• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیلاب کی تباہ کاریاں: ابھی تک درست تخمینہ نہیں لگایا جاسکا

سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہے کہاجارہا ہے کہ سیلابی پانی کو قدرتی راستوں سے نکالنے کے بجائے بااثرافراد اپنی زمینیں، حلقےمحفوظ کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر کٹ لگا کر پانی کا راستہ تبدیل کررہے ہیں جس کی وجہ سے سیلابی پانی کا اخراج نہیں ہوپارہا ، مذہبی ،فلاحی تنظیموں کی جانب سے امدادی سرگرمیاں جاری ہے تاہم بعض مقامات پر امدادی سامان بازاروں میں فروخت ہونے کی بھی اطلاعات مل رہی ہے حکومت سندھ کے اعدادوشمار کے مطابق اب تک16 لاکھ 3 سو 28 گھروں کو نقصان پہنچا ہے سیلاب سے 616 معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں 11563 لوگ زخمی 68 لاکھ 66 ہزار 501 لوگ ڈسپلیس ہوئے ہیں 5 لاکھ سے زائد لوگ ریلیف کیمپوں میں ہیں44 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

تاہم ابھی تک سائنسی خطوط پر نقصانات کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکا ہے اور نا ہی منظم طریقے سے امداد تقسیم کی جارہی ہے حکومت سندھ کے مطابق تادم تحریر پی ڈی ایم اے اور این ڈی اے سندھ میں ایک لاکھ پچاسی ہزار راشن بیگ، ایک ایک لاکھ تہترہزار سے زائد خیمے اور ٹینٹ تقسیم کرچکی ہے تاہم ان اعدادوشمار کے برعکس متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی امداد نہیں ملی متاثرین کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں اصل تباہی بارشوں سے ہوئی ہے اور سیلاب سے نہیں۔ 

سیلاب سے سندھ میں گزشتہ ہفتے ہی تباہی آئی ہے اور یہ بھی منچھر جھیل میں کٹ لگانے کی وجہ سے آئی ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ یہ بات بھی سمجھ میں نہ آنے والی ہے کہ جب منچھر جھیل میں سندھ کے پہاڑوں کا بارش کا پانی جمع ہورہا تھا تو اسی وقت اس کی نکاس کے لیے گیٹ کیوں نہیں کھولے گئے۔ اُس وقت دریا میں سیلابی صورتحال نہیں تھی اور پانی بہ آسانی ڈرین ہوسکتا تھا۔ جب دریا میں سیلابی پانی آگیا اور دریا کی سطح بلند ہوگئی تو ذمہ داروں کو خیال آیا کہ منچھر جھیل کی سطح خطرناک حد تک بلند ہوگئی ہے۔

دیر سے نکاسی کے فیصلے کی بنا پر نہ صرف جھیل کے پشتوں میں کٹ لگانے پڑے بلکہ دریا کی سطح بلند ہونے کے باعث دریا نے پانی الٹا جھیل کی جانب دھکیل دیا۔ اس کے باعث لاکھوں ایکٹر قابل کاشت اراضی پر لگی فصل ضائع ہوئی اور اب اس پر مہینوں پانی کھڑا رہے گا ، یوں گندم کی فصل بھی متاثر ہوگی۔ بلوچستان اور سندھ میں بارشوں سے تباہی کی داستان میں قدر مشترک برساتی پانی کے بہاو میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جس کی طرف میں نشاندہی کررہا ہوں ۔ 2019 میں سندھ ہائی کورٹ نے بھی حکم جاری کیا تھا کہ شمال سے جنوب کی طرف آنے والے پانی کے قدرتی بہاو کو بحال کیا جائے ۔

2010 میں آنے والا سیلاب بہت کچھ سکھانے کے لیے کافی تھا ۔ اسی وقت اس طرف توجہ دلائی گئی تھی اور منصوبہ بھی بنایا گیا تھا جس کے تحت قدرتی بہاو کی بحالی کے ساتھ ساتھ سیلابی پانی کی روک تھام کے لیے20 پرانی جھیلوں کو ڈھونڈنا اور انہیں بحال کرنا تھا ۔ اس منصوبے پر عمل بھی ہوا ، اس کے لیے عالمی قرضہ بھی وصول کیا گیا اور کام بھی مکمل ہوگیا مگر صرف کاغذات پر ۔ تجاوزات جوں کی توں قائم رہیں ، سو نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہ نہیں ہے کہ سندھ میں چھوٹے ڈیم نہیں ٹوٹے۔ یہاں بھی ٹوٹے مگر کم تعداد میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ڈیم تھے ہی اتنے۔ سندھ حکومت نے ڈیم بنائے ہی نہیں تھے ، اگر ہوتے تو وہ بھی ٹوٹتے۔ 

کراچی سے لے کر سکھر تک مین نیشنل ہائی وے ابھی تک بند ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راستے میں نہروں پر بنائے گئے سارے ہی نئے پل ٹوٹ گئے ہیں ۔ سوال یہ ہےکہ انگریز کے دور کے سو سالہ پل کیوں ہر سیلاب سہار جاتے ہیں اور سندھ حکومت کے بنائے گئے سارے ہی پل کیوں ٹوٹ گئے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظراقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اونتونیوگوترس نے پاکستان کا دورہ کیا ایئرپورٹ پر ان کا استقبال وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کیا۔ انہوں  نے کہاکہ سیلابی تباہی تصورسے زیادہ ہے، گلوبل وارمنگ دوسروں کی غلطی سزا پاکستان بھگت رہا ہے، بحالی میں مدد کی جائے، قدرتی آفات سے لڑنا ممکن نہیں مگر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات ہوسکتے ہیں، مزید تباہی کا انتظار نہیں کرناچاہیئے، وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ متاثرہ لوگوں کی بحالی ایک بڑاچیلنج ہے۔ 

اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو ہماری معاونت کے لیے آگے آنا ہوگا،سیکریٹری جنرل نے کہاکہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے باعث انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، پاکستان کو فوری طور پر بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے ، اقوام متحدہ عالم اور عالمی اداروں کو مشکل کی اس گھڑی میں فرخدالی سے پاکستان کی مدد کرنی چاہیئے۔ پاکستان میں سیلاب سے جو تباہی دیکھی ہے دنیا میں کسی بھی آفت کے دوران اتنی تباہی نہیں دیکھی،موسمیاتی تبدیلی آج کا بڑا مسئلہ ہے پاکستان دوسرے ممالک کے اقدامات کی قیمت چکارہا ہے ، کاربن کے پھیلاؤ میں20 ممالک کاحصہ 80فیصد ہے، ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آگے آنا چاہیئے، صنعتی ممالک کو بدترین کاربن کے اخراج میں کمی کرنی چاہیئے۔

آج پاکستان موسمیاتی تبدیلی کاشکار ہے تو کل کوئی اور ملک ہوگا، اگرفوری اقدامات نہ کئے گئے تو مسقتبل میں بہت زیادہ خطرہ ہوگا، مشکل کی اس گھڑی میں اقوام عالم اور عالمی اداروں کو پاکستان کی مددکنی چاہیئے کیونکہ پاکستان کو لاکھوںافراد کی بحالی کے لیے فوری طور پر بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے، بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ سیلاب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کا دورہ خوش آئند ہے اور اس دورہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے لیے امداد کی کوششوں میں عالمی برادری کا متحرک کرنے میں مدد ملے گی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید