کیمرے کی آنکھ سے فلم اور ڈراموں کے کرداروں کو زندگی دینے والے ہنر مند کو آج کی رنگین دُنیا میں ڈی او پی (ڈائریکٹر آف فوٹو گرافی) کہا جاتا ہے، جو کچھ فلم اور ڈرامے کے ڈائریکٹر کے ذہن میں ہوتا ہے، اسے خوب صورتی اور سلیقے سے اسکرین پر پیش کرنا کسی بھی ڈی او پی کا کمال ہوتا ہے۔ ابھرتے ہوئے نوجوان ڈی او پی، شایان لطیف شیخ نے برق رفتاری سے کام یابی کا سفر طے کیا۔
وہ شو بزنس کی چمکتی دمکتی دنیا میں بہت خوش نصیب ثابت ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے کیریئر کے ابتداء ہی میں بڑے پروجیکٹس مل گئے، جس کی وجہ سے انہیں معیاری اور اعلیٰ درجے کا کام کرنے کا موقع ملا۔ سب سے الگ اور سب سے جُدا فلم بنانے والے ڈائریکٹر بلال لاشاری کی فلم’’وار‘‘ کے دوران شایان نے بہت کچھ سیکھا، پھر توبلال اور شایان کا ایسا ساتھ ہوا کہ اب ایک دوسرے کے لیے ضروری ہو گئے ہیں۔ بلال، شایان کے بغیر کوئی پروجیکٹ نہیں کرتے ہیں۔
شایان لطیف شیخ کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اوورسیز پاکستان فائونڈیشن پبلک اسکول سے حاصل کرنے کے بعد کیمرج سے اے لیول کیا۔ بعدازاں سائوتھ ایشن موشن پکچرز سے سینما ٹوگرافی اور ڈائریکشن کے شعبے میں ڈگری حاصل کی۔ 2009ء سے اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز کرنے والے شایان 13برس کی عمر میں فلم ایڈیٹر اور کیمرہ آپریٹر بن گئے تھے۔ اس دوران انہوں نے فلم اور ڈراموں کی باریکیاں سیکھیں۔ اب تک وہ کیمرے کی آنکھ سے پاکستان کے کئی سپراسٹارز کو فلم بند کر چکے ہیں۔
ان میں اداکار شان، استاد راحت فتح خان ، ماہرہ خان، فواد خان، حمزہ علی عباسی، مایاعلی ، شہریار منور، معمر رانا اور دیگرشامل ہیں، انہوں نے بلال لاشاری، انجم شہزاد اور سید نور جیسے منجھے ہوئے ڈائریکٹرز کے ساتھ عمدہ کام پیش کیا۔ سپرہٹ فلم ’’وار‘‘ بھائی وانٹڈ ، تیرے باجرے دی راکھی اور آئندہ ماہ ریلیز ہونے والی پاکستان فلم انڈسٹری کی سب سے مہنگی اور بڑے بجٹ کی فلم’’دل لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ میں چیف کیمرہ آپریٹر کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کی ریلیز کے بعد کئی ہنرمندوں اور فن کاروں کی قسمت بدلنے والی ہے۔ ان میں شایان لطیف شیخ بھی شامل ہوں گے۔
کیمرے کی آنکھ سے شاہ کار فلمیں اور ڈرامے بنانے والے ڈی او پی شایان شیخ نے جنگ کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ فلم ’’وار‘‘ کی غیر معمولی مقبولیت نے مجھے شناخت دی۔ بلال لاشاری جیسے ذہین ڈائریکٹر ساتھ ملا، ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے میری بھرپور انداز میں تربیت کی۔ مجھے ابتدا میں نامور اداکار حمزہ علی عباسی نے اپنی فلم کے لیے بہ طور پر ڈی او پی کام کرنے کا موقع دیا تھا۔ بعدازاں لالی وڈ کے سینئر ڈائریکٹر سید نور نے اپنی دو فلموں کے لیے میری خدمات حاصل کیں۔ مجھے ان شخصیات کے ساتھ کام کرکے بہت اچھا لگا‘‘۔
’’شو بزنس میں کس طرح آمد ہوئی؟‘‘ ہمارے اس سوال کے جواب میں شایان شیخ نے بتایا کہ میرے والد لطیف شیخ کا تعلق فنِ اداکاری سے رہا ہے، ہمارے گھر نامور اداکار محمد علی، ندیم، مصطفیٰ قریشی وغیرہ بھی آتے تھے۔ بچپن سے ان فن کاروں کو دیکھا۔11برس کی عمر سے شو بزنس سے وابستہ ہُوں، والد صاحب کی وجہ سے ایڈیٹنگ اور کیمرہ چلانے کا شوق بھی پیدا ہوا۔ میں نے فلموں ڈراموں اور نامور گلوکاروں کے نغموں کی ویڈیوز میں بہ حیثیت ’’ڈی او پی‘‘ کام کیا۔ پاکستان کے بڑے برانڈز کے ٹی وی کمرشلز بھی بنائے۔ میں اپنے کام کو انفرادیت لانے کے لیے مختلف میڈیم کے لیے کام کرتا ہوں۔ مقدار پر نہیں، معیار پر توجہ دیتا ہُوں۔ مستقبل میں ایک بڑا ڈائریکٹر بننے کی خواہش ہے، والدین کی دعائوں سے ایک دِن اپنی منزل تک پہنچ جائوں گا۔‘‘
آئندہ ماہ ریلیزہونے والی میگا اسٹارز فلم ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ میں بہ حیثیت چیف کیمرہ آپریٹر کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا ہے۔ شایان نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’مولاجٹ‘‘ کی شوٹنگ اور کہانی کافی طویل ہے۔ 2013ء میں ’’وار‘‘ کی شان دار کام یابی کے بعد بلال لاشاری نے ’’مولاجٹ‘‘ بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا تھا۔ 2015ء میں ہماری ٹیم نے مولا جٹ پر کام شروع کر دیا تھا۔ دو سال ہم نے پِری پروڈکشن پرکام کیا۔ پھرہم نے مکمل ٹیم بنائی اورسوچا کہ فلم کوکس بہترین کیمرے پر شوٹ کیا جائے۔2017ء میں ریڈ کمپنی کا نیا کیمرہ آنے والا تھا۔
اس کا ہم نے ایڈوانس آرڈر کیا۔2017ء میں کیمرہ آیا اور ہم نے اسی برس شوٹنگ کا آغاز کردیا۔ مولاجٹ اپنی نوعیت کی بالکل الگ فلم ہے۔ اس میں ہم نے اس VFXاستعمال کیا کہ اس سے قبل کسی بھی پاکستانی فلم میں استعمال نہیں ہوا۔ ہم نے جدید ٹیکنالوجی سے وہ دور دکھایا ہے، جس میں نہ بجلی ہے اور نہ ہی بندوقیں۔ بلال لاشاری نے زیرو کمپرومائز پر فلم مکمل کی، جس میں ان کی محنت، لگن اور جنون شامل ہے۔ شوٹنگ کے دوران ہمارے کئی ساتھی زخمی بھی ہوئے۔ ’’مولا جٹ‘‘ کے یونٹ کے ساتھ ڈھائی سال تک میں جُڑا رہا۔ فن کاروں سے بھی خُوب گپ شپ رہی۔ 2017ء سے 2019ء تک کام کرنے کے بعد کیمرہ کلوز کیا ، بعد میں مولا جٹ کی ایڈیٹنگ کا حصہ بھی رہا۔ لائٹ، سائونڈ اور ڈبنگ میں بھی ساتھ رہا۔‘‘
مولا جٹ کی اور کیا کیا خاص باتیں ہیں‘‘؟ اس سوال کےجواب میں شایان نے کہا کہ کوئی ایک بات نہیں ڈیھروں خوبیاں ہیں اور یہ ہالی وڈ کے معیار کی فلم ہے۔ مولا جٹ، اس کی انفرادیت سے کون انکار کر سکتا ہے، اس طرح کی فلم پاکستان میں پہلے کبھی نہیں بنائی گئی۔ آئندہ بھی اس طرح کی شاہ کار فلم بنانے کے لیے بلاول لاشاری جیسا جنون ، بے پناہ، سرمایہ درکار ہوگا۔ ڈھائی برس کی شوٹنگ کے دوران کئی دل چسپ واقعات پیش آئے۔ سب جانتے ہیں کہ فواد خان کو شوگر ہے، اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئیے دن رات ایک کردیا تھا۔ شوٹنگ کے دوران وہ کئی بار زخمی بھی ہوئے۔17برس کی عمر میں انہیں شوگر ہوگئی تھی، مگر اس کے باوجود بھی زخمی ہونے کی پروا کیے بغیرخطرناک سین فلم بند کرواتے رہے، اُن کاجنون قابل دید تھا۔
فائٹنگ سین نے زخمی کے نشانات ابھی بھی ان کے جسم پر نظرآتے ہیں۔ دوسری جانب ماہرہ خان اورحمائمہ ملک کا پنجابی زبان سے دُور دُور کا تعلق نہیں تھا، جب کہ مولا جٹ پنجابی میں بنائی گئی ہے۔ ان دونوں فن کارائوں کو پنجابی زبان کے جملے دُرست کروانے کے لیے ایک ٹیوٹر رکھا گیا، جو ان کی شوٹنگ کے دوران جملے کی ادائیگی دُرست کرواتا تھا۔ جب آپ فلم دیکھیں گے، تو کسی بھی سین میں آپ کو یہ احساس تک نہیں ہوگا کہ یہ دونوں فن کارائوں کو پنجابی نہیں آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ’’مولا جٹ‘‘ کے پروجیکٹ میں سب سے زیادہ محنت بلال لاشاری کی ہے۔
انہوں نے فلم کی تیاری میں تقریباً دس برس لگائے۔ انہوں نے 30گھنٹوں تک مسلسل کام کیا، دن دیکھا، نہ رات ، وہ اپنی نیند کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔ اُن کا جنون دوسرے فلم ڈائریکٹرز کے لیے ایک مثال بن گیا ہے۔ اب میں قارئین کو سب سے اہم بات بنانے والا ہوں کہ ’’مولا جٹ‘‘ کے سیٹ پر جب حمزہ علی عباسی نے اپنا کام مکمل کیا، تو انہوں نے اچانک اعلان کردیا کہ یہ میرا آخری پروجیکٹ ہے۔ اس پر سب حیران رہ گئے۔
اس کے بعد سے اب تک انہوں نے شوبزنس میں کوئی کام نہیں کیا، یہ حقیقت ہے کہ ’’نوری نت‘‘ کا کردار حمزہ علی عباسی سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے بڑے دبنگ انداز میں ’’نوری نت ‘‘ کاکردار نبھایا ہے۔ آخر میں صرف یہ ہی کہوں گا کہ مولا جٹ فلم انڈسٹری کی رونقیں بحال کردے گی۔‘‘