• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابقہ مشرقی پاکستان جواب بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ 1956میں ڈھاکا میں پہلی بنگلہ فلم’’ مکھو مکھیش‘‘ سے فلم سازی کا آغاز ہواتھا۔ چھ سال کے بعد1962میں وہاں پہلی اردو فلم ’’ چندا‘‘ بنائی گئی۔ اس فلم کے پروڈیوسر ایف اے دوسانی اور مستفیض تھے، جب کہ کہانی، منظر نامہ اور ہدایت کار احتشام تھے۔ فلم کے نغمہ نگار ومکالمہ سرور بارہ بنکوی، جب کہ موسیقار روبن گھوش تھے۔ جمعہ 3اگست1962کو یہ فلم کراچی کے نشاط سنیما میں ریلیز ہوئی تھی۔ نشاط سنیما پر سلور جوبلی منانے والی اس فلم کو مجموعی طور پر54ہفتوں کا بزنس ملا اور شان دار گولڈن جوبلی منانے میں کام یاب ہوئی۔

ایک عام سی رومانی کہانی کو ہدایت کار احتشام نے بہترین انداز میں سلور اسکرین پرپیش کرکے فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا۔ڈھاکا سمیت ملک کے دیگر تمام شہروں میں اس فلم نے باکس آفس پر شان دار کام یابیاں حاصل کیں۔ اس سے ڈھاکا میں باقاعدہ اردو فلموں کی راہ ہموار ہوئی۔ اردو فلموں کا یہ سلسلہ1971تک جاری رہا۔ متعدد اردو فلموں نے کام یابی حاصل کرکے فلمی صنعت کی ترقی وترویج میں نمایاں کردار ادا کیے۔’’ چندا‘‘ کی صورت میں فلم بینوں کو ڈھاکا کے فن کاروں کو دیکھنے کا موقع ملا، نئے اور دل کش مناظر اور لوکیشن، جو بنگال کا جادو کہلاتے تھے، پہلی بار عام فلم بینوں کو سلور اسکرین پر دیکھنے کا موقع ملا۔ 

بنگالی بولنے والوں نے بھی اردو فلموں کو1971تک دل چسپی سے سینما گھروں پر دیکھا۔ ڈھاکا اور دیگر شہروں میں مغربی پاکستان میں بننے والی فلموں نے باکس آفس پر ہمیشہ اچھا بزنس کیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ایک بہت بڑے سرکٹ سے مغربی پاکستان کی فلمی صنعت محروم ہوگئی، جس سے فلمی صنعت کو بہت نقصان ہوا۔ فلم ’’ چندا‘‘ میں چندا کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ سلطانہ زمان کا اصل نام مینا زمان تھا، اس فلم میں وہ بے حد پسند کی گئیں۔ دوسرا اہم کردار اداکارہ شبنم نے ادا کیا، جو ایک غریب لڑکی، سمکی کا تھا، جو سمندر سے سیپیاں چُن کر اپنا اور گھر والوں کا گزر بسر کرتی تھی۔ سمکی اور چندا دونوں سہلیاں تھیں۔ 

چندہ، بستی کے سردار کی بیٹی اور سمکی ایک غریب کی بیٹی تھی۔ اداکار رحمان، جواس فلم کے ہیرو تھے، جس کا تعلق شہر سے تھا، وہ شہر سے دور ایک جزیرے نما ساحلی بستی کی طرف آتا ہے، یہ ایک مصور تھا۔ چندہ اور سمکی دونوں شہر سے آنے والے بابو مشتاق کو چاہنے لگی تھیں۔ مشتاق، سمکی کو چاہتا تھا، چندا سمجھتی تھی کہ بابو اس کو چاہتا ہے۔ اداکار مصطفٰے نے اس فلم میں منگو نامی شخص کا کردار کیا، جو اپنی اوباش طبیعت کی وجہ سے پوری بستی میں بدنام تھا، وہ سمکی سے شادی کا خواہش مند ہوتا ہے، جب اسے سمکی اور بابو کی محبت کا معلوم چلتا ہے، تو ساری بستی میں سمکی کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے۔ 

سبھاش دتہ جوڈھاکا کا شہنشاہ ظرافت کہلاتا تھا۔اس فلم میں وہ ڈینٹیسٹ ڈاکٹر بنے تھے، جو ایک ریٹائرڈ فوجی افسر جلیل افغانی کی بیٹی نرگس سے محبت کرتا تھا۔ اداکار بدرالدین نے بستی کے ہندو پجاری موہن کا کردار ادا کیا، جولالچی ہوتا ہے۔ اسے بستی کے بدمعاش منگو کا ساتھی دکھایا گیا۔ نارائن چکروتی نے چندا کے باپ کا کردار کیا، جو بستی کا سردار ہوتا ہے، دیگر اداکاروں میں انعام، رانی سرکار، رضیہ،فئیٹی محسن، رینو، اور اشرف کے نام شامل تھے۔

فلم کی مختصر کہانی کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک ساحل نما جزیرے پر ایک بستی آباد تھی، جہاں ناگ دیوتا کی پُوجا کی جاتی تھی۔ ناگ دیوتا کا اس بستی میں ایک پرانا مندر تھا،جس کا پجاری موہن (بدرالدین) تھا۔ اس بستی میں دوسہلیاں سمکی اور چندا کی دوستی بہت مشہور تھی ۔ایک روز سمکی اور چندا اپنی ہم جولیاں کے ساتھ ساحل سمندر پر ناچ گانا کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو جاتی ہیں۔ شہر سے آیا ہوا مصور مشتاق(رحمان) گیسٹ ہاوس میں ایک تصویر بناتا ہے ۔اس کا مسخرہ دوست ڈینٹسیٹ ڈاکٹر عبدالحاق( سبھاش دتہ) بھی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ سمکی سیپیاں لےکر ریسٹ ہاوس میں آکر بابو کو دے دیتی ہے۔ 

بابو اسے پیسے دیتا ہے۔ مشتاق کو پہلی ہی نظر میں سمکی سے محبت ہوجاتی ہے۔ بابو سے ملنے کے بعد سمکی گھرجا رہی ہوتی، تو راستے میں منگو (مصطفٰے) ملتا ہے، وہ سمکی کو چھیڑتا ہے۔ سمکی اس کا طوطا اڑا کر چلی جاتی ہے۔ سمکی گھر آکر اپنی ماں کو پیسے دیتی ہے ۔ کہتی ہے ڈاک بنگلے کے بابو نے ساری سیپیاں خریدلی ہیں۔ ساحل سمندر پر مشتاق ایک تصویر بنارہا ہوتا ہے، تو اسے کچھ لڑکیوں کی بچاو بچاو کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ مشتاق آکر ان کی مدد کرتا ہے۔ 

چندا کو ڈوبنے سے بچالیتا ہے۔ لڑکیاں مشتاق کو چندا کے بارے میں بتاتی ہیں کہ یہ سردار کی بیٹی ہے۔ چندا کو ہوش آتا ہے، تو وہ مشتاق کا شکریہ ادا کرتی ہے۔ برس کی راست میں جشن ہوتا ہے۔ چندا اور سمکی رقص کرتی ہیں۔ چندا ناچتے ناچتے بابو کے قدموں میں بیٹھ جاتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر سمکی وہاں سے چلی جاتی ہے۔ منگو، سمکی کی ماں کے پاس آکراس سے شادی کرنے کی بات کرتا ہے۔ چندا ڈاک بنگلے آتی ہے۔ بابو جو سمکی کی تصویر بنارہا ہوتا ہے، اسے سمکی سمجھ کر اظہار محبت کر بیٹھتا ہے، لیکن جب اس کی طرف دیکھتا ہے، تو چندا تھی۔ چندا بابو کے دل کا حال جان کردکھی ہوجاتی ہے۔ چندا وہاں سے جاتی ہے، راستے میں سمکی ملتی ہے۔ 

چندا اسے روک کر پوچھتی ہے کیا تو مجھ سے ناراض ہے، سمکی کہتی ہے کہ میں کیسے ناراض ہوسکتی ہوں، میں ایک غریب کی بیٹی اور تو ایک سردار کی بیٹی۔ چندا کہتی ہے، پگلی!! تیرا میرا ساتھ جنم جنم کا ہے، چندا کہتی ہے، سمکی بابو تیرا انتظار کررہا ہے، سمکی ڈاک بنگلے جاتی ہے، بابو کہتا ہے میں نے تیرا آج بہت انتظار کیا ۔سمکی میرا یا چندا کا،بابو کومنگو آکر کہتا ہے کہ سمکی کا خیال چھوڑ دے۔ منگو اور بابو میں لڑائی ہوتی ہے، منگو باہر جاتا ہے۔ سردار کہتا ہے کہ تیرا بیاہ منگو سے اگر نہیں ہوگا، تو ناگ دیوتا سے ہوگا۔

سمکی کہتی ہے منگوسے بہتر ہے، میں ناگ دیوتا سے بیاہ کرلوں۔ سردار سمکی اور ناگ دیوتا کے بیاہ کا اعلان کرتا ہے۔ یہ سُن کر سمکی کی ماں مرجاتی ہے۔ موہن پجاری اور قبیلے کے لوگ آکر بابو اور سمکی کو پکڑ کر سردار کے سامنے لاتے ہیں۔ سمکی، چندا کو دیکھ کرکہتی ہے کہ میری ان مشکلات کا کارن تو ہے۔ سردار مندر میں ناگ دیوتا کے سامنے سمکی اور بابو کو لاتا ہے، چندا اس موقع پر سانپ کو لےکر ناچتی ہے اور آخر میں سانپ کو خود پر ڈسوا کراپنی جان دے دیتی ہے۔

فلم چندا کی موسیقی کہانی کے پس منظر کے مطابق تھی۔ کل آٹھ گانے شامل تھے، جو سچویشن کے مطابق تھے۔ فلم کے سب سے مقبول گانے بول تھے؎ اکھیاں توری راہ نہاریں اوپردیسیا آجا اومن بسیا آجا۔ چندا سابقہ مشرقی پاکستان کی ایک روحانی فلم تھی، جسے سلطانہ زمان، شبنم اور رحمان کی عمدہ اداکاری کی نے ایک دل کش اور یادگار سپرہٹ بنا دیا۔ احتشام کی ڈائریکشن نے عام کہانی کو بہترین، مربوط اور خُوب صورت منظر نامے کے ساتھ پیش کرنے جو محنت کی، وہ انہیں کام یابی کی صورت میں ملی۔ چندا کی ملک گیر کام یابی نے وہاں اردو فلموں کی راہ ہموار کی۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید