مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر
ڈراما نویس اور افسانہ نگار، سائرہ رضا نے ایک جگہ لکھا ہے ’’ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ آج سے بیس سال پہلے ہم جن لوگوں کے بغیر جینے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے تھے، اُن میں سے بہت سے آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اورہم جی بھر کے جی رہے ہیں، جب کہ آج جن لوگوں کے ساتھ ہم رہتے ہیں، جن کے بغیر ہمیں سانس بھی نہیں آتی، آج سے بیس سال پہلے اُن کا نام و نشان بھی نہ تھا…‘‘
مذکورہ بالا جملوں نے میری سوچ کے دَر وا کیے، تو بے شمار چہرے، اِدارے، احباب، نام، شخصیات سب اس دریچے سے نکل کر باہر آنے کو بے تاب ہوگئے کہ قلم اُٹھائو، لکھو کہ ہم سب ’’یادوں کی بارات،، میں تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم پر لکھوکہ ہم بیس سال پہلے بھی تمہارے ساتھ تھے۔ اور..... ان سب چہروں میں سب سے نمایاں چہرہ مجھے اپنے ’’پاپا جی‘‘ کا نظرآیاکہ جنھیں میں حقیقتاً کبھی نہیں بھول پائی۔ وہ ہم سب کے لیے خصوصاً میرے اور میرے بچّوں کے لیے توایک ایسے شجرِ سایۂ دارتھے، جیسے بَھری دوپہر میں نیم کا چھتناور درخت۔ یقیناً، باپ زینے کی مانند ہے، جو اونچائی تک لے جاتا ہے اور ماں، وہ پُرخلوص دُعا ہے، جو اولاد پر سَدا سایہ فگن رہتی ہے۔ اولاد پر والدین کی محبّت ایسا قرض ہے، جو کسی طور اَدا ہو ہی نہیں سکتا کہ اگر ہمارے اندر کوئی ایک بھی خوبی ہے، تو اُس کا سارا کریڈٹ ہمارے والدین ہی کو جاتا ہے۔
میرے پاپا جی، انور پاشا تُرکی، پاکستان کے پہلے اولمپین باکسر تھے، وہ پاکستان نیوی سے وابستہ تھے، بے لوث، پُرخلوص، محنتی، ایمان دار وقت کے پابند، خوش لباس اوربہت خوش مزاج انسان۔ اپنے، پرائے ہر ایک کے لیے انتہائی شفیق، سب کے لیے محترم اور یاروں کے یار۔ انھوں نےانتہائی سادہ زندگی گزاری اور ہمیں بھی یہی درس دیا۔ ہمیشہ رزقِ حلال کمایا اور ہماری تربیت بہترین اُصولوں پر کی۔ وہ کھانے پینے کے شوقین تھے، نہ دکھاوے، پہناوے کے۔
انھوں نے دُنیا کے متعدد ممالک کے سفر کیے، لیکن کبھی اس بات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ جن دنوں پاپا جی اسلام آباد میں پاکستان اسپورٹس بورڈ سے وابستہ تھے، اُن دنوں دنیا کے عظیم باکسر، محمد علی کلے پاکستان آئے، تو ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور خوش گوار ماحول میں بہترین وقت گزارا۔ ایک موقعے پر دونوں نے دوبدو ایک دوسرے کو مکّے دکھا کر باکسنگ کے اسٹائل میں یادگار فوٹو سیشن بھی کروایا۔ ہم سب بھائی بہنوں کے ساتھ اُن کا رویّہ ہمیشہ انتہائی دوستانہ رہا۔
ہم نے کبھی انہیں غصّے یا طیش میں نہیں دیکھا۔ بعض اوقات مجھے گمان ہوتا کہ شاید وہ اپنا سارا غصّہ باکسنگ کے دوران اپنے حریف کو پنچ مار کر نکال دیتے ہوں گے۔ پاپا جی نظم و ضبط کے سخت پابند تھے۔ کام، کام اور بس کام زندگی کے آخری وقت تک یہی اُن کا اصول رہا۔اللہ کا شُکر ہے کہ آج اُن کی اولاد اور اولاد کی اولاد سب مطمئن اور خوش گوار زندگی جی رہے ہیں اور اُن کی یہ نیکی اور نیک نیتّی، ہمیشہ صدقۂ جاریہ کی شکل میں قائم رہے گی۔ وہ کیا ہے کہ؎ خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ.....ہم نے سونا، سُپردِ خاک کیا۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ پاک پروردگار میرے والدین کی مغفرت فرمائے اور انھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اُن کی قبریں ہمیشہ دُعائوں اور پُھولوں سے مہکتی رہیں۔ (آمین، ثم آمین-) (نجمہ پرویز خان، ہما ہائٹس، کراچی)