• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فائزہ شاہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ، ایک بے حد خوبصورت اور گھنا جنگل تھا، جہان سارے جانور خوشی سے رہتے تھے۔ فاختائیں امن کے گیت گاتی تھیں، کوئل اپنی سریلی آواز میں نغمے سناتیں، یوں کہہ لیں کہ سارے جانور مل جل کر محبت سے رہتے تھے، ان ہی میں ایک حسد و جلن کا مارا بھیڑیا بھی تھا، جسے جنگل کا سکون ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح سے اس جنگل کا امن خراب کر دے، مگر وہ جنگل کے بادشاہ شیر سے ڈرتابھی تھا۔

ایک دن وہ شکار کی تلاش میں مارا مارا گھوم رہا تھا کہ اس کی نظر تالاب کے کنارے بیٹھی لومڑی پر پڑی۔ اس کے قریب جاکر بھیڑے نے گلا کھنکارا اور بولا،" کیسی ہو بی لومڑی؟۔

لومڑی نے چونک کر بھیڑے کی جانب دیکھا اور چوکنا ہوکر. بولی،"خیریت ہے نا بھیڑیے بھائی؟ "

بھیڑیا مسکین صورت بنا کر بولا،"بس بہن نہ پوچھو "۔

لومڑی حیران ہوکر بولی،" کیا ہوا پریشان لگ رہے ہو؟ "

بھیڑیا غصے سے بولا،" خیریت ہی تو نہیں ہے بہن، بی شیرنی زہر اگل رہی تھی تمہارے خلاف میرا تو غصے کے مارے برا حال ہوگیا۔"

لومڑی کچھ پریشان سی ہوئی،" کیا بول رہی تھی شیرنی؟ "

" ارے بہن وہ کہہ رہی تھی کہ لومڑی کو اپنی ذہانت اور بہادری پر بہت ناز ہے بلاوجہ کا، ورنہ اس جیسا بے وقوف اور ڈرپوک تو کوئی جانور ہے ہی نہیں، اگر اتنی ہی چالاک اور عیار ہے لومڑی تو میرے بچے جو ابھی چند دنوں کے ہی ہے، انہیں کوئی نقصان پہنچا کر بتائےتو میں اس کی بہادری اور ذہانت کو مان لوں گی۔"

لومڑی دل میں مسکرائی اور کھڑی ہوگئی،" چلو پھر ساتھ میرے، شیرنی کے سامنے ہی بات کرتے ہیں اور تم دونوں کے سامنے ہی میں اس کے بچوں کو اپنا نوالہ بنا کر دکھاتی ہوں۔"

بھیڑیا کھسیانا سا ہوا اور بات بدلتے ہوے بولا،" ارے میری بہن، تم اکیلی ہی جاؤ، مجھے تو ڈر لگتا ہے اس کے غصے سے۔"

لومڑی، بھیڑے کے اس تیزی سے رنگ بدلنے پر مسکرانے لگی اور بولی،"ابھی تو تمہیں غصہ آرہا تھا شیرنی پر اب کیا ہوا بھیڑیے بھیا ؟

بھیڑیا جانتا تھا کہ لومڑی بہت چالاک ہے ، خود کو سنبھالتے ہوے بولا،" ہاں غصہ تو تھا پر وہ جنگل کی ملکہ ہے نا ، مجھ کمزور سے بھیڑے پر وہ چڑھ دوڑے گی تمہاری تو بات ہی الگ ہے، تم اپنی عقلمندی سے اپنا کام کر آؤ گی، اس لیے مجھے تو اس معاملے سے دور ہی رکھو۔ "

یہ کہہ کر بھیڑیا وہاں سے رفوچکر ہوگیا۔ لومڑی اس کی چال پر دل ہی دل مسکراتی ہوئی شیرنی کے دربار میں پہنچی۔ لومڑی کو آتا دیکھ کر شیرنی اپنی کچھار سے باہر آئی اور بولی

"کہو لومڑی کیسے آنا ہوا؟۔"

لومڑی ادب سے بولی،" اے جنگل کی ملکہ، جان کی امان پاوں تو کچھ عرض کروں؟۔"

شیرنی بولی،"ہاں ہاں، کیا کہنا چاہتی ہو کہو؟۔"

لومڑی شیرنی کے قریب گئی اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا جو بھیڑیا اسے بتا کر گیا تھا شیرنی غصے سے پاگل ہوگئی اور بولی " کہاں ہے وہ بدبخت بھیڑیا آج اس کی خیر نہیں ہے۔ "

لومڑی جلدی سے بولی،" ملکہ عالیہ، غصے سے نہیں سمجھداری سے کام لیجیے، جس طرح وہ ہمیں لڑوانا چاہتا ہے ہم اس کو سزا اسی کی طرح چال کے ذریعے دینگے۔ "

شیرنی بولی،" وہ کیسے؟ "

لومڑی قریب جاکر شیرنی کو ساری بات سمجھا کروہاں سے چل دی - راستے میں ایک شکار کیے ہوے ہرن کے خون سے اپنا منہ آلودہ کیا اور بھیڑیے کی تلاش میں نکل پڑی- دور ایک گھنے درخت کے سائے میں لومڑی کو بھیڑیا اونگھتا نظر آیا ،وہ قریب جا کر بولی

"بھیڑے بھائی، دیکھو میں شیر کے بچوں کا شکار کر کے آئی ہوں، پر تم شیر کو نہ بتانا کہ میں نے اس کے بچوں کاشکار کیا ہے۔"

یہ سن کر بھیڑیا بدک کر کھڑا ہوگیا اور بے یقینی سے لومڑی کا چہرہ دیکھنے لگا ،جہاں واقعی میں خون لگا تھا۔

وہ خوشی میں جھوم گیا کہ اب جنگل میں فساد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

بھیڑیا اپنی خوشی چھپا کر خوشامدی لہجے میں بولا،" ارے واہ میری بہن، تم نے کیا کارنامہ کیا ہے۔ میں تو تمہاری سمجھداری اور بہادری کا قائل ہوگیا کیا بات ہے تمہاری۔ "

لومڑی مسکرا کرچل دی۔ کچھ دور جاکر وہ جھاڑیوں میں چھپ گئی اور بھیڑیے پر نظر رکھی۔

بھیڑیا، لومڑی کے جاتے ہی اٹھا اور چل پڑا - لومڑی بھی اس کے پیچھے تھی- وہ شیر کے دربار پہنچا لومڑی بھی اس کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی-

بھیڑیا بلند آواز میں کہنے لگا

" عالم پناہ، اے جنگل کے بادشاہ، اے ملکہ ، یہ کیا ہو گیا؟ کیا اب ایسا وقت بھی دیکھنا ہوگا کہ جنگل کے بادشاہ کے بچوں کو ایک معمولی اور کم عقل لومڑی اپنا شکار بنائےگی؟ کیا بادشاہ کی حکومت میں یہ سب ہوگا اسی کے بچوں کے ساتھ؟۔"

شیرنی اور شیر اس کی آواز پر باہر ائے- شیر گرج کر بولا،" کیوں چلا رہے ہو ،بے وقوف بھیڑیے، اور کیا اول فول بک رہے ہو؟"

بھیڑیے نے جب شیر کو غصب ناک دیکھا تو اس کی گھگھی بندھ گئی رونی صورت بنا کر بولا،

" بادشاہ سلامت، لومڑی نے آپ کے بچوں کا شکار کر لیا ہے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اسے سخت سے سخت سزا دیجیے آپ- "

شیرنی بپھرتی ہوئی آگے بڑھی اور بولی،" ہمارے بچے تو زندہ سلامت ہمارے پاس ہیں، مگر اب تم نہیں بچو گے میرا شکار بننے سے۔ تمہیں سزا مل کر رہے گی۔

غلط بات کرنے پر، لڑائی کرواکر جنگل کا سکون برباد کرنے پر اور دو لوگوں میں غلط فہمی پیدا کرنے کے جرم میں۔

لومڑی نے ہمیں پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ تمہارے ارادے کیا ہیں جب ہی وہ موجود ہے تمہارے پیچھے۔۔"

بھیڑیے نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو لومڑی کو کھڑا پایا- وہ سمجھ گیا کہ اس کی جنگل میں فساد کروانے کی سازش ناکام ہوگئی اس لیے اب بھاگنے میں ہی خیریت سمجھی،وہ سرپٹ بھاگ لیا اس طرح لومڑی کی عقلمندی سے جنگل کا امن برباد ہونے سے بچ گیا۔

پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی بھی کسی کی باتوں میں آکر کوئی قدم نہ اٹھائیں جب تک کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں اور کانوں سے سن نہ لیں۔