• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ نواب شاہ کی تحصیل قاضی احمد کی علی رضا نہر کا منظر ہے، جہاں پر بڑی تعداد میں لوگ کلہاڑیاں ڈنڈے اور دیگر آتشیں اسلحہ لے کر پہنچے ہوئے تھے، وہ علی رضا نہر کے کٹ کو جو کہ انتظامیہ کی طرف سے اس لیے ڈالا گیا تھا کہ اس کی وجہ سے قاضی احمد شہر کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا، سیلابی پانی زرعی زمینوں اور باغات کی سمت چلا جائے اور اس سلسلے میں انتظامیہ کی یہ کوشش تھی کہ اس سیلابی پانی کو جو کہ نہر میں بہہ رہا تھا، شہر کے دوسری جانب نکال دیا جائے، تا کہ قاضی احمد، جو کہ بڑی آبادی کا شہر ہے اور اس کے علاوہ ضلع شہید بینظیر آباد کا معاشی حَب بھی ہے، اس کو ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔ 

اس سلسلے میں پولیس نفری بھی وہاں پر تعینات کی گئی تھی، لیکن جو لوگ وہاں پہنچے تھے، وہ بڑی تعداد میں تھے اور اس کے پیش نظر کہ کہیں یہ لوگ اس کَٹ کو بند نہ کر دیں اور قاضی احمد شہر ڈوب جائے ، اس اثنا میں خطرے کو بھانپ کر وہاں موجود نفری نے بالا حکام کو مطلع کیا اور اس اطلاع پر ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی،اسسٹنٹ کمشنر قاضی احمد اپنے اسٹاف اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ وہاں پہنچے، اس وقت رات کا بڑا حصہ گزر چکا تھا اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا، ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور اس موقع پر تیزی کے ساتھ پانی جو کہ کھیتوں کی طرف شور شرابہ کرتا ہوا جارہا تھا، لیکن وہاں موجود مسلح افراد نے تیزی کے ساتھ مٹی ڈال کر اور ٹریکٹر کی مدد سے اس کٹ کو بند کیا۔ 

ان کا خیال تھا کہ اگر یہ کٹ جاری رہا تو ان کی زمینیں جو کہ پہلے ہی پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں، مزید ڈوب جائیں گی اور کئی کئی فٹ پانی ان کی فصلوں اور گھروں کو بھی نقصان پہنچائے گا، لیکن اس کے بدلے میں انہیں اس بات کا ادراک تو ضرور تھا کہ قاضی احمد شہر ان کے اس اقدام کے بعد پانی برد ہو جائے گا، لیکن انہیں اس کی کوئی غرض نہیں تھی اور پھر وہی ہوا، جس کا ڈر تھا!! جوں ہی پولیس کی بھاری نفری، وہاں پہنچی تو علی رضا نہر کا کٹ بند کرنے والے افراد بھی سامنے آگئے اور اس کے بعد انہوں نے بقول ایس ایس پی امیر سعود مگسی کے فائرنگ کی اور اس کے نتیجے میں ایک گولی اسسٹنٹ کمشنر قاضی احمد ذیشان ارشد کے گارڈ جو کہ مسلح افراد کے سامنے کھڑا تھا، کو لگی اور وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ 

اس موقع پرپولیس نے پوزیشن لی، لیکن صورتِ حال یہ تھی کہ انتہائی گھپ اندھیرا ہونے کی وجہ سے وہ مسلح افراد جو کہ نہر کا کٹ بند کر چکے تھے، فرار ہونے میں کام یاب ہو گئے۔ ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ ان کا پیچھا کرنے کے لیے راستے موجود نہیں تھے۔ تاہم اسسٹنٹ کمشنر کے پولیس گارڈ غلام شبیر گبول کو قاضی احمد اسپتال لایا گیا، چوں کہ قاضی احمد تعلقہ اسپتال میں بھی کئی کئی فٹ بارش کا پانی کھڑا ہوا تھا، اس لیے زخمی گارڈ کو نواب اسپتال لایا گیا۔ تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔

شہید پولیس اہل کار غلام شبیرکی نماز جنازہ اس کے آبائی گاؤں گوٹھ گل بیگ قبول میں ادا کی گئی، جس میں ڈی آئی جی عرفان بلوچ، ایس ایس پی امیر سعود مگسی سمیت علاقے کے معززین اور دیگر پولیس افسران و اہل کاروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی امیر سعود نے بتایا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے شہید کوٹہ کے تحت پولیس اہل کار کے ورثہ میں سے دو افراد کو ملازمت دی جائے گی اور اس کے علاوہ ایک کروڑ روپے کی امداد بھی دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کے غلام شبیر نے فرض کی ادائیگی کے دوران اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ملزمان کے خلاف ایف آئی آر داخل کی گئی ہے، جن میں چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے جب کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ شہید کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور اس کے ساتھ انصاف ہوگا، اس موقع پر شہید پولیس اہل کار کے والد حاجی اللہ بخش گبول کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے نے فرض کی راہ میں شہادت دی ہے اور ہم اس پر فخر کرتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شہید پولیس اہل کار کے بھائی کا کہنا تھا کہ پولیس کے مدعیت میں جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس کے سلسلے میں ہمیں تحفظات ہیں۔ 

ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ ایف آئی آر ورثاء کی جانب سے درج کی جاتی اور ہم اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا، بعض بااثر ملزمان کو اسے فیار میں شامل نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ہمیں خدشہ ہے کہ اس ایف آئی آر کا کوئی اثر ملزمان پر نہیں ہوگا، جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا بھائی غلام شبیر بول جو کہ وہاں پر خاک و خون میں تڑپ رہا تھا ، محکمے کے بعض ذمے داران اس کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے اور بعد میں اس کے ساتھیوں نے اس کو اٹھا کر اسپتال پہنچایا ، اس وقت خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اگر زخمی ہوتے ہی میرے بھائی کو فوری طور پراسپتال پہنچا دیا جاتا، تو ممکن تھا کہ اس کی جان بچ جاتی ادھر دوسری جانب نے آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن نے نواب شاہ پہنچ کر پولیس افسران کے اجلاس کی صدارت کی۔ آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ سندھ میں سیلاب کی صورت حال نے لوگوں کو آزمائش میں مبتلا کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی جمع پونجی بارش کی نذر ہوگئی ہے، جب کہ لاکھوں لوگ سیلابی پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ 

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ اس سلسلے میں فورسز بھی اپنی ذمے داریاں نبھا رہی ہے اور محکمہ پولیس کا فرض ہے کہ وہ اپنے بارش اور سیلاب زدگان بھائیوں کی مدد کرے، انہوں نے کہا کہ بھوک اوربد حالی انسان کو جرائم کی طرف راغب کرتی ہے اور ایسے موقع کا فائدہ اٹھا کر جرائم پیشہ عناصر اپنی سرگرمیوں کو تیز کر دیتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پولیس کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے اور جہاں تک پولیس کی روزمرہ کی ڈیوٹی کا تعلق ہے تو اس کے علاوہ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہو جاتا ہے ۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید