• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مہر بانو بمقابلہ موسیٰ گیلانی: انتخابی معرکے کا فائنل راؤنڈ

عمران خان بہاولپور میں جلسہ کے لئے آئے، تو انہوں نے روجھان کے سیلاب زدگان کے لئے بھی وقت نکال لیا، تھوڑی دیر کے لیے انہو ں نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا ، سیلاب زدگان سے ملاقاتیں کیں اور یہ کہہ کر روانہ ہوگئے کہ وہ سیلاب زدگان کے لئے بہت بڑی امدادی مہم چلانے والے ہیں ،جو چاروں صوبوں میں سیلاب سے متاثرین کو بحالی میں مدد دے گی،جبکہ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ وہ بڑے امدادی سامان کے ساتھ ڈیرہ غازی خان پہنچیں گے اور متاثرین سیلاب کی عملی طور پر مدد کرکے ان کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس سے پہلے سید یوسف رضا گیلانی بھی مسلسل تنقید سے تنگ آکر حلقہ 157 کی انتخابی مہم چھوڑ کر کر چند گھنٹوں کے لئے ڈیرہ غازی خان گئے اور انہوں نے بھی زبانی جمع خرچ کے سوا سیلاب زدگان کے لئے کچھ نہیں کیا، یوں سیاست دانوں کی طرف سے دیکھا جائے، تو وہ اتنا بھی نہیں کر سکے جتنا کہ فلاحی تنظیمیں اور معاشرے کے دیگر افراد کر رہے ہیں ، اس وقت ہر صاحب حیثیت شخص اپنی اپنی جگہ پر سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کوشاں ہے، مگر سیاست دانوں کی طرف سے ذاتی طور پر امداد کا کوئی سلسلہ دیکھنے میں نہیں آ رہا، جہاں تک عام مخیر حضرات یا فلاحی تنظیموں کا تعلق ہے، تو وہ بھی نظم و ضبط کے بغیر امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کس جگہ کتنی امداد پہنچنی چاہیے، اس کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے، کہیں بہت زیادہ امداد پہنچ رہی ہے اور کہیں سرے سے امداد پہنچ ہی نہیں رہی، ایسے علاقے بھی ہیں جہاں اب بھی سینکڑوں افراد پانی میں گھرے ہوئے ہیں اور ان تک امدادی ٹیمیں نہیں پہنچیں ، اگر سیلابی علاقوں کی انتظامیہ کوئی ایسا نظام وضع کر دے کہ جس کے ذریعے عام آدمی یا فلاحی تنظیمیں بھی مستحقین تک کسی رکاوٹ کے بغیر پہنچ سکیں تو اس کے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں، اس وقت انتظامیہ امداد تقسیم کرنے والوں کے درمیان کوآرڈینیشن کا شدید فقدان نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے متاثرین سیلاب کے حالات جوں کے توں موجود ہیں۔ 

ادھر ملتان میں آج عمران خان کی آمد ہے ، جو قومی حلقہ 157 کی انتخابی مہم کی ایک کڑی ہے، جہاں 11 ستمبر کو ایک اہم سیاسی مقابلہ ہونے جا رہا ہے، اس میں تحریک انصاف کی طرف سے شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی اور پی ڈی ایم کی طرف سے سے پیپلزپارٹی کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی ہیں ، عمران خان اپنے بہاولپور اور فیصل آباد کے جلسے میں خاصی متنازعہ باتیں کر چکے ہیں ،جن میں انہوں نے دھمکی دی کہ اگر انہیں دیوار سے لگایا گیا تو وہ اسلام آباد کو بند کر دیں گے جبکہ فیصل آباد کے جلسے میں انہوں نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ نواز شریف اور آصف زرداری اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں تاکہ اپنی کرپشن کا دفاع کرسکیں۔ 

یہ ایسی بات ہے کہ جسے ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، خاص طور پر حکومتی اتحاد نے اسے اداروں اور عوام کو لڑانے کی سازش قرار دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان ملتان کے جلسہ میں کیا نیا شوشہ چھوڑتے ہیں، آج کل ان کے لہجہ میں خاصی اضطرابی کیفیت نظر آتی ہے ، ایسے لگتا ہے جیسے وہ رفتہ رفتہ مایوس ہوکر جھنجھلاہٹ کا شکار ہو رہے ہیں، حالانکہ دو صوبوں میں ان کی حکومت ہے اور وہ اپنی جماعت کو نئے سرے سے منظم کر سکتے ہیں ، مگر وہ شاید ایسا نہیں کرنا چاہتے اور ان کا فوری مطالبہ یہی ہے کہ الیکشن کرائے جائیں، ملتان کے جلسہ میں وہ اپنے اس مطالبہ کو دہرائیں گے اور یقیناً سید یوسف رضا گیلانی پر بھی تنقید کریں گے، کیونکہ ان کا بیٹا علی موسی گیلانی تحریک انصاف کے امیدوار مہربانو قریشی کے مقابلہ میں ہے ، جہاں تک اس انتخابی مقابلے کا تعلق ہے تو اس میں اب الزامات کا سلسلہ بھی شامل ہوگیا ہے۔ 

تحریک انصاف کی طرف سے سید یوسف رضا گیلانی پر الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ ترکی سے ملنے والے سیلاب زدگان کی امداد کے ہار اور سامان کو بیچ گئے تھے جبکہ ان کے بیٹے کو ایفیڈرین کیس میں ملوث ہونے اور کروڑوں روپے کمانے کا الزام لگا کر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، یہ الزامات شاید اس انتخابی مہم میں زیادہ کارگر ثابت نہ ہوں ، کیونکہ ایک تو یہ بہت پرانے ہو چکے ہیں، دوسرا ان میں اتنی جان نہیں ہے کہ ووٹر ایسے الزامات سے متاثر ہو سکے، اس وقت اس الیکشن کے حوالے سے عجیب و غریب صورتحال ہے، خلاف معمول بڑی سیاسی برادریاں تقسیم ہوچکی ہیں ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی برادری کا بڑا جب کسی شخصیت یا جماعت کی حمایت کا اعلان کر دیتا، تو پوری برادری اس کی تائید کرتی تھی ، مگر اب برادری کے بڑے ایک طرف اور چھوٹے دوسری طرف کھڑے ہیں۔ 

اس کی مثال سابق وفاقی وزیر حاجی سکندر حیات بوسن کی حمایت سے دی جاسکتی ہے، جنہوں نے مہربانو قریشی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، مگر حلقہ 157 کی بوسن برادری اور ایسی یونین کونسلوں کے دھڑے جو اس برادری سے منسلک ہیں ،سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کرکے علی موسی کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ دیگر برادریاں بھی مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو چکی ہیں، مسلم لیگ ن جسے بلدیاتی سیاسی دھڑوں کی ہمیشہ حمایت حاصل رہی ہے۔ 

اس وقت اپنے ہی حمایت یافتہ سابق یونین چئیرمینوں کو علی موسی گیلانی کی حمایت پر آمادہ نہیں کر پا رہی اور ان کا رجحان تحریک انصاف کی طرف ہے ، برادری ازم کی اس تقسیم کی وجہ سے اس حلقہ میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ حلقہ 157کا یہ انتخابی معرکہ سیاسی جوڑتوڑ، الیکشن مہم کی حکمت عملی اور ذاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے ایک سخت مقابلہ ثابت ہوگا اور اس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید