میں پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرار کے علاوہ لڑکیوں کے ہاسٹل کی وارڈن بھی تھی۔ ہاسٹل کے لیے یونیورسٹی کے اساتذہ ہی کو وارڈن مقرر کیا جاتا تھا۔ ان دنوں لڑکیوں کے ہاسٹل کی عمارت زیرتعمیر تھی چنانچہ عارضی طور پر یونیورسٹی کے رہائشی مکانات ’’سی‘‘ ٹائپ کو ہاسٹل کی شکل دے دی گئی تھی۔ پچھلی رات کا وقت تھا۔ میں اور ایک طالبہ ہاسٹل کی گیلری میں سو رہے تھے، اچانک طالبہ نے مجھے جگایا اور کہا۔ ’’ڈاکٹر باجی! ذرا سنئے کتے کتنی آوازیں نکال رہے ہیں۔‘‘ لگتا تھا وہ آسمان کی طرف منہ اٹھا کر رو رہے ہیں۔
اچھی خاصی ڈرائونی آوازیں تھیں۔ ہم نے ایک دوسرے کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ کبھی کبھی یہ ایسی آوازیں نکالتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد لڑاکا جہازوں کے اڑان کی آوازیں سنیں اور فکر ہوئی کہ یاالٰہی! یہ کیا ماجرا ہے۔ دو روز سے کشمیر کے علاقے چھمب جوڑیاں میں بھارت سے جنگ ہورہی تھی۔ توقع تھی کہ بھارت یہ جنگ ہماری سرحدوں تک نہیں لائے گا۔
صبح اٹھ کر ہم نے ناشتہ کیا اور معمول کے مطابق اپنے اپنے شعبوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ میں شعبہ جغرافیہ اور طالبہ شعبہ کیمیا میں پہنچ گئی۔ یہ عمارت نئی نئی تعمیر ہوئی تھی۔ شعبے کا سارا سامان نیو کیمپس لایا جا چکا تھا۔ میں بکھرا سامان ٹھیک جگہ رکھوانے لگی۔ ساڑھے نو بجے کا وقت تھا کہ میرا ایک شاگرد پریشان حال میرے پاس آیا اور کہا کہ میڈم! بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے، میں نے کہا کہ ایسے سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔
شاگرد نے بتایا کہ میڈم! میں جس ٹیکسی میں آیا، اس میں خون لگا ہوا تھا۔ ٹیکسی والے نے بتایا کہ وہ باٹا پور سے آرہا ہے۔ یہ سن کر تھوڑی سی پریشانی ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد ہاسٹل کی طالبہ ہانپتی کانپتی میرے پاس آئی اور اس نے بھی یہی خبر سنائی۔ مشرقی محاذ پر گھمسان کی جنگ ہورہی ہے اور ہماری رینجرز فورس بڑی دلیری سے مقابلہ کررہی ہے۔ یہ سن کر والہانہ طور پر میرے منہ سے نکلا۔ ’’ہماری فوجیں کہاں ہیں؟‘‘
تھوڑی دیر بعد ریڈیو پاکستان سے اعلان ہوا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان گیارہ بجے قوم سے خطاب کریں گے۔ ہمارے شعبے میں دو تین لوگوں کے پاس ریڈیو تھا۔ سب تقریر کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے اور ہمہ تن گوش تھے۔ تقریر بڑی مختصر تھی، جس کا متن یہ تھا کہ دشمن نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی سرحد پر جنگ چھیڑ دی ہے، مگر اسے یہ نہیں معلوم کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جو ساری قوم کو بیدار کرگیا اور قوم ایک سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ کیا افسر، کیا ماتحت، کیا کسان، کیا مزدور، تاجر، بچے، جوان، بوڑھے سب دشمن سے مقابلے کے لیےتیار ہوگئے۔
حملہ بڑا اچانک تھا اور ہماری فوجوں کو محاذ پر پہنچنے میں کچھ وقت لگا۔ محاذ پر پہنچ کر کئی مشکلات کا سامنا تھا۔ رانی توپ کیلئے مناسب جگہ نہ تھی، ایک بھوسے کے گڈ کی آڑ میں زمین میں گاڑی گئی۔ پہلا گولا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب داغا گیا۔ دھماکے کی شدت سے کیمپس کی عمارتوں کے شیشے جھنجھنا اٹھے، مگر یہ ارتعاش ہمارے حوصلے بلند کرگیا۔
گرمیوں کی تعطیلات ختم ہوچکی اور طالب علم آنے شروع ہوگئے تھے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد کچھ اساتذہ اور طلبہ گھر واپس چلے گئے۔ میں اور میری ساتھی ہاسٹل واپس آگئے اور ریڈیو سننے لگے۔ دوپہر کے وقت ریڈیو پاکستان سے خبروں کا سلسلہ بند ہوگیا ،جس پر بڑی گھبراہٹ ہونے لگی۔ یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں دشمن نے ہمارے ذرائع ابلاغ پر قبضہ تو نہیں کرلیا؟خبروں کا سلسلہ منقطع ہونے سے خوف نے آن گھیرا۔
بزرگوں سے سنا ہوا تھا کہ ایسی مشکل گھڑی میں رب تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگی جائے۔ ہم نے وضو کیا اور صحن میں جائے نماز بچھا کر دو نفل ادا کرنے کی نیت باندھی۔ خدا جانے ہم نے کیا پڑھا، آنسو رکتے نہ تھے، رکوع سجود بھی کیا اور پھر مالک دو جہاں کے سامنے ہاتھ پھیلا دیئے کہ مالک! یہ ملک تیری دین ہے، تو ہی اس کی حفاظت فرما اور ہماری فوج کو فتح سے ہمکنار فرما۔ ان نوافل میں عجیب کیفیت طاری رہی۔ خودی، بے خودی اور حضوری!
دوپہر کا کھانا کھایا تو پریشانی کی وجہ سے کچھ معلوم نہ ہوا کہ کیا ذائقہ ہے۔ کان ریڈیو پر لگے تھے۔ آخر پچھلے پہر کوئی پانچ بجے ریڈیو سے خبریں آنا شروع ہوگئیں اور ہماری جان میں جان آئی۔ ریڈیو پاکستان نے یہ خبر دی کہ دشمن کی بمباری سے اسٹیشن کی عمارت کو نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے کچھ دیر کیلئے نشریات کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا، اس کیلئے معذرت خواہ ہیں۔ اب یہ نشریات ملتان روڈ پر واقع ایک عارضی اسٹیشن سے آپ تک پہنچ رہی ہیں۔
باٹا پور اور اس کے گرد و نواح میں گھمسان کی جنگ جاری رہی اور ہوائی حملے بھی ہوتے رہے۔ حملے کے وقت ہوٹر بج جاتے کہ سب لوگ محفوظ جگہ پر رہیں اور باہر نہ نکلیں۔ جب ہوائی حملہ پسپا ہوجاتا تو دوبارہ ہوٹر بجتا جس کا مطلب تھا کہ اب آپ معمول کے کام کرسکتے ہیں۔ 6؍ستمبر کو رات ہونے سے پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ، جنگ کے دوران پاکستان کے تمام شہروں میں بلیک آئوٹ رہے گا۔ کھڑکیوں اور دروازوں پر کالے کاغذ لگایئے یا کوئی ایسا انتظام کریں کہ روشنی کی کوئی کرن باہر نہ جائے۔
موم بتی یا لالٹین جلا کر کسی کونے میں رکھ دی جائے۔ میں اور میری ساتھی طالبہ نے ساری رات بے چینی سے گزاری۔ خطرے کے وقت ہم نیچے راہداری میں بیٹھے رہتے۔ 7؍ستمبر کی صبح باورچی نے ناشتے کیلئے جگایا۔ وہ دن بھی اضطراب میں گزرا۔ شام کو اچھی خبریں آنے لگیں کہ دشمن کا حملہ ناکام بنا دیا گیا ہے اور بھارت کے بہت سے جنگجو قیدی بنا لئے گئے ہیں۔ جس راہ سے یہ قیدی لے جائے جارہے تھے، لوگوں کا ہجوم انہیں دیکھنے سڑک کنارے جمع ہوجاتا۔لڑکیوں کے اس ہاسٹل کے سامنے پانچ گھر پروفیسروں کے تھے۔
ایک کوٹھی میں رجسٹرار شاہ صاحب، دوسری میں میجر رفیع (ر) سربراہ ادارئہ تعلیم و تحقیق، تیسری میں پروفیسر گیلانی سربراہ شعبہ نفسیات، چوتھی میں حمید صاحب سربراہ شعبہ تاریخ اور پانچویں میں پروفیسر امتیاز علی شیخ رہائش پذیر تھے۔ سات تاریخ کی شام ان لوگوں نے میٹنگ بلائی، جس میں، میں بھی شامل ہوئی۔ یہ میٹنگ پروفیسر رفیع کے گھر ہوئی۔ سب نے فیصلہ کیا کہ اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کی خبر گیری کرنا چاہئے۔ عورتیں اور بچے گھر کے سامنے باغیچے میں سوئیں اور مرد پچھلی طرف! یونیورسٹی کے یہ گھر آٹھ کنال پر محیط تھے اور وسیع برآمدے تھے۔
پروفیسر صاحبان نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم بھی ان کے ساتھ ہی رات گزاریں۔ وہ بہت ہی ہمدرد اور خلیق انسان تھے۔ میں اور ساتھی طالبہ سرشام کھانا کھا کر میجر رفیع کے گھر چلے جاتے۔ رات کو کئی مرتبہ ہوائی حملے کے وقت ہم گھر کی راہداری میں بیٹھ جاتے، صبح ہاسٹل واپس آتے۔ میجر صاحب کی بیگم بہت خوش مزاج اور مہمان نواز تھیں۔ ہم دونوں کو ناشتہ کروا کر ہاسٹل آنے دیتیں۔
رات کو سب گھروں کے زیادہ تر لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے۔ ریڈیو سے خبریں اور نغمے سنتے۔ یہ پروگرام رات دس بجے تک جاری رہتے۔ آخری پروگرام اشفاق احمد کا ’’سو سنار کی ایک لوہار کی‘‘ ہوتا۔ شیخ امتیاز نے یہ مشورہ دیا کہ چائے کا انتظام بھی ہوجائے تو وقت اچھا گزرے گا۔ چائے کا انتظام میرے ذمے ہوا کہ میرے پاس ہاسٹل کا باورچی خانہ تھا۔ سب نے دس دس روپے جمع کئے اور مجھے دے دیئے۔ روز رات کو چائے پی جاتی۔ ریڈیو پاکستان کی نشریات مثالی رہیں۔ میڈم نورجہاں، نسیم بیگم اور مہدی حسن کے گائے نغمے جذبہ حب الوطنی دوچند کردیتے۔ نغمے لکھنے والے تازہ کلام لکھتے اور موسیقار انہیں سرتال بخشتے، ایک سماں بندھ جاتا۔
میڈم نورجہاں نے جب یہ نغمہ گایا ’’ہائے نی جرنیل نی کرنیل نی‘‘ تو سپاہیوں نے شکوہ کیا کہ ہمارے لئے کون سا نغمہ گایا گیا ہے؟ اس پر ’’میریا ڈھول سپاہیا‘‘ والا نغمہ تخلیق کیا گیا۔اسی اثنا میں 10؍تاریخ کو چونڈہ میں ٹینکوں کی تاریخی جنگ لڑی گئی۔ دشمن کی یلغار روکنے کیلئے نوجوانوں نے جسم کے ساتھ بم باندھ کر ٹینکوں کو اڑا دیا اور فتح پائی۔ مجھے تین دن اپنے گھر کی کوئی خبر نہ ملی کہ ٹیلیفون کی سہولت میسر نہیں تھی۔ میرے والد کا گھر مصری شاہ میں تھا۔ چوتھے دن میں اور ساتھی طالبہ ٹیکسی میں سوار مصری شاہ روانہ ہوئے۔ راستے میں ابھی ہم ’’وسن پورہ‘‘ سے گزر رہے تھے کہ ہوائی حملہ ہوگیا، ہم سواری سے اتر کر ایک گھر کے تھڑے پر کھڑے ہوگئے۔
گھر والوں کو پتا چلا تو ہمیں اندر بلا لیا۔ گولیوں کی بوچھاڑ پڑتی رہی۔ آخر حملہ پسپا کردیا گیا اور ہم خیریت سے مصری شاہ پہنچ گئے۔ جب اپنے گھر کی گلی میں داخل ہوئے تو عجیب نظارہ دیکھنے کو ملا۔ محلے کے سات آٹھ سالہ لڑکے دو ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے،ان کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے ڈنڈے تھے۔ ایک ٹولی بھارت اور دوسری پاکستان کی طرف سے لڑ رہی تھی۔ ڈنڈے ٹکرا رہے تھے، ٹک ٹک کی آوازیں آرہی تھیں۔ پھر پاکستان کی ٹیم جیت گئی اور لڑکوں نے نعرہ لگایا۔ ’’پاکستان جیت گیا، پاکستان جیت گیا۔‘‘ یہ منظر دیکھ کر میں نے کہا کہ اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
کشمیر کے محاذ سے بھی اچھی خبریں آرہی تھیں۔ سرینگر ہماری توپوں کی زد میں تھا، مگر جانے کیا سازش ہوئی کہ کمانڈ تبدیل کردی گئی اور بھارت کو 24گھنٹوں کی مہلت مل گئی۔ یوں ہم نے کشمیر کھو دیا۔ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ اساتذہ اور انتظامیہ کے لوگوں کو فوری طبی امداد کی تربیت دینی چاہئے۔ چنانچہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر باقاعدہ کلاس لینے لگے۔ ہم سب نے یہ تربیت حاصل کی۔ یونیورسٹی کی رہائشی کالونی میں ایک ڈاکٹر کی ہمہ وقت موجودگی کا بھی انتظام کردیا گیا۔
جنگ کے دوران عوام کا جذبہ بھی قابل قدر تھا سوائے امراء کے وہ لوگ اپنی متاع عزیز، زیور اور رقم لئے لاہور چھوڑ گئے۔ راوی کے پل پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں۔ عام لوگ تو پاکستان ہی کو اپنی متاع تصور کرتے تھے۔ انہوں نے وہ دن بہت بے خوف ہوکر گزارے۔ ان 17دنوں میں کوئی چوری ہوئی، نہ کوئی ڈاکا پڑا، سارے جرائم ناپید ہوگئے۔ یہ جذبہ حب الوطنی کی کرامت تھی کہ سب لوگوں نے کندھے سے کندھا ملا کر وقت گزارا۔ کاش! اس جذبے کو جنگ کے بعد کوئی صحیح سمت دے دی جاتی۔
17دن کے بعد جنگ بندی ہوگئی اور رات کو روشنیوں سے شہر جگمگا گیا۔ طویل عرصہ تاریکیوں میں گزار کر یہ منظر بہت ہی دل خوش کن لگا۔ہماری فوجیں کچھ عرصہ محاذ پر رہیں۔ سردیوں کی آمد کے پیش نظر فوجیوں کیلئے گرم کپڑوں کا انتظام کیا جانے لگا۔ ہمارے ہاسٹل میں اون بھیج دی جاتی اور سوئٹر بنائے جاتے۔ چار لڑکیاں ایک دن میں ایک سوئٹر بنا لیتیں۔ ہمیں پھر صابن، کنگھیاں اور دیگر اشیاء مہیا کی گئیں کہ فوجیوں کے واسطے پیکٹ بنائے جائیں۔
میدان جنگ میں نوزائیدہ مملکت کی شیردل افواج نے پاکستان کا دفاع کیا اور بھارت کے اچانک حملے کو پسپا کردیا ۔پاکستان اللہ کی عطا ہے، وہی اس کی حفاظت کرتا چلا آرہا ہے۔ اس دیگ سے ہر کوئی مستفید ہوتا رہا ہے۔ دیگ بھی ایسی برکت والی ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی اور نہ ہوگی۔ انشاء اللہ! (ڈاکٹر مریم الٰہی کو پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے نیز آپ ہی نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ جغرافیہ کی بنیاد رکھی اور اسے پروان چڑھایا۔)