• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس سال بارشیں بہت ہوئی ہیں اور تباہی بھی بہت مچی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور اہل وطن کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ مصیبت زدہ افراد کی مدد کریں۔

اِمسال بارش کی خبریں بھی برستی رہِیں ۔ لیکن ان خبروں میں جو الفاظ اورمحاورات استعمال ہوئے وہ محدود اور مخصوص تھے، مثلاً بارش، برسات، موسلادھار بارش، بوند اباندی، جل تھل ایک ہوگئے (کچھ نے تو ’’جل تھل ہوگیا‘‘ بھی لکھا جو درست نہیں ) ۔ بعض نامہ نگاروں نے تو ’’موسم ِ برسات ‘‘کی ترکیب بھی استعمال کی حالانکہ ثقہ حضرات اس کو درست نہیں سمجھتے کیونکہ برسات اردو کا لفظ ہے اور موسم عربی کا،ان دونوں کو جوڑنے کے لیے کسرہ ٔ اضافت (یعنی زیر ) استعمال کرنا درست نہیں ۔ اردو کے لحاظ سے برسات کا موسم کہنا چاہیے یا بارش کا موسم ۔ فارسی کے لحاظ سے موسم ِ باراں ہوسکتا ہے(باراں یا باران فارسی میں بارش کو کہتے ہیں)۔

بہرحال، اردو میں بارش اور اس کی مختلف کیفیتوں کے لیے الگ الگ الفاظ ہیں اور ان میں سے کچھ یہاں پیش ہیں:

٭…جھالا

اثر لکھنوی کے مطابق دھیمی دھیمی بارش جھا لا کہلاتی ہے۔ لیکن رشید حسن خان کے مطابق جھالا وہ تیز بارش ہے جو زیادہ دیر تک نہیں ہوتی اور کہیں ہوتی ہے کہیں نہیں ہوتی۔ یہ تشریح رشید صاحب نے اردو لغت بورڈ کی لغت سے لفظ بہ لفظ لی ہے۔ اس کی سند بورڈ نے فسانہ ٔ عجائب سے دی ہے جو یہ ہے: ’’ساون بھادوں کے جھالے، وہ رنگین جھولنے والے ، دشت ِ غربت میں یہ جلسہ جو یاد آجاتا ہے دل پاش پاش ہوجاتا ہے‘‘ ۔

٭…باجرا بَرَسنا

ویسے تو باجرا ایک قسم کا اناج ہے اور چھالیہ یعنی سُپاری کے چھوٹے چھوٹے گول کترے ہوئے ٹکڑوں کو بھی باجرا کہتے ہیں ۔ لیکن اردو کی مستند لغات مثلاً امیر اللغات، فرہنگ ِ آصفیہ اور فیلن کی لغت کے مطابق باجرا مجازاً بارش کی ننھی ننھی بوندوں کو کہتے ہیں۔ جب ننھی ننھی بوندیں برس رہی ہوں تو کہتے ہیں باجرا برس رہا ہے۔ نوراللغات میں بھی باجرا برسنا درج ہے اگرچہ اثر لکھنوی نے نور اللغات پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لکھنؤ میں کوئی نہیں بولتا لیکن اول تو امیر مینائی بھی لکھنؤ کے تھے اور ان کی لغت کی تیسری جلد میں باجرا برسنا درج ہے۔ دوسرے یہ کہ فیلن اور آصفیہ کا شمار بھی مستند لغات میں ہوتا ہے۔تیسرے یہ کہ اردو صرف لکھنؤ تک محدود نہیں ہے۔

٭… چھِینٹا (یائے معروف)

ہلکی بارش۔جب بارش تھوڑی سی دیر ہوکر گزر جائے تو کہتے ہیں چھینٹا پڑگیا یا چھینٹا ہوگیا، جیسے : سردیوں میں کبھی چھینٹا ہوجاتا ہے۔

٭…بُوندا باندی(واوِ معروف)

جب ننھی ننھی بوندیں مسلسل برس رہی ہوں تو کہتے ہیں بوندا باندی ہورہی ہے۔ یہاں بوند کے بعد جو الف ہے اسے الف ِ وصل کہتے ہیں اور یہ الف شدت، تسلسل، تکرار یا تواتر کے لیے آتا ہے، مبالغے کے لیے بھی مستعمل ہے ، جیسے :مالا مال، مارامار،بھاگا بھاگ، خونا خون، دھڑا دھڑ،کھٹا کھٹ وغیرہ۔

٭…موسلا دھار (واو ِمعروف )

مُو سل لکڑی کا ایک لمبا سا ڈنڈا ہوتا ہے جس سے غلہ کوٹتے ہیں ، لکڑی کے سونٹے کو بھی موسل کہتے ہیں۔ یہاں لفظ موسلا (موسل جمع الف)میں موسل کے بعد جو الف آیا ہے اسے الف ِ تشبیہ کہتے ہیں اور اس کا اضافہ ان مرکبات میں کیا جاتا ہے جن میں کسی چیز کو کسی دوسری چیز کے مشابہ قرار دینا ہو ۔جیسے موتیا یعنی موتی جیسا ، دُودھیا یعنی دُودھ جیسا اور موسلا یعنی موسل جیسا۔ تو موسلا دھارکا مطلب ہے موسل جیسی دھار والا۔یعنی جب کہاجائے کہ موسلا دھار بارش ہورہی تھی تو یہ کہنا مقصد ہوتا ہے کہ بارش کے پانی کے قطرے اتنے تسلسل سے گررہے تھے اور اتنے موٹے تھے کہ لگتا تھا جیسے موسلوں کی دھار بن گئی ہے۔ گویا موسلا دھار بارش کا مطلب ہے بہت زیادہ تیز بارش۔

٭…اَبر ِ رحمت یا اَبر ِ کرم برسنا

اَبر(الف پر زبر اور ب ساکن ) کہتے ہیں بادل کو۔ ابر ِ رحمت سے مراد ہے ایسا بادل جو خوب برسے اور جس سے فصلوں وغیرہ کو فائدہ پہنچے۔ نقصان نہ ہو۔اسے ابر ِ کرم بھی کہتے ہیں۔ گویا ابر ِ کرم برسنا یا ابر ِ رحمت برسنا یعنی ایسی بارش ہونا جو فائدہ مند ہو اور حسب ِ ضرورت ہو۔ مجازاً اللہ تعالیٰ کی عنایت اور احسان کو بھی ابرِکرم اور ابر ِ رحمت کہتے ہیں۔

٭…دَونگڑا (واو ِ لین)

بارش جو تیز ہو لیکن پھر دھیمی ہوجائے اور اچانک پھر تیز ہوجائے دونگڑا کہلاتی ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ 

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی