چین جس کی آبادی دُنیا میں سب سے زیادہ، ایشیا میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ دُنیا کی دُوسری بڑی معیشت اور دفاعی طاقت ہے، ان دِنوں گرمی کی حدّت اور شدّت میں اضافہ کی بدولت مسائل کا شکار ہے۔ سب سے زیادہ جنوبی چین کے گیارہ صوبے خشک سالی، دریا میں پانی کی پچاس فیصد کمی، پن بجلی کی پیداوار میں شدید تعطل درجہ حرارت میں 42 ڈگری تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
جنوبی چین ملک کا سب سے زیادہ ترقّی یافتہ، صنعتی خطّہ ہے۔ دُوسرے لفظوں میں 80 فیصد صنعتی پیداوار جنوبی چین کے خطّے میں ہوتی ہے۔ چین کے 31صوبے ہیں، چار خودمختار خطّے ہیں جن میں اولگر کا مسلم خطّہ بھی شامل ہے جس کا نام اَب سنکیانگ ہے۔ پہلے یہ جنوبی ترکستان کہلاتا تھا اس کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔ چین کو گرمی اور پانی کی کمی کی وجہ سے خزاں میں تیار ہونے والی فصل کا بڑا نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ خشک سالی نے بڑے علاقوں کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔
جو ملک چاول اور گندم کی نوے فیصد سے زیادہ پیداوار میں خودکفیل ہے اور ملکی ضروریات کو پورا کرتا ہے، اسے فصلوں کے متاثر ہونے کی وجہ سے اناج امپورٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی کے بعد پہلی بار چین اس قدر درجہ حرارت سے گزر رہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ جنوبی چین کی بیش تر آبادی گرمی کی شدّت سے پریشان ہو کر انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشنوں اور سرکاری عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ ان خطّوں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ دریا میں پچاس فیصد پانی کی کمی کی وجہ سے بیش تر پن بجلی گھر بند کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کا تعطل اور فراہمی بھی شدید متاثر ہو رہی ہے اور لوگ راتیں جا کر گزار رہے ہیں۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کر دی ہے کہ پانی کی فراہمی پر پہلے عوام کو ترجیح دی جائے۔ آبپاشی اور زراعت کو دُوسرے درجے پر رکھا جائے اور آب پاشی کے ذرائع اور پانی کی فراہمی کے ذرائع مزید بہتر بنائے جائیں۔ انہوں نے اعلیٰ حکام کو متاثرہ خاندانوں کی مدد کرنے کو کہا مگر کسانوں کے بڑے گروہوں کو فصلوں کے متاثر ہونے اور خشک سالی پر کوئی امداد دینے سے انکار کر دیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی پر پہلا حق عوام کا ہے۔ اناج باہر سے امپورٹ کیا جا سکتا ہے اس لئے کاشتکاروں کو فی الفور منع کر دیا گیا ہے۔ چین کافی عرصہ سے قدرتی کوئلہ کی کمی کا شکار ہے اور نئی کھدائیاں جاری ہیں۔ اب خشک سالی اور پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ درحقیقت یہ گلوبل وارمنگ اور قدرتی موسمی تغیرات کے اسباب ہیں۔ ایک طرح پوری دُنیا گلوبل وارمنگ کا شکار ہے۔
چین میں یہ امکانی قوت اور صلاحیت ہے کہ وہ بڑے مسائل پر بھی قابو پا لیتا ہے۔ مگر گلوبل وارمنگ پر قابو پانا چین کے بس میں نہیں ہے۔ یہ قدرتی اور کرّۂ اَرض کے قدرتی ماحول، موسمی تغیرات اور آلودگی میں مسلسل اضافہ سے جُڑا سنگین معاملہ ہے اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو امریکہ پہلے اور چین دُوسرے نمبر پر آلودگی پھیلانے اور اس میں اضافہ کرنے والے ممالک ہیں۔ چین گزشتہ تیس برسوں میں قدرتی کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والا بڑا ملک رہا۔
سستی بجلی، پن بجلی پیدا کر کے دُنیا کے تمام اہم صنعت کاروں اور صنعتی اداروں کو چین میں سرمایہ کاری کرنے، صنعتی کارخانے تعمیر کرنے اور اَرزاں معاوضہ پر مال تیار کرکے فراہم کرنے کی پُرکشش پیش کش نے تمام قدرتی کوئلہ پھونک دیا، اب نئی کھدائیاں عمل میں آ رہی ہیں تا کہ مزید ذخائر دریافت کئے جا سکیں۔ کچھ ایسا ہی حال امریکہ کا رہا ہے۔ امریکہ قدرتی تیل، قدرتی کوئلہ اور پن بجلی سے بجلی کی پیداوار پر تیل کے استعمال میں بتدریج اضافہ سے دُنیا میں آلودگی میں اضافہ کرنے والا بڑا ملک بن گیا۔
ہر سال ہزاروں کاریں، بجلی سے چلنے والی اشیاء اور صنعتی پیداوار میں اضافہ کر کے آلودگی میں بڑا اضافہ کیا۔ اس کے بعد برازیل اور بھارت ہیں جو قدرتی کوئلہ اور تیل کے استعمال میں اضافہ کر کے آلودگی اور ماحول کو متاثر کرکے اضافہ کرنے کا سامان کررہے ہیں، بلکہ گزشتہ برس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکہ اور یورپ کے دورے کے دوران واضح طور پر اعلان کیا کہ بھارت اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے آئندہ پچاس برس تک قدرتی کوئلہ کا استعمال جاری رکھے گا۔ یہ بات اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی کہی گئی۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ادارۂ ماحولیات محض ایک نمائشی ادارہ ہے جبکہ یہ بار بار آلودگی میں کمی کی اپیلیں جاری کرتا رہا ہے مگر کسی کے کان پر جُوں نہیں رینگی جبکہ قدرتی ماحول کا تحفظ تمام ممالک کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
سچ یہ ہے کہ انسانی کوتاہیاں اورخود غرضی طمع، فطرت کی ترتیب کو منتشر کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند برس قبل بھارت نے ماحولیات کی معروف غیرسرکاری تنظیم گرین پیس کے سینکڑوں رضاکاروں کو ملک میں کام کرنے سے روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ دُنیا کے سائنس دانوں اور ماہرین کی اکثریت بار بار خبردار کرتی رہی ہے کہ کرّۂ اَرض اور اس پر موجود تمام حیاتیات کو قدرتی ماحول میں بتدریج تبدیلی سے بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کی شروعات ہو چکی ہیں۔ آئے دن کے سیلاب، طوفانی بارشیں، خشک سالی اور پانی کی کمی وغیرہ۔
عجیب بات یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ متضاد مسائل کو بھی جنم دے رہی ہے ایک طرف زرعی زمینیں خشک سالی سے بنجر ہو رہی ہیں، دریائوں میں پانی کی کمی ہوتی جا رہی ہے جبکہ زمین کی حدّت اور درجہ حرارت میں اضافہ سے گلیشیئر پگھل کر سمندر کی سطح کو بتدریج بلند کر رہے ہیں۔ قطبین پر پگھل کر گلیشیئرز سمندروں میں شامل ہو رہے مگر دریا خشک ہو رہے ہیں۔
کراچی کے ساحلی علاقہ میں ڈیلٹا کے مقام پر جہاں دریائے سندھ کا پانی گرتا ہے وہاں دریا کا پانی کم ہو جانے کے سبب سمندری پانی دریا میں داخل ہو رہا ہے جبکہ صنعتی کارخانوں کا آلودہ پانی اور کوڑا کرکٹ بھی سمندر میں ڈالا جا رہا ہے جس کی وجہ سے سمندری آلودگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سمندری حیاتیات شدید متاثر ہو رہی ہیں مگر کوئی مؤثر قدم نہیں اُٹھایا جا رہا ہے۔ درجنوں اپیلیں جاری کی جا چکی ہیں، خطرات سے آگاہی دی جا چکی ہے مگر اس کے اَثرات صفر ہیں۔
بیشتر لوگ ماحولیات اور کرّۂ اَرض کے قدرتی ماحول میں تبدیلیوں کے عمل کو بالکل تسلیم نہیں کرتے ان لوگوں کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ کرّۂ اَرض پر موسمی تبدیلیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بارشیں ہوتی رہی ہیں، طوفان آتے رہے ہیں، اگر یہ سلسلہ جاری ہے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ اس طرح کے دلائل پیش کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ یہاں تک امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس نقطۂ نظر کے حامی تھے۔
جبکہ سابق صدر باراک اوباما نے اپنے خصوصی طیارے میں نہ صرف قطب شمالی کے گلیشیئرز کا دورہ کیا تھا بلکہ وہ پوپ فرانسس کو بھی ساتھ لے کر گئے تھے تاکہ خود ملاحظہ کریں کہ صورت کس طرح تبدیل ہو رہی ہے۔ پوپ فرانسس نے بھی دیکھا کہ قطب شمالی کے گلیشیئرز پگھل چکے ہیں اب وہ پہاڑ دکھائی دے رہے ہیں۔ تب پوپ فرانسس نے تمام ممالک کے سربراہوں کے نام خط لکھا اور ان سب کو قدرتی ماحول میں تبدیلیوں کے بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا اور کرّۂ اَرض کے قدرتی ماحول کے تحفظ کے لئے ضروری اقدام کی اپیل کی تھی۔
امریکی سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ بارہ ہزار سالوں میں جو درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا اب اتنا ہی اضافہ گزرے چالیس برسوں میں ہو چکا ہے۔ اگر درجہ حرارت میں اضافہ کی رفتار کو مدنظر رکھا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ چالیس برسوں میں درجہ حرارت کہاں تک پہنچ سکتا ہے۔ تب تک آلودگی میں اضافہ کیا صورت اختیار کر سکتی ہے۔
گزشتہ سال عالمی بینک نے بھی کرّۂ اَرض کے قدرتی ماحول کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے اگر فوری طور پر آلودگی میں اضافہ کی روک تھام کے لئے اقدام نہیں کئے گئے تو پھر دُنیا آئندہ بیس برسوں بعد 1929ء کی شدید عالمی کساد بازاری جیسی صورت حال سے گزر سکتی ہے اور دُنیا معیشت کے شدید بحران سے گزر سکتی ہے۔
ناسا اور کیلی فورنیا یونیورسٹی نے ایک جائزہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ کیلی فورنیا کے ساحلی علاقوںکی گرم ہوائیں جنگلات میں آگ لگنے کا سبب بن رہی ہیں جس میں گزشتہ دس برسوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اربوں ڈالر کی مالیت کی املاک راکھ بن چکی اور سات سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکی سائنس دانوں نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ قدرتی ماحول میں سُدھار لانے کے لئے فوری ایک جامع پالیسی وضع کرے اور قدرتی ماحول کی بہتری کے لئے نہ صرف اپنا قومی کردار ادا کرے بلکہ عالمی سطح پر بھی کوئی ٹھوس اقدام کرے۔
گزشتہ ماہ امریکی کانگریس نے ایک طویل المدت پالیسی وضع کی ہے بلکہ اس کے لئے بڑی رقم مختص کرنے کا بھی عندیہ دیاہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ماحولیات کے تحقیقی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اور جولائی کے مہینے گرم ترین گزرتے ہیں اور یہ سلسلہ 2007ء سے جاری ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ ناسا نے بتایا ہے کہ دُنیا میں بیش تر صنعتی کارخانوں اور قدرتی کوئلہ، تیل کے استعمال میں اضافہ سے زہریلی گیسوں کا اخراج بھی بڑھ رہا ہے جو موسمی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے۔
درحقیقت کرّۂ اَرض پر صدیوں سے قائم اوزون کے غلاف میں ایک جگہ چھوٹا شگاف پڑ گیا ہے جس کا انکشاف 1988ء میں ہوا۔ اوزون کا غلاف زمین کو سُورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے روکنے کا کام کرتا ہے۔ آلودگی میں اضافہ اور زہریلی گیسوں نے اوزون کے غلاف کومتاثر کیا جس سے شگاف پیدا ہوا اور آلودگی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اس غلاف کے شگاف میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی سائنس دانوں نے 2016ء میں انکشاف کیا تھا کہ اس شگاف کو پُر کیا جا چکا ہے۔ اس انکشاف میں صرف اس حد تک حقیقت ہے کہ دُنیا کے ماہرین اس شگاف کو پُر کرنے کی کوششوں میں مصروف ضرور ہیں مگر غلاف اپنی جگہ موجود ہے۔
دُنیا کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے۔ اس غلاف میں شگاف کے حوالے سے 1986ء میں آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے انکشاف کیا تھا۔ 2018ء میں آسٹریلیا کے ماہرین نے آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات کے بارے میں آسٹریلیا کو خبردار کیا کہ فوری آلودگی میں اضافہ کی روک تھام کی جائے۔ حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آسٹریلیا نے اپنے ملک میں قدرتی ماحول کے تحفظ اور آلودگی میں کمی کے لئے ضروری اقدام کئے جس سے بڑی حد تک جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
سائنس دانوں نے امریکی حکومت کو خبردارکیا کہ گرمی کی شدّت اور گرمی کو بحرہند اور بحرالکاہل جذب کر رہے ہیں اور یہ سمندری طوفانوں اور شدید طوفانی بارشوں کا سبب بن رہے ہیں۔
2005ء کے تھائی لینڈ میں آنے والے سونامی کی بھی وجہ یہی تھی اور مشرق بعید، جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ میں موسمی تبدیلیوں اور موسلادھار بارشوں کا بھی یہی سبب ہے جیسا کہ ہم گزشتہ ماہ میں پاکستان اور بھارت شمالی مغربی حصوں میں شدید طوفانی بارشوں اور اس کے سبب ان خطّوں جیسے مشرقی پنجاب جبکہ پاکستان میں خیبر پختون خوا میں تیز بارشوں اور بلوچستان میں شدید موسلادھار بارشوں نے ان علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
خاص طور پر بلوچستان میں لگ بھگ تمام انفرا اسٹرکچر تباہ ہو گیا۔ تمام پُل ٹوٹ گئے، سڑکیں بہہ گئیں، پندرہ سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے اور ہزاروں زخمی ہوئے جبکہ بالائی اور جنوبی سندھ میں تیز بارشوں نے سیلابی کیفیت پیدا کر دی۔ ان علاقوں میں اب بھی پانی جمع ہے۔ ان بارشوں نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا اور ہزاروں جانوروں کو ہلاک کر دیا۔
سائنس دانوں اور ماہرین کے تحقیقی جائزوں کو سنجیدگی سے سمجھنے والوں کی کمی کی وجہ سے بیش تر ممالک قدرتی آفات کی کوئی پیش بندی سے معذور ہیں۔ اس طرح کے حکمرانوں اور کرتا دھرتائوں کی نااہلی اور کم علمی کے سبب کروڑوں عوام مسائل اور مصائب کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال بہت خطرناک ہے۔ پاکستان کے بارش زدہ، سیلاب زدہ متاثرین شدید تکالیف کا سامنا کررہے ہیں مگر کوئی پُرسانِ حال نہیں اور نہ حکومت کو ان تکالیف کا احساس ہے۔
اگست میں الجزائر کے جنگلات میں بھڑکنے والی آگ نے الجزائر کو شدید نقصان پہنچایا ہے اس آگ سے تاحال ہلاک ہونے والوں کی تعداد تیس تک پہنچ چکی ہے۔ جنگلی حیاتیات کی بہت بڑی تعداد جل کر راکھ ہو چکی ہے۔ الجزائر میں موسمی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین کی پارلیمان نے حال ہی میں امداد کا اعلان کیا ہے کہ ہونے والے نقصانات کوکم کیا جا سکے۔
اسی طرح مراکش میں بھی شدید بارشوں اور سمندری طوفان نے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ تین برس قبل سعودی عرب میں ہونے والی بارشوں میں حیرت انگیز طور پر اولے بھی پڑے تھے جس سے خطّہ کے لوگوں کوموسمی تبدیلیوں کا احساس گہرا ہوگیا ہے۔ ایک طرف خشک سالی ے فصلیں تباہ ہو رہی ہیں، دُوسری طرف بارشیں سیلابی صورت حال پیدا کر رہی ہیں، جہاں گرمی کی حدّت سے ریت پگھل جاتی ہے وہاں اولے پڑ رہے ہیں۔ اس صورت حال سے ان خطّوں کے کاشت کار زیادہ مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان گرم خطّوں میں وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں۔ خوراک کی کمی سے سب سے زیادہ بچّوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ صاف پانی کی قلّت کی وجہ سے پیٹ کی بیماریاں عام ہو رہی ہے۔
مراکش گزرے وقتوں میں بھی قدرتی آفات کا بار بار نشانہ بنتا رہا ہے۔ خاص طور پر 1912ء کے زلزلے کا ذکر ضرور ہوتا ہے اس بھیانک زلزلے میں ہزاروں افراد ہلاک اورہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ مراکش شمالی مغربی افریقہ اور بحر اوقیانوس کے ساحلوں سمیت کسی حد تک بحیرۂ روم کے ساحلوں پر واقع قدیم عرب افریقی ملک ہے۔ عرب مراکش کو مغرب کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
مراکش ماضی میں بھی زلزلے، شدید بارشیں، خشک سالی وغیرہ کا شکار رہاہے۔ رباط اس کا دارالخلافہ جہاں پہلی کل اسلامی ممالک کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ کاسا بلانکا دُوسرا بڑا شہر ہے۔ کاسا بلانکا کا مطلب ہے وائٹ ہائوس اس شہر کے تمام مکانات سفید ہیں۔ مسجدیں بہت ہیں سب سفید ہیں۔ حالیہ بارشوں اور سیلابوں سے مراکش زیادہ متاثر ہوا ہے۔
جاری سال 2022ء میں افریقی ممالک موسمی تغیرات کا شدید شکار رہے خاص طورپر خشک سالی، خوراک کی کمی، حرارت کی شدّت اور وبائی امراض اس عظیم برّاعظم کو نشانہ بناتے رہے۔ برّاعظم افریقہ گزرے دو تین برسوں میں یورپی نو آبادکاروں کے استحصال کا نشانہ بنتا رہا جو براعظم دُنیا کا سب سے دولت مند خطّہ کہلاتا تھا اب بھوک افلاس، تنگ دستی، بیروزگاری کا شکار ہے۔ قیمتی معدنیات، ہیروں اور سونے چاندی کی کانیں سب کچھ لُوٹ لیا گیا اور ان کے حصے میں جو آیا سب کے سامنے ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ترقّی یافتہ اور قومی جذبوں سے سرشار اقوام نفع نقصان سے بالاتر ہو کرا پنے عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دیتی ہیں اور عوام بھی اس جدوجہد میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اس حوالے سے روشن مثال جاپان اور جرمنی کی ہے۔ ہرچند کہ ان ممالک کی ترقّی میں امریکہ اور یورپ کا مفاد و تعاون شامل تھا۔ قوموں کی مثبت جذبے اور ترقّی کی لگن ان کو ترقّی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔البتہ گزشتہ پانچ چھ عشروں سے قدرتی آفات میں اضافہ نے ترقّی یافتہ یا ترقّی پذیر ممالک کو بہت متاثر کیا ہے۔
بارشوں کی شدّت گرمی کی حدّت، سیلابی ریلے اوروبائی امراض کا شکار بنتے چلے آ رہے ہیں۔ قدرتی آفت کسی شکل میں ہو انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہوتی ہے مگر زلزلہ بہت بھیانک آفت ہے اگر وہ شدّت کا ہے تو پھر صرف انسان رَبّ سے پناہ کی دُعا مانگنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ گزشتہ سو برسوں میں چین، روس، چلی، ایکویڈور، الاسکا، انڈونیشیا، آسام میں بھیانک زلزلے آئے۔ زلزلہ آنے کے بعد بارش ضرور ہوتی ہے۔
اس طرح چین کی بلیو ریور، یانگ سی، ولسگار، سندھ، برہم پتر وغیرہ میں خوفناک سیلابوں کا سلسلہ رہا ہے اور اب بارشوں نے حال ہی میں برطانیہ کے شہر گلاسگو اور افریقہ کے ملک کینیا میں منعقد ہونے والی ماحولیات پر ہونے والی کانفرنس میں جو نکات طے ہوئے ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ فوری طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک عالمی فنڈ قائم کیا جائے اور ہر ملک اپنی حیثیت کے مطابق اس فنڈ میں رقم جمع کرائے جو ترقّی پذیر ممالک میں ماحولیات کے سُدھار اور آلودگی پر قابو پانے کے عمل میں خرچ کیا جائے۔ یہ تجویز بہت مناسب ہے مگر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر ترقّی پذیر ممالک کے حکمراں طبقے سرکار گلے گلے تک بدعنوانیوں میں ڈُوبے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں میں شفافیت کا فقدان ہے ایسے میں آلودگی کم کرنے کے بجائے بدعنوانی اور ہیراپھیری کی آلودگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
درحقیقت یہ کام کہ دُنیا میں آلودگی کم ہو اور قدرتی ماحول میں سُدھار آئے، دُنیا کے اجارہ دار سرمایہ دار، صنعت کار کر سکتے ہیں۔ مگر وہ ایسا کریں گے نہیں اس طرح ان کا منافع کم ہو سکتا ہے کیونکہ وہ پیداوار کم نہیں کرسکتے بلکہ اس میں اضافہ اور زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں شامل ہیں ایک دُوسرے سے مقابلہ بازی میں مصروف ہیں اس دولت مند طبقے کو اپنے اطراف سے کوئی دلچسپی نہیں۔
کارخانوں کی چمنیوں سے گاڑھا دُھواں نکلتا رہے، کارخانوں کا آلودہ زہریلا پانی خواہ سمندر یا دریائوں میں بہایا جاتا رہے، اس سے آبی حیاتیات تلف ہوتی رہیں، وبائی امراض پھیلتے رہیں اس میں اس طبقہ کا مزید فائدہ ہے۔ دوائوں کی فروخت اور قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔مگر ان حالات میں اَزخود انسانیت کو کوئی ٹھوس اوربراہ راست اقدام اُٹھانا پڑیں گے۔ اس میں اس کی بقا اور سلامتی مضمر ہے۔
آج اِنسان پانی خرید کر پیتا ہے۔ خدانخواستہ مستقبل میں سانس لینے کے لئے آکسیجن بھی خریدنا پڑ سکتی ہے کہ ایک چھوٹا سلینڈر پیٹھ پر لٹک رہا اور باریک نلکی ناک سے جُڑی ہے۔ دُعا ہے کہ اِنسانوں پر ایسا وقت نہ آئے مگر اجارہ داروں کے کرتوت دیکھ کر خوف آتا ہے کہ آلودگی میں اضافہ کی رفتار انسانیت کو کسی بھی بڑے مسائل اورمصائب میں مبتلا کرسکتےہیں۔ حرص اور طمع انسان سے کچھ بھی کروا سکتے ہیں۔ مگر کچھ انسان دوست ماحول دوست اور انسانیت کے داعی ابھی باقی ہیں۔
مثلاً جرمنی میں قدرتی ایندھن کی جگہ الیکٹرک موٹر سائیکلیں اور کاریں بنا رہے ہیں ان کا استعمال بھی شروع ہو چکا ہے۔ یورپ کے عوام کی ایک بڑی تعداد ماحولیات میں ہونے والے بگاڑ اور اس سے انسانوں کو درپیش مسائل کی آگہی رکھتے ہیں۔ نوجوانوں نے لگ بھگ سب ہی یورپی ممالک میں آلودگی کم کرنے کی جدوجہد کرنے والوں کی غیرسرکاری تنظیمیں بنا لی ہیں اور جدید میڈیا کے ذریعہ مزید لوگوں کو آگہی بہم پہنا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے گزشتہ سال سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال ہزاروں کاروں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ٹریفک میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سڑکوں پر کثیف دُھواں ہماری سانس کے ذریعہ اندر جا کر پھیپھڑوں میں جمع ہو رہا ہے ہر سال لاکھوں افراد پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو رہے ہیں۔
اس طرح اور مضر صحت اشیاء عام ہیں جن سے سب کو اجتناب کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی صرف اپیل کر سکتے ہیں۔ دُہائی دے سکتے ہیں مگر اس سے زیادہ وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ کون اس مسائل کی دُنیا کو مصائب سے نجات دلائے گا۔ ہم صرف یہ سوچتے رہیں اور بس!