• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیلاب زدگان کی دلجوئی کیلئے وزیراعظم کے مسلسل دورے

بلوچستان میں تاریخ کی تباہ کن بارشوں کا سلسلہ تھمے اگرچہ کئی روز ہوگئے لیکن اب تک صوبے کے وسیع علاقے میں زندگی اب تک معمول پر نہیں آسکی بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ متاثرین کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے، طوفانی بارشوں اور تباہی پھیلانے والے سیلابی ریلوں کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جنہوں نے گزشتہ دنوں پاکستان کا دورہ کیا دورئے کے دوران انہوں نے بلوچستان کے بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورئے کے موقع پر بلوچستان میں تباہ کاریوں کا تصور سے قرار دیتے ہوئے عالمی ادروں کو امداد کے لئے آگئے آنے کا کہا۔

بلوچستان میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر کھلے آسمان تلے آج بھی بے یارومد دگار پڑئے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ان کے لئے زندگی گزارنا ہر نئے دن کے ساتھ مشکل ہوتی جارہی ہے ، دو وقت کی روٹی اور پینے کا صاف پانی حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے ، قومی شاہراہوں کی کئی روز تک بندش کے باعث صوبے میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت پیدا ہوئی تو ان کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں 20 کلو آٹا کی بوری کی قیمت 2500 روپے تک پہنچ گئی ہےفلور ملز ایسوسی ایشن بلوچستان ریجن  کے عہدیداروں نے بتایا کہ صوبے میں گندم کی ماہانہ ضرورت سولہ لاکھ  بوریاں ہیں جبکہ حکومت نے دو لاکھ 90 ہزار بوریاں پورے سیزن کیلئے رکھی ہیں ، گندم کی نقل و حمل پر پابندی لگانے سےبلوچستان میں گندم کی کمی کا سامنا ہے محکمہ خوراک بلوچستان کی جانب سے یومیہ بنیادوں پر ہر فلور ملک کو صرف تین سو بوری گندم دی جارہی ہے جو ناکافی ہے، تین ماہ قبل صوبائی کابینہ نے گندم کی خریداری کی اجازت دی تھی مگر اب تک خریداری نہیں کی گئی، نئے سیزن میں چھ ماہ باقی ہیں آئندہ دنوں میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایسے میں  اگر آئندہ چند دنوں میں اگر صوبائی حکومت دوسرئے صوبوں سے گندم کی خریداری یا وفاق سے گندم کے حصول میں کامیاب نہیں ہوتی ہے تو صورتحال کیا ہوگی اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ،  وزیراعظم میاں شہباز شریف بلوچستان میں بارشوں و سیلاب کی تباہی کاریاں شروع ہوتے ہی صوبے کے آفت زدہ علاقوں کے مسلسل دورئے کررہے ہیں۔ 

گزشتہ ہفتے بھی انہوں نے ضلع بولان کا دورہ کیا ، یاد رہے کہ ضلع بولان میں بارشوں اور سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں کے باعث گیارہ روز تک کوئٹہ کو گیس کی فراہمی مکمل طور پر بند رہی تھی جبکہ بجلی اس دوران جزوی طور پر بحال کی گئی تھی تاہم شہریوں کو بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہا ، ضلع بولان ہی میں سڑکیں بہہ جانے اور پل گرنے سے کوئٹہ کا بولان کے زریعے دوسرئے صوبوں سے رابطہ مکمل طور پر کئی دن تک منقطع رہا ، وزیراعظم میاں شہباز شریف مختصر مدت میں بلوچستان کے بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے مسلسل دورئے کررہے ہیں ان کا دورہ بولان متاثرہ علاقوں کا پانچواں دورہ تھا اس سے قبل وزیراعظم لسبیلہ ، جھل مگسی ، قلعہ عبداللہ ، قلعہ سیف اللہ کے دورئے کرچکے ہیں۔ 

دوسری جانب مختلف حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ کیا وزیراعظم کے صرف دوروں سے بلوچستان کے متاثرین کی مشکلات کا ازالہ اور دکھوں کا مداوا ہوسکے گا ، وزیراعظم بلوچستان کے لئے دس ارب روپے کی امداد کا اعلان کرچکے ہیں جو اب تک سامنے آنے والے ابتدائی نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی صورت کافی نہیں بلکہ اس اعلان کو تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ صرف محکمہ زراعت کی جانب سے اب تک آنے والے نقصانات کی ابتدائی تفصیلات ہی دہلانے دینے والے ہیں جن کے مطابق بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 1 لاکھ 90 ہزار ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلوں ، باغات ، 15800 ٹیوب ویلوں ، تالابوں اور سولرسسٹم کو نقصان پہنچا ہے جس کا ابتدائی تخمینہ 98 ارب روپے سے زائد ہے۔ 

وزیراعظم کی جانب سے صوبے کے لئے دس ارب روپے کے اعلان کو صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں صوبائی وزیر زراعت کا وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے فوری طور پر زمینداروں کے  ذمے زرعی قرضے ، بجلی اور گیس کے بل معاف اور 10 ہزار ٹریکٹر سبسڈی قیمت پر دیئے جائیں ، یاد رہے کہ وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ  نہ صرف صوبائی کابینہ میں شامل پہلے وزیر بلکہ صوبے کے پہلے سیاسی رہنما بھی ہیں جنہوں نے بلوچستان میں بارشوں کے پہلے دوسرئے اسپیل کے ساتھ ہی صوبے کے لئے وفاق سے 50 ارب روپے کے پیکیج کا مطالبہ کیا تھا جو اس وقت بہت سے حلقوں کو بہت بڑا مطالبہ محسوس ہوا تھا لیکن چند ہی ہفتے بعد انہی حلقوں نے ان کے مطالبے کو نہ صرف درست بلکہ نقصانات کے مقابلے میں کم قرار دیا ، صوبے میں بارشوں سے کس قدر نقصانات ہوئے ہیں۔ 

اس حوالے سے صورتحال اس وقت واضح ہوگی جب حکومت کی جانب سے کوئی سروئے کیا جائے گا ، تاہم اب تک جو نقصانات سامنے آرہے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات طے ہے کہ 10 ارب روپے کا اعلان ناکافی ہے اتنی رقم سے نقصانات کا ازالہ و متاثرین کی بحالی تو دور متاثرین کی فوری امداد بھی ممکن نہیں ہوگی اور اس وقت صوبے میں جو حالات ہیں ان میں متاثرین امداد و بحالی کے زیادہ دیر انتظار کے متحمل نہیں ہوسکتے متاثرین کی امداد و بحالی میں جتنی تاخیر ہوگی اس سے متاثرین کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید