• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں غیر معمولی سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے، جس کے لیے مختلف فلاحی ادارے اور این جی اوز متاثرین کے لیے امداد جمع کررہی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ خواتین بھی بڑے تعداد میں اپنے اپنے دائرے کار اور استعداد کے مطابق دکھی انسانیت کا بیڑہ اُٹھایا ہوا ہے۔ اس وقت وہ سیلا ب متاثرین کے لیے ہر اول دستہ بنی ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں نوشہرہ کی ڈنڈا بردار خاتون ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ،قرہ العین وزیر کی خدمات کا مغرب سے مشرق تک چرچا ہے۔ 

انہوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اپنے فرائض کو بھر پور طر یقے سے انجام دے کر فر ض شناسی کی ایک ایسی مثال قائم کی، جو اس سے قبل دیکھنے، سننے میں نہیں آئی۔ اخبارات، سوشل میڈیا پر ان کی تضاد پر دیکھ کر خوشی اپنی جگہ لیکن حیرانی بھی ہوئی۔ قرۃا لعین نے اپنے علاقے کے لوگوں کو سیلا ب سے بچانے کے لیے بھر پور بہادری کا مظاہرہ کیا، انہیں لوگوں کو محفوظ مقام تک پہنچانے کے لیے ڈنڈا بھی اُٹھا نا پڑا۔

ان کی کاوشیں رنگ لائیں ۔جب ہی تو اس علاقے میں ان کی کوشش کے باعث سیلا ب سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ، یہ مشکل کام تھا۔ سیلاب کی وارننگ کے فوری بعد میں نے اعلانات کروائے کہ لوگ اپنا علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں لیکن اس پر عمل در آمد نہیں ہو رہا تھا، بعدازاں میں نے گھر گھر جاکر لوگوں کو محفوظ مقام پر جانے کا کہا،کیوں کہ صورت ِحال انتہائی سنگین ہوتی جارہی تھی۔ میرے سختی کرنے پر لوگ گھروں سے نکلے۔ 

جب سیلانی ریلا شہر میں داخل ہورہا تھا تو قرہ العین دریا کے کنارے آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان دیہات میں بھی گئیں جہاں پانی موجود تھا۔ وہ اس پانی سے گزر کر ایک ایک گھر جاکر لوگوں سے کہتی رہیں کہ ’’یہاں سے چلے جائیں ،کیوں کہ بڑے سیلابی ریلے کا خطرہ ہے ‘‘۔ خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں خاتون افسر کا اس طرح ایکشن لینا اور سختی سے پیش آنا کم ہی دکھائی دیتا ہے لیکن انھوں نے یہ کر دکھایا اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں کام یاب ہوئیں۔

قرۃا لعین کو اس فیلڈ میں کام کرتے ہوئے 12 سال ہو چکے ہیں، اب ان کے لیے مرد اور عورت کا فرق ختم ہو گیا ہے، سب مل کر کام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ پولیس اور دیگر عملہ ہو تا ہے۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، گھر، گھر جاکر لوگوں کونکالنا اس لیے مشکل تھا کہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے، اس لیے انہیں سمجھانے کے لیےمیں خود وہاں گئی، پھر لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا میری ذمہ داری تھی۔ 

ایک خاتون ہونے کے ناطے مجھے معلوم ہے کہ کچن کیسے صاف رکھا جاتا ہے، اس پر عمل درآمد کے لیے میں مختلف ہوٹلز وغیرہ کے کچن بھی دیکھتی ہوں، تاکہ لوگوں کو صاف اور بہتر کھانا مل سکے۔ لوگوں کو محفوظ مقامات پر تمام بنیادی سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔