گیا تو ظاہر ہے بڑی ناقابل یقین صورتحال سامنے آئی۔ اب شعبہ عمرانیات کے پروفیسر کو شک گزرا کہ ہو نہ ہو ان بچوں کی کامیابیوں کے پیچھے ضرور کسی استاد کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے اپنے طلبہ و طالبات کو حکم دیا کہ وہ اس پرائمری اسکول کی استانی کو تلاش کریں۔
طلبہ آخر اس استانی تک پہنچ ہی گئے جو بیس سال پہلے کچی آبادی کے غریب بچوں اور حال کے کامیاب نوجوانوں کو پڑھاتی رہی تھی۔ شعبہ عمرانیات کے سربراہ پھر استانی سے ملنے بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ پروفیسر صاحب نے اس بوڑھی عورت سے پوچھا کہ وہ کس طرح کچی آبادی کے ان غریب بچوں کی زندگی میں انقلاب لانے میں کامیاب ہوئی؟ بیس سال پہلے یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر جا پہنچیں گے۔
سبکدوشی کی زندگی گزارنے والی اس بزرگ استانی نے جواب میں صرف اتنا کہا۔
’’مجھے ان بچوں سے پیار تھا۔‘‘
طلبہ و طالبات کے ساتھ استاد کا پیار کس طرح ان کی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتا ہے، یہ سچی داستان اس امر کا ناابل تردید ثبوت ہے۔بیگم ودیا سنہا سری لنکا کے ایک سرکاری ہائی اسکول میں سنہالی (زبان) کی استانی ہیں جب کبھی ہر سال ان کی جماعت میں نئے بچے آئیں تو وہ پہلے بچوں سے ایک ’’کام‘‘ ضرور کرواتی ہیں آج بھی نئی جماعت میں ان کا پہلا دن تھا۔
بچوں سے تعارف کا مرحلہ ختم ہوا تو بیگم ودیا نے انہیں پہلا حکم یہ دیا۔ ’’اپنی اپنی کاپیوں سے ایک ورق پھاڑیئے اور اس پر پہلی سے لے کر آخری سطر تک یہ جملہ لکھئے۔ ’’میں نہیں کرسکتا۔‘‘
جب سب طلبہ یہ فقرہ لکھ چکے تو استانی نے کہا کہ اپنا اپنا ورق دو دفعہ تہہ کریں اور کونے میں پڑے گتے کے ڈبے میں ڈال دیں۔ سب بچوں نے حکم کی تعمیل کی۔ آخر میں خود بیگم ودیا نے بھی اپنا تہہ کیا ہوا ورق ڈبے میں ڈال دیا۔
اب انہوں نے ڈبے پر چاروں طرف گوند سے سفید کاغذ چپکایا اور اسے بند کردیا پھر ایک طالب علم سے کہا کہ وہ جائے اور مالی سے پھائوڑا یا کدال لے آئے۔
جب کدال آگئی تو استانی نے وہ ڈبا اٹھایا جس میں ’’میں نہیں کرسکتا‘‘ والے ورق ڈالے گئے تھے اور جلوس کی شکل میں سب بچوں کو اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ استانی اپنے طلبہ کو صحن میں لے گئی۔ وہاں اس نے ایک کونے کا انتخاب کرکے تین صحت مند اور مضبوط بچوں سے کہا کہ وہ اس ڈبے کی جسامت کے مطابق گڑھا کھودیں۔
جب گڑھا تیار ہوگیا تو استانی نے چار بچوں سے کہا کہ وہ بڑی احتیاط اور احترام سے گتے کا ڈبا گڑھے میں رکھ دیں۔ باقی بچوں سے کہا کہ وہ ایک ایک مٹھی مٹی گڑھے میں ڈالیں۔ آخر میں کدال کے ذریعے باقی مٹی بھی گڑھے میں ڈال کر ڈبا دفن کردیا گیا اس کے اوپر بچی کھچی مٹی سے قبر بنا دی گئی۔
اب بیگم ودیا نے اس قبر کے اوپر ایک تختی لگائی جس پر لکھا تھا ’’یہ قبر جس شے کی ہے، اس کا نام تھا میں نہیں کرسکتا، تاریخ وفات 10؍اپریل 2000ء‘‘
بعدازاں اسی قبر پر کھڑے ہوکر استانی نے اپنے شاگردوں کو ایک لیکچر دیا جس کا لب لبات یہ تھا۔ ’’ہم نے آج میں نہیں کرسکتا کو اس قبر میں دفن کردیا ہے آج کے بعد ہم میں سے کوئی کسی کام کے سلسلے میں یہ نہیں کہے گا کہ میں نہیں کرسکتا۔‘‘
’’میں نہیں کرسکتا‘‘ کی تجہیز و تکفین کے بعد یہ معمول ہوگیا کہ جب بھی کوئی طالب علم کہتا کہ وہ گھر کا کام نہیں کرسکا یا اسے فلاں سوال نہیں آتا یا وہ یہ سب کچھ نہیں کرسکتا تو بیگم ودیا اسے یاد دلاتی ’’ارے بھئی میں نہیں کرسکتا کو تو ہم دفن کرچکے لہٰذا اب اسے تو الزام نہ دو۔‘‘
اس طرح آہستہ آہستہ پوری جماعت کے تمام بچوں میں خود اعتمادی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی جلد ہی بچوں کا اکتساب علم پہلے سے کہیں بہتر ہوگیا۔
آپ نے دیکھا کہ کس طرح ایک استانی کی جدت پسند سوچ نے ایک عملی سرگرمی کے ذریعے طلبہ کے رویئے اور سوچ میں انقلابی تبدیلی پیدا کر ڈالی۔
ہمارے استاتذہ بھی ان روشن مثالوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔