ہماری زندگی میں ماں باپ کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، خاص طور پر بچوں کی تربیت میں۔ ان کی باتیں ہمیشہ ہماری رہبری کرتی اور حوصلہ بخشتی ہیں۔ وہ بچپن سے زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتی ہیں اور ہر اچھے برے وقت میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتی ہیں۔ ان کے دیئے مشورے کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ موجودہ دور میں نوجوان ماں باپ کی روک ٹوک اور پابندیوں کو بلا جواز سمجھتے ہیں جبکہ وہی ان کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ایسا ہی ایک نوجوان جو اپنے ماں پاپ کی روک ٹو ک سے نالا تھا۔
بڑی دوڑ دھوپ کے بعد وہ آفس پہنچ گیا، آج اس کا انٹرویو تھا۔ وہ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا اے کاش، آج میں کامیاب ہو گیا تو فوراً اپنے پشتینی مکان کو خیر باد کہہ دونگا اور یہیں شہر میں قیام کروں گا امی اور ابو کی روزانہ کی مغزماری سے جان چھڑا لوں گا۔ صبح جاگنے سے لےکر رات کو سونے تک ہونے والی مغز ریزی سے اکتا گیا ہوں ، بیزار ہو گیا ہوں۔ صبح غسل خانے جاؤ تو حکم ہوتا کہ پہلے بستر کی چادر درست کرو پھر جاؤ۔ غسل خانے سے نکلو تو فرمان جاری ہوتا ہے نل بند کردیا _ تولیہ صحیح جگہ پر رکھا ہے یا یوں ہی پھینک دیا ؟ ناشتہ کرکے کے گھر سے نکلنے کا سوچو تو ابّا کی آواز آتی ہے، پنکھا بند کیا یا چل رہا ہے ؟کیا کیا سنیں؟؟! یار، نوکری ملے تو گھر چھوڑ دوں گا-
آفس میں بہت سے امیدوار بیٹھے باس کا انتظار کر رہے تھے دس بج گئے تھے، اس نے دیکھا ، پیسج کی بتی ابھی تک جل رہی ہے امی یاد آگئیں تو بتی بجھا دی۔ آفس کے دروازے پر کوئی نہیں تھا۔ بازو میں رکھے واٹر کولر سے پانی رس رہاتھا ، اس کو بند کردیا والد صاحب کی ڈانٹ یاد آگئی۔
بورڈ لگا تھا، انٹرویو دوسری منزل پر ہوگا ۔سیڑھی کی لائٹ بھی جل رہی تھی اسے بند کرکے آگے بڑھا تو ایک کرسی سر راہ دکھائی دی اسے ہٹاکر اوپر گیا، دیکھا ، پہلے سے موجود امیدوار اندر جاتے اور فوراً واپس آجاتے تھے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ اپلیکیشن لے کر کچھ پوچھتے نہیں ہیں ، فوراً واپس بھیج دیتے ہیں۔
میرا نمبر آنے پر میں نے اپنی فائل مینجر کے سامنے رکھ دی تمام کاغذات دیکھ کر مینجر نے پوچھاکب سے جوائن کر رہے ہو ؟
ان کے سوال پر مجھے یوں لگا ، جیسے آج یکم اپریل ہو اور یہ مجھے 'فول بنا رہے ہیں۔
مینجر نے محسوس کر لیا اور کہا ،آج کے انٹرویو میں کسی سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا صرف CCTV میں امیدواروں کا برتاؤ دیکھا گیا ہے سبھی امیدوار آئے ، مگر کسی نے نل یا لائٹ بند نہیں کی ، سوائے تمھارے ۔مبارک باد کے مستحق ہیں تمہارے والدین ، جنہوں نے تمہیں تمیز اور تہذیب سکھائی ہے۔
جس شخص کے پاس Self Discipline نہیں ، وہ چاہے جتنا ہوشیار اور چالاک ہو ، مینجمینٹ اور زندگی کی دوڑ میں پوری طرح کام یاب نہیں ہو سکتا۔
یہ سب ہو جانے کے بعد میں نے پوری طرح طے کر لیا کہ گھر پہنچتے ہی امی اور ابو سے معافی مانگ کر انہیں بتاؤں گا کہ آج اپنی زندگی کی پہلی آزمائش میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روکنے اور ٹوکنے کی باتوں نے مجھے جو سبق پڑھایا، ان کے مقابل میری ڈگری کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ماں باپ کے روکنے ٹوکنے کی وجہ سے ہم بہتر انسان بن پاتے ہیں۔ دھیرے بات کرنے، صفائی کرنے، غسل خانے سے پیر پونچھ کر نکلنے، نل ٹھیک سے بند کرنے، تولیہ جگہ پر رکھنے، کھانا بیٹھ کر کھانے، ہر بڑے سے ادب سے پیش آنے، پڑھائی کرنے وغیرہ وغیرہ یہی وہ باتیں ہیں جو ہمیں ایک اچھا انسان بناتی ہے
زندگی کے سفر میں تعلیم ہی نہیں ، تہذیب کا اپنا مقام ہے ۔
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
(منقول)