• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آزاد کشمیر: سیلاب سے زیادہ زلزلوں سے تباہی آئی

پاکستان کے چاروں صوبوں کی طرح آزاد جموں و کشمیر بھی آفات سماوی کی لپیٹ میں ہے آفات سماوی نظام قدرت کا حصہ ہے جو عذاب یا آزمائش کی صورت میں نازل ہوتا ہے بیشک یہ انسانوں کے لیے مقام عبرت ہے لیکن ان سے سبق سیکھنا اور مستقبل کی پیش بندی کی جاسکتی ہے ان آفات کا مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں لیکن بچاو ہمارے اختیار میں ہے بچاو کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرکے بڑےنقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔

آبی گزر گاہوں فلڈ لیول کی بات کریں تو قرآن و حدیث میں ہے کہ آبی گزرگاہوں سے دور آبادیاں بنائیں جہاں سے ایک مرتبہ پانی گزرا دوبارہ گزر سکتا ہے یہی صورت حال زلزلوں کے حوالے سے ہے جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا کر ٹاؤن شہر قصبے ایسی جگہ بنائے جائیں جہاں جیالوجی سروے میں قابل رہائش ہو آزاد کشمیر میں گزشتہ صدی کے دوران آنے والے سیلابوں سے اتنی تباہ نہیں ہوئی جتنی زلزلوں سے ہوئی ہے 2005 سے پہلے 1882 میں بھی آزاد کشمیر میں ایک بڑا زلزلہ آیا تھا۔

آبادی کے لحاظ سے نقصان کم ہوا لیکن زمینی تبدیلیوں کے آثار آج بھی موجود ہیں حالیہ سیلاب میں آزاد کشمیر میں اموات کی تعداد 41 افراد ہے ان میں کچھ افراد کی اموات جو کھلی آنکھوں سے خود موت کو گلے لگانا ہے ایسی طرح پاکستان کے چاروں صوبوں میں بھی 150 اموات ایسی ہیں جو لکڑیاں پکڑتے ہوئے غلط ڈرائیونگ خطرے ناک جگہوں سے گزرتے ہوئے ہوئی ہیں جب آفات سماوی آتی ہے اس کے بعد بہت ساری احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوتی ہے جس کی ادارے تربیت بھی دیتے رہتے ہیں لیکن لوگ اس پر علمدرآمد نہیں کرتے اس وقت آزاد کشمیر میں انڈین اور مقبوضہ کشمیر کے جیالوجیکل سروے کی رپورٹس نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا ہوا ہے کہ آزاد کشمیر مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر زلزلے آسکتے ہیں۔

انڈین اور سرینگر یونیورسٹی کے ماہرین جیالوجسٹس نے ستمبر یا اکتوبر 2022میں آزادکشمیر اور مقبوضہ جموں کشمیر کے خطہ میں بڑے متوقع زلزلے کی پیشنگوئی کی ہے ماہرین کے مطابق یہ زلزلہ 2005 میں پاکستان و آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے سے بھی کئی گنا زیادہ شدت کا ہو گا 8 اکتوبر 2005 کو آزاد کشمیر سمیت خیبر پختونخوا کے علاقہ بالاکوٹ میں آنے والے 8.2 شدت کے زلزلہ سے بہت بڑی تباہی ہوئی تھی، جس سے تقریباً 74 ہزار افراد شہید ہوئے تھے اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی اور معذور ہوئے تھے تین لاکھ سے زیادہ مکانات تباہ ہوگے تھے ان خوف ناک خبروں کے بعد آزاد کشمیر اور پاکستان کے ماہر جیالوجسٹ مرزا شاہد بیگ نے غیر ملکی جیالوجسٹوں کی پیشنگوئی پر نجی ڈیجیٹل میڈیا سے بات کرتے ہوئے ماہر جیالوجسٹ نے مظفرآباد آزادکشمیر سے گزرنے والی اور انڈین فالٹ لائن کو ایکٹو قرار دیے دیا ہے ماہر جیالوجسٹ کے مطابق آزادکشمیر سے گزرنے والی فالٹ لائینوں پہ پہلے بھی زلزلے آتے رہے ہیں اور آئندہ کسی بھی وقت زلزلہ آ سکتا ہے۔

تاہم لوگوں سے اپیل کی جاتی ہے کے وہ آگاہ رہیں اور احتیاطی تدابیر اپنائیں ان فالٹ لائینوں سے دور رہیں انکے اوپر یا 500 میٹر تک تعمیرات نہ کریں فالٹ لائنوں سے ایک کلو میٹر علاقے میں پری فائب تعمیرات کریں 8اکتوبر 2005کے تباہ کن زلزلہ کے بعد مظفرآباد شہر میں بے ہنگم اور کثیر منزلہ تعمیرات کسی بڑے سانحہ کو دعوت دینے لگی زلزلے کے بعد جائیکا سمیت عالمی اداروں نے ارضیاتی سروے کے بعد بلڈنگ کوڈ تجویز کیے تھے جیسے کسی حکومت نے ان پر عمل کرنا تو درکنار انہیں دیکھنا تک گوارہ نہ کیاجس کا فطری و منقطعی نتیجہ ایک مرتبہ پھر تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے میونسپل کارپوریشن اور ترقیاتی ادارے کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے مظفر آباد شہر کے لیے یہ نیا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ 

جاپانی ارضیاتی ادارے جائیکا کی رپورٹ کے مطابق خطرناک علاقے چہلہ بانڈی گوجرہ نالہ ماکڑی رنجاٹہ بابو محلہ طارق آباد ڈھریاں لوہار گلی تھیوری لوہر چھتر سنگڑی میراں ساتھرا ناقابل رہائش قرار دیئے تھے ان علاقوں میں سات منزلہ عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں تمام بڑے پلازے ایکٹو فالٹ لائن پر تعمیر ہورہے ہیں گوجرہ شوکت لائن دومیل کھڑی پن میں بڑے بڑے پلازے بن چکے ہیں چہلہ طارق آباد رنجاٹہ میں بھی سات منزلہ عمارتیں بن چکی ہیں اس تعمیرات کی این او سی ترقیاتی ادارہ اور میونسپل کارپوریشن صرف اور صرف این او سی فیس کے لیے جاری کررہے ہیں کہ انکی آمدن میں اضافہ ہو رہا ہے دھڑے سے این او سی جاری کررہے ہیں شہری علاقوں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی تعمیرات کسی بلڈنگ کوڈ کے بغیر ہورہی ہے۔

8 اکتوبر 2005 کے زلزلوں سے حکومت آزاد کشمیر اور عوام نے کوئی سبق نہیں سیکھا جاپان کے ارضیاتی ادارے نے آزاد کشمیر حکومت کو سیسمک رپورٹ اور دارلحکومت کا ماسٹر پلان دیا تھا جو ترقیاتی اداروں میونسپل کارپوریشنوں بلدیہ ٹاون کمیٹیوں محکمہ مواصلات لوکل گورنمنٹ کے دفاتر کے پاس موجود ہے جس میں سڑکوں پلوں کی تعمیرات کی جگہوں کی نشاندھی کی ہوئی ہے خطرناک علاقوں سے لوگوں کو نکال کر لنگرپورہ ٹھوٹھہ نئے ٹاون میں منتقل کرنا تھا لیکن حکومت آزاد کشمیر نے متاثرین زلزلہ کےلیے بنائے گے ٹاون کو نئی ہاوسنگ سکیم قراد دیکر لاکھوں روپے کے پلاٹ فروخت کردیے لوگ ان ہی خطرے ناک جگہوں پر آباد ہیں ان لوگوں کے پلاٹ حکومت نے فروخت کر دیے حالانکہ یہ ٹاون متاثرین زلزلہ کےفنڈز سے خریدے گی زمین پر بنائے گئے تھے جن خطرے ناک علاقے کے لوگوں کے لیے یہ اراضی خریدی گئی ان میں سے کسی ایک کو بھی پلاٹ نہیں ملا۔ 

ان لوگوں کی زندگیاں ایک مرتبہ پھر خطرے میں ہیں اس وقت حکومتی اداروں کی سرپرستی میں آزاد کشمیر کے اندر جو تعمیرات ہورہی ہے وہ کوئی بڑی تباہی کو دعوت دے رہی ہے حکومتی اداروں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اس وقت ہر گھر محلے گلی بازار مارکیٹوں میں ارضیاتی رپورٹ زیر بحث ہے حکومتی ادارے عوام کو اس حوالے سے کوئی آگاہی یا منصوبہ بندی نہیں کررہے 2005 کے بعد آزاد کشمیر میں پانچ حکومتیں گزر چکی کسی ایک نے بلڈنگ کوڈ پر تعمیرات نہیں کرائی سات خطرناک علاقوں میں سے ایک بھی خاندان کو محفوظ جگہ منتقل نہیں کیا گیا تقریباً 4 ارب ڈالر کی خطیر امداد چند افراد ادارے ہڑپ کرگئے نہ کوئی احتساب ہوا نہ انکوائری ہوئی نہ جےآئی ٹی بنی لوگ ایک اور بڑے زلزلے کے انتظار میں اپنی جانیں خطرے میں ڈالے ہوئے موت کے انتظار میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔

آزاد کشمیر کے شہروں گاوں قصبوں میں متاثرین سیلاب کی امداد کے لیے بڑے پیمانے پر امدادی کپمپ لگائے گے ہیں ابھی تک بلوچستان اور سندھ کے پی کے کے علاقوں میں امدادی ایشاء پہچانے میں کامیاب ہوچکے سرکاری سطح پر ملازمین کی ایک دن کی تنخواہ اور امدادی سامان متاثرہ علاقوں میں پہنچ چکا ہے اور مزید روانہ کیا جارہا ہے لوگ بڑھ چڑھ کر کار خیر میں حصہ لے رہے ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید