• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثاقب نثار مجھ سے نواز شریف کیخلاف بیان لینا چاہتے تھے، طلال

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ ہم عدالت پر کوئی دباؤ نہیں ڈال رہے صرف حقائق بیان کررہے ہیں.

ثاقب نثار مجھ سے نواز شریف کیخلاف بیان لینا چاہتے تھے،توہین عدالت کیس کے دوران ثاقب نثار نے ایک بڑی شخصیت کے ذریعہ پیغام پہنچایا کہ میں نواز شریف اور مریم نواز کیخلاف بیان دوں جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ طلال چوہدری کے الزامات مکمل طور پر غلط اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔

ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں دوبارہ جواب جمع کروانے کیلئے مہلت دے کر عمران خان کو بڑی رعایت دی ہے،ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ درست ہے کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں توہین عدالت کیسوں میں معافیاں نہیں دیں.

 ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ ہم عدالت پر کوئی دباؤ نہیں ڈال رہے صرف حقائق بیان کررہے ہیں، عمران خان ایک عادی مجرم ہیں، عمران خان کو پہلے ہی ایک توہین عدالت کیس میں وارننگ ہوچکی ہے .

 عمران خان الیکشن کمیشن اور افواج کے بار ے میں کیا الفاظ استعمال نہیں کرتے ہیں، جس طرح عمران خان کو جواب دینے کا دوبارہ موقع دیا گیا مجھے بھی یہ موقع دیا جاتا تو ہمیں بھی شاید ریلیف مل جاتا۔

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ میں نے توہین عدالت کیس میں معافی مانگی مگر کسی مرحلہ پر معافی نہیں دی گئی، میں نے اور دانیال عزیز نے جواب جمع کرایا تو ہم پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی،ہمیں دوبارہ سوچ کر جواب داخل کرنے کی مہلت نہیں ملی تھی.

 پی ٹی آئی رہنما عمران خان کے گناہوں کا انکار نہیں کررہے صرف کہہ رہے ہیں وہ بہت مقبول ہیں اس لیے انہیں توہین عدالت پر سزا نہیں دی جاسکتی، عمران خان عدالت کے اختیار کو چیلنج کررہے ہیں لیکن عدالت انہیں موقع دے رہی ہے۔

طلال چوہدری نے کہا کہ سوتیلے اور لاڈلے والا سلوک ختم ہونا چاہئے، یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ایک سپر لاڈلا ہے اور باقی سب سوتیلے ہیں، ن لیگ کے رہنماؤں کو جس طرح سزائیں دی گئیں ہمیں لگا کہ ہم ناقابل قبول ہیں،ہمارے برعکس عمران خان نے جج کا نام لے کر بیان دیا، دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور میں نے کسی جج کا نام نہیں لیا تھا، سب کو ایک جیسے معیار پر جانچنا چاہئے۔

 طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ثاقب نثار نے جس طرح مجھے سزا دی ان کے کیا قصے سناؤں،ثاقب نثار مجھ سے نواز شریف کیخلاف بیان لینا چاہتے تھے، ثاقب نثار نے کئی دفعہ مجھ سے بالواسطہ کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کیخلاف بیان دیں.

ثاقب نثار نے اپیل سننے سے ایک رات پہلے پاکستان کے ایک بہت بڑے نام کو پیغام دیا کہ طلال کو بتادینا صبح معافی دور کی بات ہے اس کی سزا میں بڑھاؤں گا، ثاقب نثار نے کہا میرا دل چاہتا ہے طلال چوہدری کیخلاف ایک اور ازخود نوٹس لوں اور اسے جیل بھیجوں،اگلے دن میں نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے استدعا کی اب کسی کو نوٹس نہ کریں.

 ثاقب نثار نے کہا کہ میرا دل کرتا ہے نواز شریف اور مریم نواز کو بھی نوٹس کریں، میں نے کہا میں اپنے الفاظ تسلیم کررہا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو انہیں درگزر کریں۔ طلال چوہدری نے کہا کہ عدلیہ نے نظرثانی کرنی ہے تو ان تمام سزاؤں پر کرنی پڑے گی جو ثاقب نثار کے ہوتے دی گئیں، خودمختار کمیشن بنایا جائے.

 ثاقب نثار کے یہ کام سامنے آنے چاہئیں، جب کمیشن بنے گا تو اس کے سامنے سچ بولنے والے لوگ موجود ہیں، میں ثاقب نثار پرا لزام نہیں لگارہا حقائق بیان کررہا ہوں، ثاقب نثار خود کو بابا رحمتے کہتے تھے مگر پاکستان کیلئے بابا زحمتے ثابت ہوئے، میری سزا کو ساڑھے چار سال ہوگئے مجھے جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، خدا کی قسم میں نے توہین عدالت نہیں کی تھی۔

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ میری پارٹی نے کئی جگہ مجھے مس ٹریٹ کیا اس کا مجھے گلہ شکوہ ضرورہے، میں نے جو کچھ بھی کیا نواز شریف کے نظریے کیلئے کیا، مجھے خود سے زیادہ نواز شریف پرا عتماد ہے، نواز شریف سے لندن میں کھل کر اپنے دل کی باتیں کی ہیں، پارٹی کے سینئر لوگوں سے تقاضا کرتا ہوں کہ مجھ جیسے کارکنوں کیلئے کھڑے ہوں۔

ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں دوبارہ جواب جمع کروانے کیلئے مہلت دے کر عمران خان کو بڑی رعایت دی ہے، ہائیکورٹ کے پانچ ججوں نے بادی النظر میں عمران خان کے بیان کو توہین عدالت سمجھ کر نوٹس جاری کیا تھا، کیا انہوں نے ابھی تک مائنڈ اپلائی نہیں کیا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے، انصاف اندھا ہوتا ہے وہ نہیں دیکھتا سامنے کون ہے.

 اگر عدالت دیکھ رہی ہے کہ سامنے کون ہے تو انصاف نہیں ہوسکتا، عمران خان غیرمشروط معافی مانگ لیتے ہیں تو عدالت شوکاز نوٹس واپس لے سکتی ہے۔ ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ درست ہے کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں توہین عدالت کیسوں میں معافیاں نہیں دیں، لیکن ایسی مثالیں بھی ہیں کہ عدالتوں سے توہین عدالت پر معافی قبول ہوئی ہو.

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد نہیں کی ہے، عمران خان کی صرف تحریری معافی کافی نہیں ہے ان کے رویہ سے پتا چلنا چاہئے کہ وہ اپنے کیے پر نادم ہیں، عمران خان کیلئے بہتر ہوگا کہ پہلے ان جج صاحبہ سے معافی مانگیں جن کا نام لے کر انہوں نے گفتگو کی تھی اس کے بعد عدالت میں پیش ہوں، ایسا ہوتا ہے تو عدالت عمران خان کی معافی قبول کرسکتی ہے۔

اہم خبریں سے مزید